محمد وارث

لائبریرین
ہر کسے گویند ناصر حالِ خود با دوست گو
حالتے دارم من اندر دل کہ آنرا نام نیست


درویش ناصر بخاری

سبھی کہتے ہیں کہ اے ناصر اپنا حال دل سے کہہ دے، جب کہ میرے دل میں ایسی کیفیات ہیں کہ اُن کا کوئی نام ہی نہیں ہے، اُن کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که را دیدم درین عبرت‌سرا
بهرِ مُردن زندگانی می‌کند

(بیدل دهلوی)
میں نے اِس عِبرت سرا (دنیا) میں جس کو بھی دیکھا، وہ مرنے کے لیے زندگانی کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسکه فطرت‌ها ضعیف افتاده‌است
تکیه بر دنیایِ فانی می‌کند

(بیدل دهلوی)
فطرتیں اتنی زیادہ ضعیف و ناتواں ہو گئی ہیں کہ [اب] وہ دنیائے فانی پر تکیہ و اعتماد کرتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کِلکِ بیدل هر کجا دارد خرام
سکته هم نازِ روانی می‌کند

(بیدل دهلوی)
بیدل کا قلم جہاں بھی خِرام کرتا ہے، [وہاں] سکتہ بھی نازِ روانی کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عدمم داد ز جولان‌گهِ دل‌دار سُراغ
خاکِ ره گشتم و نقشِ قدمی پیدا شد

(بیدل دهلوی)
میری معدومی نے دلدار کی جولاں گاہ کا سُراغ دیا۔۔۔ میں خاکِ راہ ہوا اور ایک نقشِ قدم ظاہر ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
داغم که چرا پیکرِ من سایه نگردید
تا در قدمِ سروِ خرامانِ تو باشد

(بیدل دهلوی)
میں [اِس حسرت سے] داغ ہوں کہ میرا پیکر کس لیے سائے [میں تبدیل] نہ ہوا تاکہ وہ تمہارے سروِ خراماں [جیسی قامت] کے قدم میں ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سهل است گُذشتن ز هوس‌هایِ دو عالَم
گر مردِ رهی یک دو قدم درگُذر از خود

(بیدل دهلوی)
دو عالَم کی خواہشوں سے گُذر جانا (تَرک کرنا) آسان ہے۔۔۔ اگر تم مردِ راہ ہو تو ایک دو قدم اپنے آپ سے گُذرو (یعنی ذرا خود کو تَرک و فراموش کرو)۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دل فُسُرد و آرزوها در کنارش داغ شد
بر مزارِ شمع جایِ گُل پرِ پروانه ماند

(بیدل دهلوی)
دل [بُجھ گیا اور] سرد و افسُردہ ہو گیا، اور آرزوئیں اُس کے کنارے [حسرت سے] داغ ہو گئیں۔۔۔ شمع کی مزار پر گُل کی بجائے پروانے کا پر باقی رہ گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نشد در این درس‌گاهِ عبرت به فهمِ چندین رساله پیدا
جنون‌سوادی که کردم امشب ز سیرِ اوراقِ لاله پیدا

(بیدل دهلوی)
جُنون کی جو معلومات و تعلیم و قابلیت میں نے اِمشب گُلِ لالہ کے اوراق (بَرگوں) کی سیر و تماشا سے حاصل کی ہے، وہ مجھ کو اِس درس گاہِ عبرت (دنیا) میں کئی رسالوں کو فہم کرنے سے بھی حاصل نہ ہوئی۔
× اِمشب = اِس شب، آج شب
 

حسان خان

لائبریرین
نشد کیفیّتِ احوالِ خود بر هیچ کس روشن
درین عبرت‌سرا آیینه نایابست پِنداری

(بیدل دهلوی)
کسی بھی شخص پر کیفیتِ احوالِ خود روشن [و واضح] نہ ہوئی۔۔۔ اِس عبرت سرا (دنیا) میں گویا آئینہ نایاب ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ازین عبرت‌سرا گفتم چه بُردند آزرومندان
حقیقت‌محرَمان گُفتند داغِ ناشِناسایی

(بیدل دهلوی)
میں نے کہا کہ: "آرزومنداں اِس عبرت سرا (دنیا) سے کیا لے کر گئے؟"۔۔۔ محرَمانِ حقیقت نے کہا: "ناشِناسائی کا داغ۔"
 

حسان خان

لائبریرین
درین عبرت‌سرا مگْشا نظر زِنهار بی‌عبرت
که می‌گردد ز گوهر قیمتی تارِ نگاه اینجا

(صائب تبریزی)
اِس عبرت سرا (دنیا) میں عبرت کے بغیر ہرگز نظر مت کھولو۔۔۔ کہ یہاں تارِ نگاہ گوہر کے باعث/ذریعے قیمتی ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هست اِکسیری اگر صائب درین عِبرت‌سرا
رُویِ سُرخِ خویش را از درد زرّین کردن است

(صائب تبریزی)
اے صائب! اگر اِس عبرت سرا (دنیا) میں کوئی اِکسیر موجود ہے [تو وہ] خود کے چہرۂ سُرخ کو درد کے ذریعے زرّیں (یعنی زرد) کرنا ہے۔
× اِکسیر = مِس (تانبے) کو طَلا (زر) بنا دینے والا فرضی مادّہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جلوهٔ دنیا بُوَد در دیده‌اش موجِ سراب
هر که را صائب درین عبرت‌سرا بینا کنند

(صائب تبریزی)
اے صائب! اِس عبرت سرا (دنیا) میں جس بھی شخص کو بینائی عطا ہوتی ہے، اُس کی نظر میں جلوۂ دنیا موجِ سراب ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
درگُذر صائب از اسباب، کز این عبرت‌گاه
هر چه با خود نتوان بُرد، وبال است تُرا

(صائب تبریزی)
اے صائب! [مال و] اسباب سے صرفِ نظر کر لو اور اُن کو تَرک کر دو، کیونکہ اِس عبرت گاہ (دنیا) سے جو بھی کچھ خود کے ساتھ نہیں لے جایا جا سکتا، وہ تمہارے لیے وبال ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دیدهٔ هر که نشد باز درین عبرت‌گاه
روزگارش همه در خوابِ پریشان گُذَرد

(صائب تبریزی)
اِس عبرت گاہ (دنیا) میں جس بھی شخص کی چشم نہ کُھلی، اُس کے تمام ایّام خوابِ پریشاں میں گُذرتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما اگر هیچ نداریم درین عبرت‌گاه
للهِ الْحمد که چشمِ نگَرانی داریم

(صائب تبریزی)
اگر[چہ] اِس عبرت گاہ (دنیا) میں ہم کچھ نہیں رکھتے
الحمدللہ کہ ہم ایک دیکھنے والی چشم رکھتے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
هر باد که از سویِ بخارا به من آید
زو بُویِ گُل و مُشک و نسیمِ سمن آید

(رودکی سمرقندی)
شہرِ بُخارا کی جانب سے جو بھی باد (ہوا) میری جانب آتی ہے، اُس سے گُل و مُشک و سَمَن کی خوشبو آتی ہے۔

× مندرجۂ بالا بیت کا یہ متن بھی نظر آیا ہے:
هر باد که از سویِ بخارا به من آید
با بُویِ گُل و مُشک و نسیمِ سمن آید

(رودکی سمرقندی)
شہرِ بُخارا کی جانب سے جو بھی باد (ہوا) میری جانب آتی ہے، [وہ] گُل و مُشک و سَمَن کی خوشبو کے ساتھ آتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بوَد در اضطراب از اہلِ عالَم ہر کہ کامل شد
طپیدن درمیانِ جملہ اعضا قسمتِ دل شد


غنی کاشمیری

ساری دنیا کے لوگوں میں سے جو کوئی بھی کامل ہوا وہی اضطراب و پریشانی و بے چینی و بے قراری میں جا پڑا جیسے کہ سارے اعضا میں سے دھڑکنا اور مضطرب ہونا صرف دل کی قسمت میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که را باشد دهن تلخ از ملال
تلخ یابد لذّتِ آبِ زُلال

جس بھی شخص کا دہن ملال و رنج و بیزاری کے باعث تلخ ہو، اُس کو آبِ زُلال کا مزہ [بھی] تلخ محسوس ہوتا ہے۔
× آبِ زُلال = آبِ صاف و شیرین و خوش گوار

× مندرجۂ بالا بیت معین‌الدین محمد ابن محمود نیشابوری کی 'بصایرِ عینی' نامی قرآنی تفسیر سے اخذ کی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top