سید عاطف علی
لائبریرین
به خونم زد رقم، تا با قلم شد آشنا دستش
پریرُویی که میبُردم به مکتب من کتابش را
(صائب تبریزی)
جس پری رُو [کو لکھنا سِکھوانے کے لیے] مَیں اُس کی کتاب کو مکتب لے جایا کرتا تھا [اور وہاں جا کر، سیکھنے کے لیے اُس کو وہ کتاب دیتا تھا]، اُس کا دست جیسے ہی قلم سے آشنا ہوا تو اُس نے میرے [ہی] خُون سے تحریر لکھ دی۔
واہ۔۔۔۔اس پر ایک عربی کلام یاد آگیا۔
اُعلمہُ الرمایۃَ کلَ یومِِ
فلما اشتَد ساعدہُ رمانی
وکم علمتہُ نظمَ القوافی
فلما قالَ قافیۃ ََ ہجانی
میں نے اسے روزانہ نشانہ بازی سکھاتا رہا۔
جس اس کے بازو قوی ہوئے اس نے مجھے نشانہ بنایا۔
میں نے اسے کتنی ہی قافیہ بندی سکھائے۔
جب اس نے کچھ کہا تو میری ہجو کہی ۔