محمد وارث

لائبریرین
چوں نفس از مدعائے جُست و جو آگہ نی ام
ایں قدر دانم کہ چیزے ہست و من گم کردہ ام


ابوالمعانی میراز عبدالقادر بیدل

سانسوں کے آنے جانے (جُست و جو) کی طرح، میں بھی اپنی تلاش کے مقصد و مطلب سے آگاہ نہیں ہوں، ہاں اس قدر ضرور جانتا ہوں کہ کوئی چیز ہے سہی جسے میں گم کر بیٹھا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
شُورَوی (سوویت) دَور کی تاجکستانی 'انقلابی' فارسی شاعری کا ایک نمونہ:
عِصیان کن اِمروز، ای مردِ دهقان،
ضِدِّ اسارت، ضِدِّ امیران!
در جوش آ چون بحرِ کبیری،
شوریده برخیز مانندِ طوفان!
تا کَی مشقّت در قسمتِ ماست؟
تا چند راحت در کامِ بایان؟
بدتر ز مرگ است این زندگانی،
دُنیا به مایان - گور است و زندان!
این گور و زندان ویران نماییم،
تا روز بینیم مانندِ انسان!

(میرزا تورسون‌زاده)
اے مردِ دہقاں! اسیری کے خلاف اور حاکِموں کے خلاف اِمروز (آج) بغاوت کر دو۔۔۔ کسی بحرِ عظیم کی طرح جوش میں آؤ، اور طوفاں کی مانند شورش کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ کب تک مشقّت ہماری قسمت میں ہے؟۔۔۔ کب تک راحت اغنیاء کو نصیب رہے؟۔۔۔ یہ زندگانی موت سے بدتر ہے۔۔۔ دُنیا ہم مردُم کے لیے قبر و زندان ہے!۔۔۔ [آؤ،] اِس قبر و زندان کو ویران کر دیں۔۔۔ تاکہ ہم [ایک باعِزّت] انسان کی طرح روز (دِن) دیکھیں!

× ماوراءالنہری فارسی میں تُرکی الاصل لفظ 'بای' ثروتمند و مالدار و غنی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
طوطیانِ فلکی جُمله شَکَرخوار شوند
در مقامی که بِخندیم بدان سان من و تو

(مولانا جلال‌الدین رومی)
جس مقام پر میں اور تم اس طرح ہنس دیں وہاں فلک کے طوطے سب کے سب شَکَر خور (یعنی شیریں گُفتار) ہو جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
غُلامم جُز رِضایِ تو نجویم
جُز آن راهی که فرمودی نپویم
ولیکن گر به این نادان بِگویی
خری را اسبِ تازی گو نگویم

(علامه اقبال لاهوری)
میں غُلام ہوں، میں تمہاری رضا کے سوا کچھ تلاش نہیں کرتا/نہیں کروں گا۔۔۔ جو راہ تم نے حُکم فرمائی ہے، اُس کے سوا میں کسی پر نہیں چلتا/نہیں چلوں گا۔۔۔ لیکن اگر تم اِس نادان سے کہو کہ میں کسی خر کو اسپِ تازی کہوں تو میں نہیں کہوں گا۔
× اسپِ تازی = عربی گھوڑا
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

دُنیا طلباں ز حرص مستند ہمہ
مُوسیٰ کش و فرعون پرستند ہمہ
ہر عہد کہ با خدائے بستند ہمہ
از دوستیِ حرص شکستند ہمہ


یہ دنیا کے طلب گار، یہ سارے کے سارے لالچ میں مست، یہ مُوسیٰ (و قومِ مُوسیٰ) کے قتل کرنے والے یہ فرعونوں کے پجاری۔ انہوں نے (سدھر جانے کے) جتنے بھی عہد خدا سے کیے، وہ سب کے سب لالچ کی دوستی و مستی میں توڑ ڈالے۔
 
شادم که بر انکارِ من شیخ و برهمن گشته جمع
کز اختلافِ کفر و دین خود خاطرِ من گشته جمع


میں اس بات پر شاد ہوں کہ میرے انکار پر شیخ اور برہمن دونوں اکٹھے ہوگئے کہ میری خاطر کفر و دیں کے اختلاف سے ہی جمع ہوئی ہے(میرا وجود کفر و دیں کے اختلاف کا مجموعہ ہے)۔

مرزا غالب
 

حسان خان

لائبریرین
عُمری‌ست به هجر مُبتلایم
این جور و جفا بِگو که تا چند

(شاه صادق کشمیری)
ایک عُمر سے میں ہجر میں مُبتلا ہوں۔۔۔ بتاؤ، یہ سِتم و جفا کب تک [کرو گے]؟
 

حسان خان

لائبریرین
چون تو به جهان کسی ندیدم
گشتیم به مُلک مُلک هرچند

(شاه صادق کشمیری)
میں نے دُنیا میں تم جیسا کوئی نہ دیکھا۔۔۔ اگرچہ میں مُلک مُلک پِھرا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دل گشت ز قیدِ عالَم آزاد
زانگه که شدم به عشق پابند

(شاه صادق کشمیری)
جس وقت سے میں عشق کا اسیر ہوا، [میرا] دل عالَم کی قید سے آزاد ہو گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زندگی جنگِ وجودِ ماست با تیغِ زوال،
تا به پیروزیِ کی انجام یابد این نبَرد.

(فرزانه خُجندی)
زندگی ہمارے وجود کی تیغِ زوال کے ساتھ جنگ [کا نام] ہے۔۔۔ [اب دیکھتے ہیں کہ] بالآخر یہ جنگ کس کی فتح یابی پر خاتمہ پائے گی۔

مأخوذ از: مُهرِ گُلِ مینا، فرزانه خُجندی

× شاعرہ کا تعلق تاجکستان سے ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حمدیہ بیت:
ای یادِ تو مُونسِ روانم
جز نامِ تو نیست بر زبانم

(نظامی گنجوی)
اے کہ تمہاری یاد میری جان کی مُونِس و ہمدم ہے۔۔۔ میری زبان پر تمہارے نام کے بجُز نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حمدیہ بیت:
از خوانِ تو بانعیم‌تر چیست؟
وز حضرتِ تو کریم‌تر کیست؟

(نظامی گنجوی)
تمہارے دسترخوان سے زیادہ پُرنعمت چیز کیا ہے؟۔۔۔ اور تمہاری حضرت سے زیادہ کریم کون ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
چُنان مستم، چُنان مستم، که رشکِ باده می‌آید،
بِگو باده مرا نوشد، که من باده نمی‌نوشم.

(فرزانه خُجندی)
میں اِس طرح مست ہوں، میں اِس طرح مست ہوں کہ شراب کو رشک آتا ہے۔۔۔ شراب سے کہو کہ وہ مجھ کو نوش کرے، کہ میں شراب نہیں نوش کرتی/نہیں نوش کروں گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
هستم، ولی چُنان، که نه هستم، نه نیستم
(فرزانه خُجندی)
میں ہوں، لیکن اِس طرح، کہ نہ ہوں، [اور] نہ نہیں ہوں
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
من مهسَتی‌ام بر همه خوبان شده طاق
مشهور به حُسن در خُراسان و عراق
ای پورِ خطیبِ گنجه از بهرِ خدا
مگْذار چنین بِسوزم از دردِ فراق

(مهسَتی گنجوی)
میں مہسَتی ہوں، میں تمام خُوباں میں مُنفرد و یکتا ہوں۔۔۔ میں حُسن کے لحاظ سے خُراسان و عراق میں مشہور ہوں۔۔۔ اے شہرِ گنجہ کے خطیب کے پِسر! خُدارا یہ روا مت رکھو کہ میں دردِ فراق سے اِس طرح جلتی رہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
گر من به مثَل هزار جان داشتَمی
در پیشِ تو جُمله بر میان داشتَمی
گُفتی دلِ هجر هیچ داری گُفتم
گر داشتَمی دل دلِ آن داشتَمی

(مهسَتی گنجوی)
اگر میرے پاس مثلاً ہزار جانیں ہوتیں، [تو بھی] میں اُن تمام کو تمہارے پیش میں رکھ دیتی (یعنی تم پر قُربان کر دیتی)۔۔۔ تم نے کہا "کیا تم ذرا بھی ہجر کا دل (یعنی طاقت و جُرأت) رکھتی ہو؟"۔۔۔ میں نے کہا: "اگر میں دل رکھتی، تو ہجر کا [بھی] دل رکھتی۔" (یعنی میرا دل تو تمہارے پاس ہے۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
چوں چنگم از زمزمۂ خود خبرم نیست
اسرار ہمی گویم و اسرار ندانم


مولانا رُومی

میں چنگ (ساز) کی طرح ہوں اور مجھے اپنے ہی نغموں کی خبر نہیں ہے۔ میں (ازلی) اسرار (صاف صاف اور مسحور کن انداز میں) بیان کرتا ہوں لیکن میں خود ہی یہ اسرار نہیں جانتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
یا رب آن کس را بِیامُرزی که بعد از مرگِ ما
روحِ ما را او به تکبیری کند گه‌گاه یاد

(نامعلوم)
یا رب! اُس شخص کے گُناہ مُعاف کر دینا جو ہماری موت کے بعد گاہے گاہے ہماری رُوح کو تکبیر (اللہ اکبر) کے ساتھ یاد کرے گا۔

× یہ بیت اُس فارسی دیوان سے مأخود ہے جس کو شیخ مُحیی الدین عبدالقادر گیلانی سے منسوب کیا گیا ہے، لیکن مجھ کو یقین ہے کہ یہ دیوان اُن کا نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بُرون آ شه‌سوارِ من تعلُّل بیش از این تا کَی
ز حد بِگْذشت مُشتاقی تحمُّل بیش از این تا کَی

(نامعلوم)
اے میرے شہسوار! بیرون آ جاؤ۔۔۔ یہ بہانہ تراشی و تاخیر مزید کب تک؟۔۔۔ مُشتاقی حد سے گُذر گئی۔۔۔ تحمُّل مزید کب تک؟

× یہ بیت اُس فارسی دیوان سے مأخود ہے جس کو شیخ مُحیی الدین عبدالقادر گیلانی سے منسوب کیا گیا ہے، لیکن مجھ کو یقین ہے کہ یہ دیوان اُن کا نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُلّا شاه بدَخشی کی مثنوی 'یوسف و زُلیخا' کی بیتِ اوّلین:
اِلٰهی حُسنِ یوسف دِه بیان را
بِدِه عشقِ زُلیخا این زبان را

(مُلّا شاه بدَخشی)
اے خدا! [میرے] بیان کو حُسنِ یوسف عطا کرو۔۔۔ [اور میری] اِس زبان کو عشقِ زُلیخا عطا کرو۔
 
آخری تدوین:
Top