یہ بیت فردوسی طوسی کی ہے۔ شاہنامۂ فردوسی میں یہ بیت رُستم کی سِتائش میں کہی گئی تھی:ساحلِ سندھ کے قیامت خیز معرکے میں سلطان جلال الدین کا شکست کے بعد 180 فٹ گہرے دریا میں کودنے پر چنگیزخان کے کاتب کا نذرانہِ شعر
بگیتی کسے مرد ازیں ساں ندید
دھرتی پر نہ تو ایسا مردِ بہادر دیکھا گیا
نہ از نامدارانِ پیشِ شنید
نہ ہی گذشتہ ناموروں میں کسی ایسے کے بارے میں سنا گیا
عطا ملک جوینی از ،،جہاں کشا،،
ہوسکتا ہےیہ بیت فردوسی طوسی کی ہے۔ شاہنامۂ فردوسی میں یہ بیت رُستم کی سِتائش میں کہی گئی تھی:
به گیتی کسی مرد ازین سان ندید
نه از نامدارانِ پیشین شُنید
(فردوسی طوسی)
دُنیا میں کسی شخص نے اِس طرح کا مرد نہیں دیکھا۔۔۔ [اور] نہ سابق نامداروں میں سے [کوئی اِس طرح کا مرد] سُنا۔
رُباعی از میرزا محمد افضل سرخوش
واعظ گفتا کہ نیست مقبول دُعا
زاں دست کہ آلود بہ جامِ صہبا
رندے گفتا کہ تا بوَد جام بہ دست
دیگر بہ دعا کسے چہ خواہد ز خدا؟
واعظ نے کہا کہ دعا قبول نہیں ہوتی، اُن (اُٹھے ہوئے) ہاتھوں کی کہ جو شراب کے جام سے آلود ہوں (شرابی کی)۔ ایک رند بولا کہ جب تک ہاتھوں میں جام ہے تو کوئی دعا کر کے خدا سے اور کیا بھی مانگے گا؟
واعظ گفتا کہ نیست مقبول دعا
زاں دست کہ آلود بہ جامِ صہبا
رِندی گفتا کہ تا بود جام بہ دست
دیگر بہ دعا کَسے چہ خواہد ز خُدا
واعظ نے کہا کہ دعا قبول نہیں ہوتی اُن اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی جو شراب کے جام سے آلودہ ہوں۔ ایک رِند بولا جَب تک ہاتھوں میں جام ہے تو کوئی دعا کرکے خدا سے اور کیا مانگے گا ۔۔۔ ؟
(میرزا محمد افضل سَرخوش )
معذرت اب دوبارہ ایسا نہیں ہو گاسردار محمد نعیم صاحب آپ سے بارِ دگر گزارش ہے کہ یہاں مراسلہ ارسال کرنے سے پہلے دیکھ لیا کریں کہ پہلے سے موجود تو نہیں. آپ کے اب تک تمام مراسلے فقط مکرر ہیں
بہتر یہ ہوگا کہ مترجم کا نام لکھ دیا کریں ورنہ یہ بھی ایک طرح کی بددیانتی ہو گی۔در طلب کوش و مدہ دامن امید زدست
دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے
طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ
یہ ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی سر راہ ہاتھ آ جاتی ہے۔
. . . . . . . . علامہ اقبال۔ . ۔۔۔ . .
اچھا بہت بہتر محترم .بہتر یہ ہوگا کہ مترجم کا نام لکھ دیا کریں ورنہ یہ بھی ایک طرح کی بددیانتی ہو گی۔