حسان خان

لائبریرین
شہرِ «دمشق» کی سِتائش میں «مولویِ رومی» کی ایک بیت:
زان صُبحِ سعادت که بِتابید از آن سو
هر شام و سحَر مستِ سحَرهایِ دِمَشقیم
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اُس جانب سے (یعنی «دمشق» کی جانب سے) تابَندہ و درخشاں ہوئی صُبحِ سعادت کے سبب ہم ہر شام و سحَر «دمشق» کی سحَروں کے مست ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عیدِ قُربان» کے بارے میں «مولویِ رومی» کی ایک بیت:
خویش فربِه می‌نماییم از پَیِ قُربانِ عید
کان قصابِ عاشقان بس خوب و زیبا می‌کُشَد

(مولانا جلال‌الدین رومی)
ہم عیدِ [قُربان] کی قُربانی کے لیے خود کو فربہ و چاق کر رہے ہیں کیونکہ وہ قصّابِ عاشِقاں [فقط] بِسیار خُوب و زیبا [قُربانی ہی] کو قتل (ذِبح) کرتا ہے۔
× فربہ = موٹا
 

حسان خان

لائبریرین
عهد کردیم که جان در سرِ کارِ تو کُنیم
وگر این عهد به پایان نبَرَم نامَردم
(سعدی شیرازی)

ہم نے عہد کیا [تھا] کہ ہم جان کو تمہاری راہ میں فدا کر دیں [گے]۔۔۔ اور اگر میں اِس عہد و پَیمان کو اِختتام تک نہ پہنچاؤں تو میں پست و رذیل شخص ہوں!
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعر «محمود عبدالباقی 'باقی'» کی ایک فارسی بیت:
دهانت چشمهٔ خضر ار نباشد پس چرا هر دم
چو آبِ زندگی از دیدهٔ مردُم نِهان آمد

(محمود عبدالباقی 'باقی')
[اے یار!] اگر تمہارا دہن «خِضر» کا چشمۂ [آبِ حیات] نہیں ہے تو پس پھر کس لیے وہ ہر لمحہ آبِ حیات کی مانند چشم و نظرِ مردُم سے نِہاں رہا ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رحمی بِدِه خُدایا آن سنگ‌دل جوان را
یا طاقتی و صبری این پیرِ ناتوان را
(عبدالرحمٰن جامی)

خُدایا! یا اُس سنگ‌دِل جوان کو ذرا رحم دے دو، یا [پھر] اِس پِیرِ ناتواں کو ذرا طاقت و صبر [دے دو]!
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «صائب تبریزی» کی ایک تُرکی غزل کا مطلع:
ساقیا مَی‌دن رُفو قېل چاک بولموش کؤنلۆمۆ
قېل بو ایسی قان ایله‌ن پَیوند اۆزۆلمۆش کؤنلۆمۆ

(صائب تبریزی)
اے ساقی! میرے چاک‌شُدہ دِل کو شراب سے رفو کر دو!۔۔۔ اِس گرم خُون کے ذریعے میرے دلِ بُریدہ و پارہ پارہ کو پَیوند کر دو!

Sâkiyâ meyden rüfû kıl çâk bulmuş könlümü
Kıl bu isi kan ilen peyvend üzülmüş könlümü
صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ:
ساقیا! با مَی رُفو کن این دلِ ویرانِ من
رگ به رگ پَیوند زن این قلبِ خون‌افشانِ من

(حُسین محمدزاده صدّیق)
اے ساقی! میرے اِس دلِ ویراں کو شراب سے رفو کر دو!۔۔۔ میرے اِس قلبِ خُون‌افشاں کو رگ بہ رگ پَیوند کر دو!
 

حسان خان

لائبریرین
«منوچهری دامغانی» ایک مدحیہ قصیدے میں ایک ممدوح کی مدح میں کہتے ہیں:
معروف گشته از کفِ او خاندانِ او
چون از سخایِ حاتمِ طَی، خاندانِ طَی
(منوچهری دامغانی)

اُس کے دستِ [جُود و سخا] سے اُس کا خاندان معروف ہو گیا ہے۔۔۔ [ویسے ہی] جیسے «حاتمِ طَے» (حاتمِ طائی) کی سخاوت سے خاندانِ «طَے» [معروف ہو گیا تھا]۔
 

حسان خان

لائبریرین
«شراب» کی سِتائش میں ایک ہزار سال قبل کہی گئی «منوچهری دامغانی» کی ایک خَمریّہ نظم کی اختتامی چار ابیات:

آزاده رفیقانِ منا من چو بِمیرم

از سُرخ‌ترین باده بِشویید تنِ من
از دانهٔ انگور بِسازید حنوطم
وز برگِ رزِ سبز رِدا و کفنِ من
در سایهٔ رز اندر گوری بِکَنیدم
تا نیک‌ترین جایی باشد وطنِ من
گر روزِ قیامت بَرَد ایزد به بهشتم
جُویِ مَیِ پُر خواهم از ذوالمِننِ من
(منوچهری دامغانی)

اے میرے نجیب و کریم و آزادہ رفیقو!۔۔۔ میں جب مر جاؤں تو میرے تن کو سُرخ‌ترین شراب سے دھوئیے!۔۔۔ میرے لیے دانۂ انگور سے حَنوط بنائیے (یعنی دانۂ انگور سے عطر بنا کر میرے مُردہ جسَد پر مَلیے)، اور سبز برگِ درختِ انگور سے میری رِدا اور کفن بنائیے!۔۔۔ میرے لیے سایۂ درختِ انگور میں ایک قبر تیّار کیجیے۔۔۔ تاکہ اِک خوب‌ترین جا میرا مسکن ہو!۔۔۔ اگر بہ روزِ قیامت ایزد تعالیٰ مجھ کو بہشت لے جائے تو میں اپنے خُدائے ذُوالمِنَن سے ایک پُرشُدہ جُوئے شراب چاہوں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شہرِ «حلَب» سرزمینِ «شام» کا ایک اہم‌ترین شہر ہے۔ مجھے یہ جان کر بِسیار شادمانی ہوئی ہے، اور میں آپ ہمہ کو بھی مُژدہ دینا چاہتا ہوں، کہ اِس عظیم و تاریخی شامی شہر میں بھی ہماری محبوب‌ترین زبان فارسی کے قدمِ خُجَستہ پہنچے ہیں، اور یہاں بھی ایک زمانے میں شعرِ فارسی کی شمعِ پُرنور فُروزاں رہی ہے۔ اِس شہر سے تعلق رکھنے والے ایک عُثمانی شاعر «حلَب‌لی ادیب» (وفات: ۱۱۶۱ھ) کے دیوانِ اشعار کی ورَق‌گردانی کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ شاعرِ مذکور نے فارسی میں بھی چند غزلیات و رُباعیات و ابیات کہی ہیں۔ بہ علاوہ، اُنہوں نے «حافظِ شیرازی» کی ایک فارسی غزل کی تخمیس بھی لِکھی تھی۔ اُس تخمیس سے ایک بند مُلاحظہ کیجیے (اگرچہ یہ بند قافیے کے لِحاظ سے ذرا عَیب‌دار ہے):

خارِ کدَر ز ساحهٔ دل کنده شد به عشق

رنگِ ملالِ بیمِ الم خنده شد به عشق
ذوقِ حیات دائمه [کذا] پایندہ شد به عشق
هرگز نمیرد آن که دِلش زنده شد به عشق

ثبت است بر جریدهٔ عالَم دوامِ ما
(حلَب‌لی ادیب)

عشق کے ذریعے سے صحنِ دل سے کُدُورت و رنجیدگی کا خار اُکھڑ گیا۔۔۔ عشق کے ذریعے سے خَوفِ الَم کے ملال کا رنگ، خندے (ہنسی) [میں تبدیل] ہو گیا۔۔۔ عشق کے ذریعے سے ذَوق و لذّتِ حیات دائماً پایندہ ہو گئی۔۔۔ جس شخص کا دل عشق کے ذریعے زندہ ہو گیا، وہ ہرگز نہ مرے [گا]!۔۔۔ جریدۂ عالَم پر ہمارا دوام ثبْت ہے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شریعتِ یہودیت میں شراب حلال ہے، اور یہودیوں کے دینی مراسم کا جُزء رہا ہے کہ وہ ہر ہفتے اپنے مُقدّس روز «یومِ سبْت»، یعنی روزِ شنبہ، کے طعام کے ساتھ شرابِ انگوری پیتے ہیں۔ یہودیان ایسا مدہوش و مست ہونے کے لیے نہیں کرتے، بلکہ یہ شراب‌نوشی اُن کے نزدیک شادمانی و جشن کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ایک فارسی شاعر «ابوالنّجم احمد بن قَوص بن احمد منوچهری دامغانی» ایک ہزار سال قبل لِکھی ایک خَمریّہ نظم کی اِبتدائی دو ابیات میں مذکورہ یہودی رسم و عادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

به فالِ نیک و به روزِ مُبارکِ شنبَد
نبیذ گیر و مدِه روزگارِ نیک به بد
به دین موسی اِمروز خوش‌ترست نبیذ
بِخور مُوافقتش را نبیذِ نَو شنبَد
(منوچهری دامغانی)


فال و شُگونِ نیک کے لیے اور بہ روزِ مُبارکِ شنبہ شراب [دست میں] لو، اور زمانِ خُوب و نیک کو بدی کے سُپُرد مت کرو۔۔۔ دینِ «موسیٰ» میں اِمروز شراب خُوب‌تر ہے۔۔۔ [لہٰذا] اُس کی مُوافقت میں بہ روزِ شنبہ شرابِ نَو پِیو!
 

حسان خان

لائبریرین
«منوچهری دامغانی» ایک قصیدے میں آغازِ موسمِ بہار کی زیبائیوں کی توصیف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

نرگس همی رُکوع کند در میانِ باغ
زیرا که کرد فاخته بر سرو مؤذّنی
(منوچهری دامغانی)


نرگِس باغ کے درمیان رُکوع کرتی/کر رہی ہے۔۔۔ کیونکہ فاختہ نے درختِ سرْو پر مُؤذِّنی کی [ہے]۔
 

حسان خان

لائبریرین
دِیروز (گُذشتہ روز) مَیں نے «منوچهری دامْغانی» کی ایک خَمریّہ نظم کی ابتدائی دو ابیات اِرسال کی تھیں، جن میں شاعر نے بہ روزِ شنبہ (سیٹرڈے) شراب نوش کرنے کی ترغیب دی تھی اور اُس کی توجیہ یہ پیش کی تھی کہ دینِ «حضرتِ موسیٰ» میں اِس روز کو مُقدّس، اور اِس روز شراب پِینے کو خُوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن روزِ شنبہ کے گُذر جانے کے بعد بہ روزِ یک‌شنبہ (سنڈے) شراب کیسے پی جائے؟ تو شاعر بعد کی دو ابیات میں اِس کا جواب یہ دے رہے ہیں کہ جس طرح دینِ «حضرتِ موسیٰ» میں روزِ شنبہ روزِ مقُدّس ہے، اُسی طرح دین «حضرتِ عیسیٰ» میں روزِ یک‌شنبہ کو مُقدّس روز کے طور پر تجلیل کیا جاتا ہے، اور جس طرح یہودیان بہ روزِ شبنہ خود کے دینی مراسم میں شرابِ انگوری نوش کرتے ہیں، بِعَینِہِ اُسی طرح مسیحیان بھی بہ روزِ یک‌شنبہ انجام دیے جانے والے «عشائے ربّانی» کے دینی مراسم میں شرابِ انگوری کو استعمال میں لاتے ہیں۔ لہٰذا، تم کو چاہیے کہ اِمروز تم دینِ عیسوی کی پَیروی میں شراب نوش کرو!

اگر توانی یکشنبه را صبوحی کن
کُجا صبوحی نیکو بُوَد به یکشنبَد
طریق و مذهبِ عیسی به بادهٔ خوشِ ناب
نگاه دار و مزن بختِ خویش را به لگَد
(منوچهری دامغانی)


اگر تم کر سکتے ہو تو بہ روزِ یک‌شنبہ شرابِ صُبح‌گاہی نوش کرو۔۔۔ کیونکہ بہ روزِ یک‌شنبہ شرابِ صُبح‌گاہی [نوش کرنا] خُوب ہوتا ہے۔۔۔ شرابِ خُوب و خالِص کے ذریعے سے روِش و مذہبِ «عیسیٰ» کی نِگاہ‌داری [و پاس‌داری] کرو اور اپنے بخت کو لگَد (لات) مت مارو!
 

حسان خان

لائبریرین
«رُودَکی سمرقندی»‌ کے ایک مشہور مدحیہ قصیدے کا مطلع:

مادرِ مَی را بِکرد باید قُربان
بچّهٔ او را گِرِفت و کرد به زندان

(رودکی سمرقندی)

شراب کی مادر (یعنی انگور) کو قُربان کر دینا چاہیے، [اور] اُس کے بچّے (یعنی شراب) کو پکڑ کر زِندان (یعنی خُم) میں کر دینا چاہیے۔

تشریح: اِس بیت میں صنعتِ تشخیص کا استعمال کرتے ہوئے انگور کو مادرِ شراب سے، جبکہ شراب کو بچّے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ شاعر کہہ رہے ہیں کہ مادرِ شراب (انگور) کو قُربان کرنا (نِچوڑنا) لازم ہے، اور اُس کے بچّے (شراب) کو اُس سے لے کر زندان (خُم) میں ڈال دینا لازم ہے۔ آبِ انگور کو شراب میں تبدیل ہو جانے کے لیے خُم میں ڈالا جاتا ہے، اور بیتِ ہٰذا میں خُم کو ایک زندان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن سو مرو این سو بِیا ای گُلبُنِ خندانِ من
ای عقلِ عقلِ عقلِ من ای جانِ جانِ جانِ من
(مولانا جلال‌الدین رومی)


اُس طرف مت جاؤ، اِس طرف آ جاؤ، اے گُلبُنِ خندانِ من!
اے عقلِ عقلِ عقلِ من! اے جانِ جانِ جانِ من!

× گُلبُن = گُلِ [سُرخ] کی جھاڑی یا پَودا؛ درختِ گُل
 

حسان خان

لائبریرین
دریایِ چشمم یک نفَس خالی مباد از گوهرت
خالی مبادا یک زمان لعلِ خوشت از کانِ من
(مولانا جلال‌الدین رومی)


[خُدا کرے کہ] میرا بحرِ چشم کسی [بھی] لمحہ تمہارے گَوہر سے خالی نہ ہو!۔۔۔ [اور خُدا کرے کہ] تمہارا لعلِ خُوب کسی [بھی] وقت میری کان سے خالی [و دُور] نہ ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
«شراب» کی توصیف میں «رُودَکی سمرقندی» کی ایک بیت:

ور به بلور اندرون بِبینی گویی
گوهرِ سُرخ است به کفِ موسیِ عمران

(رودکی سمرقندی)

[یہ شراب وہ چیز ہے کہ] اگر [اِس کو] تم [سفید] بِلور کے اندر دیکھو تو کہو [گے] کہ: [گویا] «موسیٰ بن عِمران» کے دست میں گوہرِ سُرخ ہے۔
× بِلور = کرسٹل

تشریح: اِس بیت میں «حضرتِ موسیٰ» کے مُعجِزۂ «یدِ بَیضا» کی جانب تلمیح ہے۔ قُرآن میں آیا ہے کہ «حضرتِ موسیٰ» جب اپنے دست کو گریبان میں ڈال کر نِکالتے تھے تو اُن کے دست سے سفید نُور طالِع ہو جاتا تھا اور اُن کا دست تاباں و نُورانی ہو جاتا تھا۔ اِس کو یدِ بَیضا کہا جاتا ہے۔ شاعر کہہ رہے ہیں کہ جامِ بِلوری میں شراب ایسے نظر آتی ہے گویا «حضرتِ موسیٰ بن عمران» کے دستِ سفید میں اِک گوہرِ سُرخ‌رنگ ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
ماهِ نَیسان کی بہار و باران کی توصیف میں ایک بیت:

بِخندد لاله در صحرا به سانِ چهرهٔ لیلیٰ
بِگِریَد ابر بر گردون به سانِ دیدهٔ مجنون

(قطران تبریزی)

صحرا میں لالہ چہرۂ «لیلیٰ» کی مانند ہنستا ہے۔۔۔ فلک پر ابر چشمِ «مجنون» کی مانند روتا ہے۔۔۔

× نَیسان = ایک سُریانی ماہ جو رُومی تقویم کے ماہِ اپریل کے ساتھ زمانی مُطابقت رکھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز آبِ جوی هر ساعت همی بویِ گُلاب آید
در او شُسته‌ست پِنداری نگارِ من رُخِ گُل‌گُون
(قطران تبریزی)

آبِ جُو سے ہر ساعت عرَقِ گُل کی بُو آتی ہے۔۔۔ [اگر تم دیکھو تو تمہیں ایسا گُمان ہو گا کہ] گویا میرے محبوب نے اُس میں [اپنا] چہرۂ گُل‌گُوں دھویا ہے۔۔۔
× جُو = نہرِ کُوچَک، چھوٹی نہر
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از خلقِ جهان کناره می‌گیرد
آن را که تو در کنار می‌آیی
(مولانا جلال‌الدین رومی)


وہ [شخص] مردُمِ دُنیا سے کنارہ اِختِیار کر لیتا ہے
جِس [شخص] کے پہلو میں تم آتے ہو
 

حسان خان

لائبریرین
مشرق و مغرب ار روَم ور سویِ آسمان شوَم
نیست نشانِ زندگی تا نرسَد نشانِ تو
(مولانا جلال‌الدین رومی)


خواہ میں مشرق و مغرب چلا جاؤں، اور خواہ میں جانبِ آسمان چلا جاؤں
جب تک تمہارا [نام و] نشان نہ پہنچے، زِندگی کا [نام و] نشان نہیں ہے!
 
Top