رحمت نکند بر دلِ بی‌چاره‌یِ فرهاد
آن کس که سخن گفتنِ شیرین نشنیده‌ست
(سعدی شیرازی)
وہ آدمی فرہاد کے بےچارے دل پر رحم نہیں کرتا جس نے شیرین کی باتیں نہیں سُن رکھی۔
 
بزبان هر که جز من برود حدیث عشقت
چو معامله ندارد سخن آشنا نباشد
حسان صاحب حافظ کے اس شعر کیا معنی ہے؟
یہ شعر انٹرنیٹ پر سعدی شیرازی سے منسوب ہے، لیکن مجھے گنجور میں ان کی کلیات میں نہیں ملا۔ اس کا ترجمہ ہے:

میرے سِوا ہر وہ ، جس کی زبان پر عشق کی بات جاری ہوتی ہے، چونکہ وہ (عشق سے) سروکار نہیں رکھتا، وہ سخن‌آشنا نہیں ہے۔
 
آفتِ رنگِ حنا دست به‌هم سوده مباد!
خونِ عاشق‌ گنهی نیست، پشیمان نشوی
(بیدل دهلوی)

(تم اپنے) ہاتھوں کو مَل کر رنگِ حِنا پر آفت (کا باعث) نہ ہو! عاشق کا خون کوئی گناہ نہیں ہے، پشیمان مت ہو!
یعنی اے محبوب!اگر تم نے عاشق کے خون سے اپنے ہاتھ پر حنا سجا رکھا ہو اور ازاں‌پس تمہیں اس کام پر افسوس ہو تو پشیمان مت ہو، عاشق کا خون کرنا کوئی گناہ نہیں ہے، دستِ تاسف مَل کر رنگِ حنا کو اپنے ہاتھوں سے محو کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔
 
آخری تدوین:
شاید یہ جامی کی بیت نہیں ہے، کیونکہ کلیاتِ جامی میں مجھے یہ بیت نظر نہیں آئی۔

ترجمے کی اصلاح کے لیے بہت بہت شکریہ۔
اور میں نے یہ غزل مولانا جامی کے نام سے آن لائن پڑھی تھی۔

از حسن ملیح خود شوری بجهان کردی
هر زخمیّ بسمل را مصروف خدا کردی
بی جرم و خطاه قتلم از ناز بتان کردی
خود تیغ زدی بر من، نام دیگران کردی
مدهوش به یک ساغر ای پیر مغان کردی
دل بُردی و جان بُردی بی تاب و توان کردی
این جامی بیچاره از عشق تو آواره
آوارهء غربت را در خاک نهان کردی

ترجمہ اردو میں درکار ہے رہنمائ فرمایئے ۔۔۔۔۔

از حسن ملیح خود شور بجہاں کردی
ہر زخمی و بسمل را مصروف فغال کردی
بے جرم خطا قتلم از نازِ بتاں کردی
خود تیغ، زدی برمن نام دگراں کردی
مدہوش بیک ساغر اے پیر مغاں کردی
دل بردی و جاں بردی بے تاب و تواں کردی
خود آئینہ روبودی خود آئینہ بے خود
ایں طرفہ تماشا بیں در بزمِ جہاں کردی
شُد جامیٔ بے چارا از عشق تو آوارہ
آوارۂ غربت را در خاک نہاں کردی

از حسن ملیح خود شورِ بجہان کردی
ہر زخمی و بسمل را مصروفِ فغاں کردی

بے جرم و خطا قتلم از نازِ بتان کردی
خود تیغ زدی بر من، نام دیگران کردی

مدہوش به یک ساغر ای پیرِ مغان کردی
دل بُردی و جان بُردی بے تاب و تواں کردی

شد جامئِ بیچاره از عشق تو آواره
آوارۂ غربت را در خاک نہان کردی

اس کلام کا ترجمہ اگر بتا دیں تو مہربانی ہوگی


یہ غزل کسی خواجہ اکبر وارثی کی ہے، جس کا مقطع یہ ہے:

شد اکبرِ بی‌چاره در عشقِ تو آواره
آواره‌یِ غربت را در خاک نهان کردی
 
یہ شعر انٹرنیٹ پر سعدی شیرازی سے منسوب ہے، لیکن مجھے گنجور میں ان کی کلیات میں نہیں ملا۔ اس کا ترجمہ ہے:

میرے سِوا ہر وہ ، جس کی زبان پر عشق کی بات جاری ہوتی ہے، چونکہ وہ (عشق سے) سروکار نہیں رکھتا، وہ سخن‌آشنا نہیں ہے۔
شاعران بسیار گفتند شعرهای با نمک
کس نگفته شعر به مثل سین و عین و دال و یا
اریب صاحب اس شعر کی کیا معنی ہے؟​
 
طریقِ عشق پرآشوب و فتنه‌است ای دل!
بیفتد آنکه درین راه با شتاب رود
(حافظ شیرازی)
اے دل! عشق کا راستہ آشوب اور فتنہ سے پُر ہے۔ جو کوئی بھی تیزی سے اس راہ پر جائے، گِر جاتا ہے۔

حافظ از چشمه‌یِ حکمت به کف آور جامی
بو که از لوحِ دلت نقشِ جهالت برود
(حافظ شیرازی)
اے حافظ! حکمت کے چشمے سے ایک جام اپنے ہاتھ میں لے۔ شاید تیرے دل کے تختے سے نقشِ جہالت مِٹ جائے۔
 
هیچ یابم نه اثر جز به لبِ جان‌بخشت
هر قدر بهرِ شفا گِردِ مسیحا گشتم
(علامه عنایت الله مشرقی)
میں شفا کے لئے جس قدر بھی مسیحا کے گِرد پھرتا رہا، تیرے جان‌بخش لبوں کے بجُر کوئی اثر نہیں پا سکا۔
 
مثنوی معنوی میں مولوی رومی مسئلہء جبر و قدر کے حوالے سے شیر اور نخچیروں (شکاروں) کی حکایت بیان کرتے ہیں، جس میں شیر کوشش اور جدوجہد کی اہمیت واضح کرتا ہے جبکہ نخچیر توکل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے جبرِ محض اور ترکِ جہد کی نصیحت کرتے ہیں۔کوشش اور جدوجہد کے حوالے سے اس حکایت سے چند اشعار درجِ ذیل ہیں:۔

گفت پیغامبر به آوازِ بلند
با توکل زانویِ اشتر ببند

پیغمبر نے بلند آواز سے کہا ہے: توکل کے ساتھ اونٹ کے گھٹنے باندھ دو (یعنی حفاظت کے جو اسباب ہیں، وہ بھی اختیار کر)

رمزِ الکاسب حبیب الله شنو
از توکل در سبب کاهل مشو

الکاسب حبیب اللہ (کسب کرنے والا اللہ کا دوست ہے) کا نکتہ سُنو۔ توکل کی وجہ سے سبب کے معاملہ میں سست نہ بنو (یعنی انسان کو اسباب اختیار کرنے میں سستی نہ کرنی چاہیے)

پایه پایه رفت باید سویِ بام
هست جبری بودن اینجا طمعِ خام

کوٹھے پر رفتہ رفتہ چڑھنا چاہیے۔اس مقام پر جبری ہونا خام‌خیالی ہے۔

پای داری، چون کنی خود را تو لنگ؟
دست داری، چون کنی پنهان تو چنگ

تو پیر رکھتا ہے، کیوں اپنے کو لنگڑا بناتا ہے؟تو ہاتھ رکھتا ہے، پنجہ کو کیوں چھپاتا ہے؟


سعی شکرِ نعمتِ قدرت بود
جبرِ تو انکارِ آن نعمت بود

کوشش قدرت کی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔اور تیرا جبری ہونا اس نعمت کا انکار ہے

شکرِ نعمت نعمتت افزون کند
کفرِ نعمت از کفت بیرون کند

نعمت پر شکر ادا کرنا تیری نعمت کو بڑھائے گا۔اور نعمت کا کفر (اس کو) تیرے قبضے سے نکال دے گا۔

جبرِ تو خفتن بود، در ره مخسپ!
تا نبینی آن در و درگه، مخسپ!

اپنے آپ کو مجبور سمجھنا سوجانا ہے، راستہ میں نہ سو۔جب تک اس دَر اور درگاہ کو نہ دیکھ لے، نہ سو!

گر توکل می‌کنی در کار کن
کسب کن پس تکیه بر جبار کن

اگر تو توکل کرتا ہے، کاروبار میں کر۔ کما، اور پھر اللہ پر بھروسہ کر

جهد حق‌ست و دوا حق‌ست و درد
منکر اندر نفیِ جهدش جهد کرد

کوشش حق ہے، اور دوا کرنا حق ہے اور درد (حق) ہے۔منکر اپنی کوشش کی نفی میں کوشاں ہے (یعنی جدوجہد کا منکر اس انکار میں خود جدوجہد کرتا ہے)۔


مترجم: قاضی سجاد حسین
 
ز بازپرسِ قیامت چه غم که بس باشد
وسیله‌یِ سرِ زلفش سیاه‌کاران را
(میر تقی میر)
قیامت کی بازپُرس کا کیا غم کہ کافی ہوگا
اس کی زلف کا وسیلہ سیاہ‌کاروں کو ۔


مترجم: افضال احمد سید
 
یک نگاهِ پسِ مژگان و دو صد نومیدی
جانِ قربانیِ اندازِ تو دشوار رود
(میرتقی میر)
ایک پسِ مژگاں نگاہ اور دو سو ناامیدیاں
تجھ پر قربان ہونے والے کی جان مشکل سے نکلتی ہے۔


مترجم: افضال احمد سید
 
ای فلک طورِ ستم از دل‌برِ من یاد گیر
ریخت خونِ یک جهان از ناز و ابرو خم نه شد
(میر تقی میر)
اے فلک! میرے دل‌بر سے ستم کا طریقہ سیکھ
ناز سے ایک جہان کا خون بہا دیا اور ابرو (تک) خم نہیں ہوئے۔


مترجم: افضال احمد سید
 
از عصا و سبحه و سجاده و صوم و صلوة
ره‌نمایِ عالمی شد شیخ و خود آدم نه شد
(میر تقی میر)
عصا، تسبیح، سجادہ اور روزے نماز سے شیخ ایک دنیا کو ہدایت کرنے والا بن گیا لیکن خود آدمی نہیں بنا

مترجم: افضال احمد سید
 
میر تقی میر کی ایک فارسی غزل افضال احمد سید کے ترجمے کے ساتھ:

وا رفتگان ز کویِ تو هرگاه می‌روند
جان می‌دهند هر قدم و راه می‌روند

وا رفتگان تیرے کوچے سے جب گزرتے ہیں، ہر قدم پر جان دیتے ہیں اور راستہ چلتے ہیں۔

ناچار هر سحر ز درت بی‌کسانِ عشق
در دیده‌ها سرشک و به لب آه می‌روند

ناچار ہر صبح تیرے دروازے سے عشق کے بےکس آنکھوں میں آنسو اور لب پر آہ کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔

ما خود فقط به زلف و زنخ مبتلا نه‌ایم
خوبان به ریسمانِ تو در چاه می‌روند

فقط ہم خود ہی زلف اور زنخ میں مبتلا نہیں ہیں۔خوباں بھی تیری رسی سے کنویں میں چلے جاتے ہیں۔

با رویِ ضوفشان چو به مهتاب می‌رسی
انجم به چشم‌ روشیِ ماه می‌روند

اپنے ضوفشاں چہرے کے ساتھ جب تو چاندنی میں پہنچتا ہے، ستارے چاند کو مبارک‌باد دینے کے لئے جاتے ہیں۔

مستانه پا منهِ که جهان شیشه‌خانه است
ره رو چنان که مردمِ آگاه می‌روند

پاؤں مستانہ نہ رکھ کہ دنیا شیشہ‌خانہ ہے۔اس طرح راستہ چل جیسے آگاہ لوگ چلتے ہیں۔

افتادگانِ عشق به تحریکِ اشتیاق
با کوهِ درد و غم چو پرِ کاه می‌روند

عشق کے ناتواں شوق کے اکسانے پر درد و غم کا پہاڑ اٹھائے تنکے کی طرح اڑے جاتے ہیں۔

ای میر! غفلت از سفرِ مرگ خوب نیست
یاران و دوستان همه ناگاه می‌روند
(میر تقی میر)
اے میؔر! موت کے سفر سے غفلت اچھی نہیں ہے۔یار دوست سبھی اچانک چلے جاتے ہیں۔


مترجم: افضال احمد سید
 
نی شور به سر مانده و نی زور به پا ماند
از عمر همین حسرتِ بسیار به‌جا ماند

نہ سر میں شور باقی رہا نہ پیروں میں طاقت باقی رہی۔زندگی میں یہی بےانتہا حسرت بچی رہ گئی ہے۔

زاهد که به تقوایِ تمامی ز جهان رفت
در رهنِ می‌اش خرقه و تسبیح و رِدا ماند

زاہد کہ تمام تقوے کے ساتھ جہان سے چلا گیا۔اس کا خرقہ اور تسبیح اور چادر شراب (کے عوض) رہن رہ گئے۔

پُرغافلی از وقتِ عزیز آه وگرنه
هر گام در این بادیه یوسف ز تو وا ماند
(میر تقی میر)
(تو) وقتِ عزیز سے آہ بہت غافل ہے وگرنہ اس بیابان میں ہر قدم پر یوسف تجھ سے چُھوٹا جا رہا ہے۔

مترجم: افضال احمد سید
 
مرزا غالب دہلوی کی ایک غزل کے آخری تین نعتیہ اشعار صوفی غلام تبسم کے ترجمہ و تشریح کے ساتھ:

ای خاکِ درت قبله‌یِ جان و دلِ غالب
کز فیضِ تو پیرایه‌یِ هستی‌ست جهان را

تیرے دروازے کی مٹی غالب کے جان و دل کا قبلہ ہے۔کیونکہ تیرے فیض سے ہستی کائنات کی آرائش ہے۔

تا نامِ تو شیرینیِ جان داده به گفتن
در خویش فرو برده دل از مهر زبان را

تیرا نام لینے سے میری گفتار میں جان کی سی شیرینی آگئی ہے، اس شفقت اور محبت کے اثر سے میرے دل نے زبان اپنے اندر کھینچ لی ہے یعنی خاموش ہوگیا۔
خاموش ہونے کے دو پہلو ہیں:
ایک تو یہ کہ اس بات کا شکر لفظوں میں ادا نہیں ہوسکتا، دوسرے یہ کہ دل اندر ہی اندر مزے لے رہا ہے۔
اسی لئے تو مرزا غالب نے شیرینیِ جان کے الفاظ استعمال کیے ہیں گویا رسولِ پاک ﷺ کا نام لینے سے یوں محسوس ہورہا ہے کہ جسم میں جان تازہ آگئی ہے۔

بر امتِ تو دوزخِ جاوید حرام‌ست
حاشا که شفاعت نکنی سوختگان را

آپ ﷺ کی امت پر ہمیشہ دوزخ حرام ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ جلنے والوں کی شفاعت نہ کریں۔ یقیناََ رسولِ پاکﷺ اپنے گناہ‌کار امتیوں کی شفاعت کریں گے اور وہ بخشے جائیں گے۔

(مرزا غالب دهلوی)
شارح و مترجم: صوفی غلام مصطفی تبسم
 
چون فاش شد این لحظه ز ما سِرِّ اناالحق
فتوی بده‌ ای خواجه که مستوجِبِ داریم
آنرا غمِ دارست که دور از رخِ یارست
ما را چه غم از دار که رخ در رخِ یاریم

(خواجوی کرمانی)
جب اس لحظہ ہم سے رازِ انا الحق فاش ہوا، اے خواجہ! فتویٰ دے کہ ہم دار ۔ ۔(پھانسی کے پھندے) کے سزاوار ہیں۔دار کا غم اُسے ہے جو یار کے چہرے سے دور ہے۔ ہمیں دار سے کیا غم کہ ہم یار کے رُو بَرُو ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
چون فاش شد این لحظه ز ما سِرِّ اناالحق
فتوی بده‌ ای خواجه که مستوجِبِ داریم
آنرا غمِ دارست که دور از رخِ یارست
ما را چه غم از دار که رخ در رخِ یاریم

(خواجوی کرمانی)
جب اس لحظہ ہم سے رازِ انا الحق فاش ہوا، اے خواجہ! فتویٰ دے کہ ہم دار ۔ ۔(پھانسی کے پھندے) کے سزاوار ہیں۔دار کا غم اُسے ہے جو یار کے چہرے سے دور ہے۔ ہمیں دار سے کیا غم کہ ہم یار کے رُو بَرُو ہیں۔
کمال تلمیح !!! زبردست ۔خواجوی کرمانی ۔زبردست ۔
 
مرحوم نصیر الدین نصیر کی کتاب محیطِ ادب سے بیدل کے ایک دوغزلہ، جس کی ردیف بحث ہے، کے چند اشعار کا ترجمہ و تشریح پیشِ خدمت ہے۔ واضح رہے کہ اس کتاب میں بیدل کے بہت سے اشعار کی نہایت مفصل اور طویل تشریح کی گئی ہے، جس کے صرف کچھ حصے کی ہی اشتراک‌گذاری کی جا رہی ہے۔ جو احباب مکمل تشریح کی خوانش کے خواہاں ہیں، وہ کتاب کی جانب رجوع کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بی‌مغزی و داری به منِ سوخته‌جان بحث
ای پنبه مکن هرزه به آتش‌نفسان بحث

اے بحث کرنے والے! تو علم و دانش سے محرومی کے باوجود مجھ سوختہ‌جاں سے بحث کر رہا ہے۔ اے رُوئی کے گالے! بہتر یہی ہے کہ تو ان سے بحث میں فضول نہ الجھ جن کی سانسوں سے شعلے نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اے مخاطب! تو روئی کی طرح بےمغز ہے۔ اگر تجھ میں کچھ مغز ہوتا تو شاید تجھے راکھ کا ڈھیر بننے میں کچھ وقت ضرور لگتا۔ اس لئے کہ ٹھوس چیز کے جلنے میں نسبتاََ کچھ دیر لگتی ہے۔مگر اے مخاطب! تو روئی کا گالا ہے اور جب روئی آگ کو خود دعوتِ جوہرآزمائی دے تو انجام ظاہر ہے۔

در ترکِ تامل المِ شور و شری نیست
بلبل ننماید به چمن فصلِ خزان بحث

بےاعتنائی برتنے اور غور و فکر نہ کرنے سے شور و فساد کے خطرات ٹل جاتے ہیں۔ موسمِ خزاں میں باغ سے الجھنا شیوہء بلبل نہیں۔
بلبلان را در چمن هر برگِ گل دستِ دعاست
عنادل کے لئے چمن کے پھول کی ہر پتی ہاتھ اٹھا کر دعا گو ہے۔لہٰذا دورِ خزاں میں گلستان کی بےبرگی سے بحث و تکرار بلبل کی شان کے منافی ہے۔ یہاں تک کہ اس لئے حرفِ شکوہ بھی زبان پر لانا زیبا نہیں۔
وفا کے دامن کو شکوہ‌سنجی سے اپنی کیوں تار تار کردوں
جفائیں سہنے میں لطف پھر کیا جو ان کو میں شرم‌سار کردوں
دراصل اس تمثیل سے یہ حقیقت ثابت کرنا مقصود ہےکہ جن اربابِ علم و فضل کا پایہء علمی خواص و عوام میں مسلمہ اور مصدقہ ہو، انہیں کم‌مایه دون‌صفت لوگوں کے منہ کبھی نہیں لگنا چاہیے۔ بلکہ ایسے ویسے لوگوں کے اقوال و افعال سے اخذ کردہ نتائج و تاثرات کو اپنی حوصلہ‌مندیوں اور بےالتفاتیوں کی بےکراں وسعتوں اور کشادہ فضاؤں کی جانب دھکیل دینا چاہیے۔


از عاجزیِ من جگرِ خصم‌ کباب است
با آب‌ کند آتشِ سوزنده چسان بحث؟

میرے رویہء عجز و بردباری اور نرمیِ گفتار سے دشمن کا جگر اور بھی جل اٹھتا ہے۔ظاہر ہے، بھڑکتے ہوئےشعلے پانی کی خنک‌مزاجی اور نرمیِ فطرت کے کہاں الجھ سکتے یا بحث کر سکتے ہیں۔اور اگر کبھی شامتِ اعمال سے بےنیازِ انجام ہو کر گستاخی کرتے ہوئے اپنی گردنِ دعویٰ بلند کرنے کی کوشش کریں بھی تو پانی انہیں ایسی فطری مار دے گا کہ وہ دم بھر میں خاموش ہوجائیں گے۔
آدابِ گفتگو سے ناآشنا لوگ، جب شعلوں کی طرح یک‌دم بھڑک اٹھتے ہیں تو اربابِ فضل و کمال نہایت ٹھنڈے دل سے کام لیتے ہوئے پانی کی خنکی و نرمی کے لب و لہجہ میں ایسا جواب مرحمت فرماتے ہیں کہ وہ مارے شرم کے پانی پانی ہوجاتے ہیں۔


از مدرسه دم نا زده بگریز وگرنه
برخاست ر‌گِ گردن و آمد به میان بحث

کسی قسم کے مبلغ علم کا دم مارے بغیر مدرسہ سے چپ چاپ بھاگ جا۔ وگرنہ ابھی گردن کی رگیں پھولیں اور بحث چھڑی۔۔۔۔۔۔اگر تجھ میں حصولِ علم کی لگن اور شوق ہے تو علم نجی طور پر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ ضروری تو نہیں کہ جو لوگ روایتی تعلیمی اداروں کے سند یافتہ نہیں ہوتے وہ عالم یا تعلیم‌یافتہ نہیں کہلائے جاسکتے۔۔۔۔۔۔بیدل کہتے ہیں کہ اے علم کے طالب! تو جس مقصد کے لئے یہاں آیا ہے ، اس کا حصول یہاں ممکن نہیں۔یہاں تو ہر شخص اپنا علمی تفوق ثابت کرنے کے لئے رگیں پُھلاپُھلا کر زور زور سے بحث و مناظرہ میں مصروف نظر آتا ہے۔ لہٰذا تو اپنی جان بچا کر کسی اور طرف کارخ کرلے۔ چونکہ بیدل کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا تھا اس لئے انہوں نے اہتماماََ اس تلخ حقیقت کا ذکر کردیا۔


زیر و بمِ این انجمن آفاتِ خروش است
هر دم زدن اینجا دمِ تیغ است و فسان بحث

اس انجمنِ حیات کے ہر زیروبم (باریک اور موٹی آواز) سے آفات و حوادث کا ایک شور اٹھ رہا ہے۔یہاں انسان کی ہر سانس تلوار کی دھار کی حیثیت رکھتی ہے۔اور بحث اس کے لئے فسان (ریتی) کا کام دیتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی بھی بات کو خواہ معمولی ہو یا اہم، بےالتفاتی یا خاموشی اختیار کرلینے سے ٹالا جاسکتا ہے۔اگر ہر بات پر انسان عملِ جراحی سے کام لینا شروع کردے تو مسکراہٹوں،رواداریوں اور رعنائیوں جیسی اعلیٰ اقدار کا حامل معاشرہ گستاخیوں، زبان‌درازیوں اور بدتمیزیوں کا جہنم‌زار بن جائے۔ جن لوگوں کو قسامِ ازل نے بلند انسانی اقدار، علوم و فنون اور بےپناہ فطری صلاحیتوں سے نوازا ہو، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کمالِ تحمل و بردباری سے کام لیتے ہوئے اپنے تو اپنے، بےگانوں اور بدخواہوں کی بداخلاقیوں اور ان کے زہرآلود الفاظ کو بھی نہایت خندہ‌پیشانی اور وسیع‌القلبی سے برداشت کیا کریں۔ایسا کرنے سے ایک طرف تو ان کی اپنی وجاہت میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرف اس لطیف حربہ سے (دوست ہو یا دشمن) بے موت مارا جائے گا۔

خواری‌ست به هرکج‌‌مَنِش از راست‌‌روان بحث
بر خاک فتد تیر چو گیرد به‌ کمان بحث

راست‌باز اہلِ علم کا ٹیڑھی چال والے جہال سے بحث کرنا موجبِ رسوائی ہوتا ہے۔اس لئے کہ جب بھی تیروکماں کی آپس میں ٹھن جاتی ہے تو راست‌بازی کی بنا پر تیرآخر مٹی ہی پر گرا کرتا ہے۔
مقصد یہ کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو علم و تہذیب کی تمکنت و روایت کا پاس نہیں کرتے۔ میدانِ علم و ادب کے ایسے شترانِ بےمہار اور کج‌مَنِش دانشوروں سے علم و ادب کے راست‌باز اور شائستہ طبقے کو بحث و مباحثہ سے احتراز کرنا چاہیے۔ انہیں راست‌بازی سے کام لینا ہے اور روایت کا احترام کرنا ہے، جب کہ مخالف نے صرف نیچا دکھانے کے لئے آداب و شائستگی کے تمام بند توڑ دینے ہیں۔


گر بی‌خردی ساز کند هرزه‌زبانی
بگذارکه چون شعله بمیرد به همان بحث

اگر کسی جاہل نے فضول قسم کی بک بک شروع کر ہی لی تو اسے چھوڑ دے اور کچھ مت کہہ۔اس لئے کہ وہ کچھ ہی دیر میں اپنی اس بحث کے ہاتھوں شعلے کی طرح خاموش ہوجائے گا۔کیونکہ شعلے کی ہر لپیٹ درحقیقت اس کی اپنی ہی ذات کے لئے پیغامِ مرگ ہوا کرتی ہے۔
مقصد یہ کہ جب کبھی بےعقل لوگوں کی یاوہ‌گوئی سنے بغیر کوئی چارہ نظر نہ آئے تو اہلِ علم و دانش کو کمالِ متانت سے کام لیتے ہوئے انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔اور ان کی خرافات کو سنتے رہنا چاہیے،آخر وہ کب تک بولتے رہیں گے۔


جمعیت‌ِ گوهر نکشد زحمتِ امواج
بیدل به خموشان نکنند اهلِ زبان بحث

موتی کی مربوط و مجتمع شان موجوں کی زحمتِ کشاکش (کھینچاتانی) سے متاثر نہیں ہوتی۔ بیدل یہی وجہ ہے کہ زیادہ زبان چلانے والے خاموشی اختیار کرلینے والوں سے بحث میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔موجوں کی اچھل کود کھینچاتانی اور ہاتھاپائی گوہر کی حیثیت کو کسی طور متاثر نہیں کر سکتی، ان کی یہ تمام سرگرمیاں پانی کی سطح تک محدود ہوتی ہیں۔گوہر سمندر کی گہرائیوں میں محفوظ ہوتا ہے۔ اس سے یہ نکتہ بھی پیدا ہوا کہ مخصوص صلاحیت کے افراد خلوت‌گزینی، کم‌آمیزی اور خاموشی کو محفل‌آرائی، ہر وقت کے میل جول اور غیر ضروری بحث و تمحیص پر ہمیشہ ترجیح دیا کرتے ہیں۔

شاعر: مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی
مترجم و شارح: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
آخری تدوین:
Top