چراغ راکہ ایزد برفر زد
کسے کش تف زند ریشش بسوزد
وہ چراغ جسے روشن خدا کرے
کوئی اس پر پھونک مارے تو اسی کی ڈاڈھی جل جائے گی۔
(نامعلوم)
اگر کسی کو شاعر کے نام کا علم ہو تو ضرور مطلع فرمائیں !
هر آن شمعی که ایزد برفروزد
کسی کش پف کند سبلت بسوزد

اس شعر کو ابو سعید ابو الخیر سے منسوب کیا جاتا ہے درحالیکہ گنجور کے مطابق، ان کے فرزندوں نے تصریح کی ہے کہ ابو سعید ابو الخیر نے تین شعروں سے زیادہ کوئی شعر کہہ نہیں رکھا، اور یہ تمام اشعار دراصل ابو سعید نے دوسرے شعراء سے سن کر نقل کر رکھا ہے۔
 

اسلم اقبال

محفلین
شاہ ہست حسین، پادشاہ ہست حسین
دین ہست حسین ، دینِ پناہ ہست حسین
سر داد نہ داد سر دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الٰہ ہست ہست حسین
یہ مشہور اشعار حضرت فرید الدین گنج شکر سے منسوب ہے
ایک تحقیق کے مطابق یہ حضرت گنج شکر سے بہت پہلے فریدالدین کاشانی کے اشعار ہیں
حضرت فریدالدین گنج شکر کے مزار پر اس ان اشعار کو لکھ دینے سے ان ہی کے نام سے مشہور ہوگئے
احباب اس بارے میں کیا کہتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
شاہ ہست حسین، پادشاہ ہست حسین
دین ہست حسین ، دینِ پناہ ہست حسین
سر داد نہ داد سر دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الٰہ ہست ہست حسین
یہ مشہور اشعار حضرت فرید الدین گنج شکر سے منسوب ہے
ایک تحقیق کے مطابق یہ حضرت گنج شکر سے بہت پہلے فریدالدین کاشانی کے اشعار ہیں
حضرت فریدالدین گنج شکر کے مزار پر اس ان اشعار کو لکھ دینے سے ان ہی کے نام سے مشہور ہوگئے
احباب اس بارے میں کیا کہتے ہیں

یہ رباعی خواجہ معین الدین اجمیری سے منسوب ہے۔ ان کے مزار پر اس رباعی کا کتبہ بھی نصب ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ز نقد و جنس خود آگہ نہ ای ، دریں بازار
اگر بہ فہمِ زیاں ہم رسیدہ ای ، سود است

وجود کے اس بازار میں نہ تُو اپنی قیمت سے واقف ہے اور نہ جنس سے ، لہذا اگر تجھے اپنے نقصان کا علم بھی ہو جائے تو اسے تُو اپنے حق میں نفع ہی سمجھ۔​

اس شعر میں بیدل کہنا یہ چاہتا ہے کہ کائنات کو ایک بازار سمجھو ، جس میں ہر طرح کی اشیا سجائی گئی ہیں۔ ان سب کی طرح تم بھی اپنے خالق اور صانع کے مصنوع ہو۔ جس طرح دوسری چیزوں میں خوبیاں رکھی گئیں ، تم میں بھی بہت سی خوبیاں ہیں اور تم بھی ایک صانع کے شاہکار ہو۔ تم نے دیگر مصنوعات میں تو خوبیاں دریافت کر لیں لیکن اپنی ذات کی جانب کبھی توجہ نہ کی۔ بیدل یہی بات اپنے ایک اور شعر میں یوں کہتے ہیں:

ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیرِ سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم نہ دمیدہ ای درِ دل کشا بہ چمن در آ

اسی طرح غزل کا یہ شعر:

پئے نافہ ہائے رمیدہ بو مپسند زحمتِ جستجو
بخیال حلقہ ء زلف اُو گرہے خور و بہ ختن در آ

محولہ بالا اشعار میں انسان کو عرفان ذات کا درس دیتے ہوِئے کہا گیا ہے کہ تُو سروسمن کی سیر اور اُن کی دل کشی کو کب تک دیکھتا رہے گا؟ ذرا اپنے دروازہء دل کو کھول اور اپنے چمن کی سیر بھی کر۔ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے ارشاد میں یہی درس دیا گیا ہے۔
محیطِ ادب ؛ سید نصیر الدین نصیر گیلانی ، صفحہ 98
 

فرخ منظور

لائبریرین
تا برخِ زیبائے تو اُفتادہ زاہد را نظر
تسبیح زہدش یک طرف ماندہ مصلیٰ یک طرف
(امیر خسرو)
ترجمہ:
تیرے رخِ زیبا پہ پڑ جائے جو زاہد کی نظر
تسبیح پھینکے اک طرف اپنا مصلیٰ اک طرف
 

اربش علی

محفلین
اشکِ یتیم

روزی گذشت پادشهی از گذرگهی
فریادِ شوق بر سرِ هر کوی و بام خاست
پرسید زان میانه یکی کودکِ یتیم
کاین تابناک چیست که بر تاجِ پادشاست
آن یک جواب داد چه دانیم ما که چیست
پیداست آنقدر که متاعی گرانبهاست
نزدیک رفت پیرزنی گوژپشت و گفت
این اشکِ دیدهٔ من و خونِ دلِ شماست
ما را به رخت و چوبِ شبانی فریفته است
این گرگ سال‌هاست که با گله آشناست
آن پارسا که ده خرد و ملک، رهزن است
آن پادشا که مالِ رعیت خورد گداست
بر قطرهٔ سرشکِ یتیمان نظاره کن
تا بنگری که روشنیِ گوهر از کجاست
پروین، به کجروان سخن از راستی چه سود
کو آنچنان کسی که نرنجد ز حرفِ راست


(پروین اعتصامی)


ایک دن ایک باشاہ گا گزر ایک راہ سے ہوا۔ ہر گلی کوچے اور بام و در پر فریادِ شوق بلند ہو گئی۔ اس ہجوم میں سے ایک چھوٹے یتیم بچے نے پوچھا کہ یہ بادشاہ کے تاج پر چمکتی ہوئے شے کیا ہے؟ ایک شخص نے جواب دیا کہ ہم کیا جانیں یہ کیا ہے؟ ہاں، یہ بات عیاں ہے کہ کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہے ۔اتنے میں ایک کبڑی بڑھیا بچے کے قریب آئی اور گویا ہوئی: "یہ میری آنکھ کا آنسو اور تیرے دل کا خون ہے۔ ہم چرواہے کے لباس اور عصا کی وجہ سے دھوکے میں رہے، جب کہ یہ بھیڑیا سالوں سے ریوڑ سے آشنا تھا (ریوڑ کو کھاتا رہا۔)" وہ پارسا کہ دیہات اور زمینیں خریدے رہزن ہے۔ اور وہ بادشاہ کہ رعیت کا مال کھائے، بھکاری ہے۔ یتیموں کے آنسوؤں کے قطروں پر نظر کر تاکہ تو دیکھ لے کہ (شاہ کے تاج پر موجود) گوہر میں روشنی کہاں سے آئی ہے۔ پرویں! کج رو لوگوں سے سیدھی سچی بات کرنے کا کیا فائدہ! ایسا شخص کہاں ہے کہ جو سچی بات سے خفا نہ ہو!
 

الف نظامی

لائبریرین
ز آسمان و زمین شکوہ می کنی شب و روز
چہ دادہ ای بہ زمین ، ز آسمان چہ می خواہی

( صائب تبریزی )

آپ رات دن آسمان و زمین کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ زمین کو آپ نے کیا دیا ہے، آسماں سے آپ کیا چاہتے ہیں؟
انتخاب و ترجمہ از معین نظامی

اگر شعر اچھا لگے تو مسکراتی زندگی کے لیے زمین میں ایک درخت لگائیے۔​
 
Top