چو قسمتِ ازلی بی حضورِ ما کردند
گر اندکی نه بوفقِ رضاست خرده مگیر
(حافظ شیرازی)

جب ازلی قسمت ہماری موجودگی کے بدون انہوں نے کی ہے،اگر تھوڑا سا مرضی کے موافق نہیں ،اعتراض نہ کر (یعنے خدائی فیصلے ہمارے سامنے نہیں ہوئے ہیں، اب اگر ہم سے تھوڑی سی غلطی ہوجائے تو ملامت کے قابل نہیں ہے)۔

مترجم:قاضی سجاد حسین
 
آخری تدوین:
ایمان و کفر من ھمہ رخسار و زلفِ توست
در بندِ کفر ماندہ و ایمانم آرزوست


(فخرالدین عراقی)

میرا ایمان اور کفر تو بس تیرا چہرہ اور تیری زلف ہے، مجھے کفر (تیری زلف) کی قید میں رہنے اور ایمان (تیرے چہرے) کی آرزو ہے۔

بنما ز زیرِ زلفِ سیه عارضِ چو مه
کز کفر توبه کردم و ایمانم آرزوست
(فیض کاشانی)

[اے یار!] زلفِ سیاہ کے زیر سے [اپنا] ماہ جیسا چہرہ دکھاؤ کہ میں نے کفر سے توبہ کر لی اور مجھے ایمان کی آرزو ہے۔

چون بپوشد جعد تو روی تو را ره گم کنم
جعد تو کفر من آمد روی تو ایمان من
مولانا

تمہارے(کاکل کے) پیچ جب تمہاراچہرہ چھپا لیں تو میں گمراہ ہو جاتا ہوں۔
تمہارے ان پیچوں کی پوشش میرا کفر ہو گیاہےاورتمہارا چہرہ میرا ایمان۔

کفر و ایمان از نشان زلف و رخسار ویست
زان نشان روز و شب در کفر و در ایمان بماند
(سنایی غزنوی)

کفر و ایمان اس کے زلف و رخسار کے نشان سے (متعلق)ہے۔ اسی نشان سے روز و شب کفر اور ایمان میں رہتے تھے۔

ما به عهد حسن تو ترک دل و جان گفته‌ایم
با رخ و زلف تو شرح کفر و ایمان گفته‌ایم
(عطار نیشاپوری)

ہم تیرے حسن کے عہد میں دل و جاں ترک کرچکے ہیں۔تیرے رخ و زلف سے ہم نے کفر و ایمان کی شرح کہی ہے۔

کرد فارغ گلِ رویت ز گلستان ما را
کفرِ زلف تو برآورد ز ایمان ما را
(عبیدزاکانی)

تیرے چہرے کے گُل نے ہمیں گلستان سے فارغ کردیا۔تیرے زلف کے کُفر نے ہمیں ایمان سے خارج کردیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خضر را گوی که مُستغنی‌ام از آبِ حیات
تشنهٔ وصلم و سرچشمهٔ حیوان آنجاست

(مشفق تهرانی)
خضر سے کہہ دو کہ میں آبِ حیات سے بے نیاز ہوں؛ میں تشنۂ وصل ہوں اور سرچشمۂ حیات وہاں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اشگِ حسرت شد روان از چشمهٔ چشمم نگارا
از غمِ هجرانِ رویت در کنارم شد روان شط
(مشفق تهرانی)

اے نگار! میری چشم کے چشمے سے حسرت کے اشک رواں ہو گئے؛ تمہارے چہرے کے ہجر کے غم سے میرے پہلو میں دریا رواں ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا چو از لبِ شیرینِ تو نصیبی نیست
از آن چه سود که لعلِ تو سر به سر قند است؟
(شیخ فخرالدین عراقی)

مجھے جب تمہارے لبِ شیریں سے کوئی بہرہ و حصہ [میّسر] نہیں ہے تو پھر اُس سے کیا فائدہ کہ تمہارا لبِ لعل سر بہ سر قند ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ای مرا تو مصطفیٰ، من چون عمر
از برای خدمتت بندم کمر
(مولانا جلال‌الدین رومی)

شرح: ای رهبر! تو برای من همان طور عزیز هستی، که حضرتِ محمدِ مصطفیٰ (ص) برای حضرتِ عمر (رض) عزیز بود. من به خدمتِ تو کمرِ همت بسته‌ام.

ترجمہ: اے رہبر! تم میرے لیے اُسی طرح عزیز ہو، جس طرح حضرتِ محمدِ مصطفیٰ (ص) حضرتِ عمر (رض) کے لیے عزیز تھے۔ میں نے تمہاری خدمت میں کمرِ ہمت باندھ لی ہے۔

[شارح: سیّد یونس اِستَرَوشنی]
ماخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جهانا چه بدمِهر و بدگوهری
که خود پروَرانی و خود بِشْکری
(فردوسی طوسی)

اے دنیا، تم کتنی نامہربان و بدسرشت ہو کہ خود ہی پرورش کرتی ہو اور خود ہی شکار کرتی ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جهانا ندانم چرا پروَری
چو پروردهٔ خویش را بِشْکری
(فردوسی طوسی)

اے دنیا، میں نہیں جانتا کہ تم کس لیے پرورش کرتی ہو جب تم اپنے پرورش یافتہ کو [خود] شکار کرتی ہو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہر آں گدائے کہ در کوئے خوبرویاں رفت
گدا مگوی کہ اُو در مقامِ سلطانیست


درویش ناصر بخاری

ہر وہ گدا کہ جو دلبروں کے کوچے میں چلا گیا، اُسے گدا مت کہہ کہ وہ تو بادشاہی کے مقام پر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر چه گویم عشق را شرح و بیان
چون به عشق آیم خجل باشم از آن
(مولانا جلال‌الدین رومی)

"۔۔۔۔ فرماتے ہیں کہ عشق چونکہ ذوقی امر ہے اور ذوقی امور کا ادراک و فہم وجدان پر موقوف ہے تحریر اور تقریر اُس میں کافی نہیں اس لیے عشق کی جس قدر شرح کرتا ہوں جب خود عشق کی شان دیکھتا ہوں تو اپنے بیان سے شرمندہ ہوتا ہوں کہ ناحق ہی اس قدر تطویل کی اور پھر بھی عشق کی حقیقت منکشف نہ ہوئی بلکہ اُس کے آثار کو بہت کچھ بیان کے خلاف پایا اس سے اور شرمندگی ہوئی۔"
(شارح: مولانا اشرف علی تھانوی)
 
آخری تدوین:
دل من پارہ گشت از غم ، نہ زانگونہ کہ بہ گردد
وگر جانان بدین شاد است ، یا رب ، پارہ تر بادا

(امیر خسرو)


میر ا دل غم سے پارہ ہو گیا ہے، نہیں کہتا کہ ٹھیک ہو، اگر یہ حالت محبوب کو پسند ہے تو یا رب! اور زیادہ پارہ ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دل من پارہ گشت از غم ، نہ زانگونہ کہ بہ گردد
وگر جانان بدین شاد است ، یا رب ، پارہ تر بادا

(امیر خسرو)


میر ا دل غم سے پارہ ہو گیا ہے، نہیں کہتا کہ ٹھیک ہو، اگر یہ حالت محبوب کو پسند ہے تو یا رب! اور زیادہ پارہ ہو جائے۔
میری نظر میں مصرعِ اول کا مفہوم کچھ یوں ہے:
میرا دل غم سے اِس طرح پارہ پارہ ہو گیا ہے کہ اب وہ بہتر نہیں ہو گا۔۔۔
اِس مصرعے کا لفظی ترجمہ:
میرا دل پارہ پارہ ہو گیا غم سے، نہ اُس طرح کہ بہتر ہو جائے۔۔۔
 
رباعی
دریادِ تو اے دوست چناں مدہوشم
صد تیغ اگر زنى از آں نخروشم
آہے کہ زنم بیادِ تو وقتِ سحر
گر ہر دو جہاں دہند والله نفروشم


(نامعلوم)

اے دوست میں تیری یاد میں ایسا کھو گیا ہوں کہ اگر سو تلواریں بھی تو مجھے مارے تو میں نہ کراہوں گا۔ جو آہ کہ تیری یاد میں صبح کے وقت کھینچتا ہوں اگر اس کے بدلے میں دونوں جہاں بھی دے تو والله نہ لوں گا۔
(یہ رباعی اکثر حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی سہروردی کی زبان مبارک سے سننے میں آتی تھی۔ از تذکرہِ بہاؤ الدین زکریا ملتانی)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
در طبعِ دوستاں ز حسد راستی نماند
انصاف گر طلب کنی از دشمناں طلب


نظیری نیشاپوری

دوستوں کی طبیعت میں حسد کی وجہ سے صداقت نہیں رہتی، لہذا اگر تجھے انصاف کی تلاش ہے تو پھر وہ دشمنوں سے طلب کر۔
 
دانہ باشی مرغکانت بر چنند!
غنچہ باشی کودکانت بر کنند!
دانہ پنہاں کن سراپا دام شو!
غنچہ پنہاں کن گیاہ بام شو!

(اقبال)

اگر تو دانہ بنے گا تو پرندے تجھے چگ لیں گے۔اگر تو کلی کی شکل اختیار کرے گا تو بچے تجھے نوچ پھینکیں گے۔(لہٰذا بہتر یہ ہے کہ)
دانہ چھپا لے اور سراپا جال بن جا۔کلی کو پوشیدہ کر اور کوٹھے کی سبزی ہو جا۔
ویسے مجھے لگتا ہے کہ درج ذیل شعر میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔

نقطہ وروں نے ہم کو سجھایا، خاص بنو اور عام رہو
محفل محفل صحبت رکھو ، دنیا میں گم نام رہو
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دانہ باشی مرغکانت بر چنند!
غنچہ باشی کودکانت بر کنند!
دانہ پنہاں کن سراپا دام شو!
غنچہ پنہاں کن گیاہ بام شو!

(اقبال)

اگر تو دانہ بنے گا تو پرندے تجھے چگ لیں گے۔اگر تو کلی کی شکل اختیار کرے گا تو بچے تجھے نوچ پھینکیں گے۔(لہٰذا بہتر یہ ہے کہ)
دانہ چھپا لے اور سراپا جال بن جا۔کلی کو پوشیدہ کر اور کوٹھے کی سبزی ہو جا۔
ویسے مجھے لگتا ہے کہ درج ذیل شعر میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔

نقطہ وروں نے ہم کو سجھایا، خاص بنو اور عام رہو
محفل محفل صحبت رکھو ، دنیا میں گم نام رہو
یہ در اصل مولانا رومی کی ابیات ہیں، جنہیں علامہ اقبال نے اقتباس کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشق است و بس که در دو جهان جلوه می‌کند
گاه از لباسِ شاه و گه از کِسوتِ گدا
(عبدالرحمٰن جامی)

[یہ] عشق ہے اور بس، جو دو جہاں میں جلوہ کرتا ہے؛ کبھی شاہ کے لباس [کے وسیلے] سے اور کبھی گدا کے جامے [کے وسیلے] سے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
جامی رهِ هُدیٰ به خدا غیرِ عشق نیست
گفتیم و والسلام علیٰ تابعِ الهُدیٰ
(عبدالرحمٰن جامی)

اے جامی! خدا کی قسم، عشق کے سوا کوئی راہِ ہدایت نہیں ہے؛ ہم نے کہہ دیا، پس ہدایت و راہِ راست کے پیرَو پر سلام ہو!
 
جی جناب آپ سچ فرما رہے ہیں۔میں نے چونکہ یہ اشعار بال جبریل کی نظم ''پیر و مرید''میں پڑھے تھے اس لیے علامہ کا حوالہ دیا ہے۔
بہر حال میرا خیال تھا کہ اس نظم میں بھی جواب شکوہ کی طرح علامہ نے خود ہی اپنے سوالات کے جوابات دیے ہیں۔
تصیح کرنے کا شکریہ!
 
کاظمی اردبیلی کا حافظ شیرازی کے شعر پر تلمیح:

بلبلِ خوش نغمه را صيّاد،گويی لب بدوخت
آتشِ بيداد را در صحنِ گلشن بر فروخت
يوسفِ گم گشته را دنيا بسی ارزان فروخت
"زهره سازی خوش نمی سازد مگر عودش بسوخت
كس ندارد ذوقِ مستی ميگساران را چه شد ؟"


بلبلِ خوش نغمہ کے لب گویا شکاری نے سی دیے ہیں۔(شکاری نے) صحنِ گلشن میں آتشِ ستم کو (مزید) روشن کردیا۔یوسفِ گم شدہ کو دنیا نے بسا اوقات ارزاں فروخت کیا ۔"زہرہ اچھا ساز نہیں بناتی، شاید اس کا عود جل گیا ہو۔کوئی بھی مستی کا شوق نہیں رکھتا ہے، شرابیوں کو کیا ہوا ہے؟"
 
آخری تدوین:
Top