خوبصورت نظمیں

ظفری

لائبریرین
شکریہ شمشاد بھائی ۔۔۔ بس آج کچھ کام نہیں تھا ، سوچا محفل کا چکر لگالوں آپ کو دیکھا تو یہاں ٹہر گیا۔ آپ سنائیں کیسے ہیں ۔ ؟
 

ظفری

لائبریرین

دل نے اس دھار پہ کٹنا چاہا
میں نے دریا سے لپٹنا چاہا
جب میرے ہاتھ سے وہ بہہ نکلا
میں نے یکبار لپک کر اس پر
سرِ مہتاب ہے وہ طاس جہاں
دل بچھڑتے ہیں جدا ہوتے ہیں

میں نے پتھر کو پکڑنا چاہا
اور وہ ڈوب گیا دریا میں
میرے ہاتھوں میں بھنور بھر آیا
چاند نے آ کے مجھے چھڑوایا

میں نے ہر جلوہ رم خوردہ کو
اپنے ہاتھوں میں جکڑنا چاہا
تم نے پھیلائے تھے بازو اپنے
جیسے اک صبح شناسائے طرب
ایک خاموش حریری پل میں
ایسے ساحل سے جہاں خواب ابھی
واقعہ ہونے نہیں پائے ہیں

جمشید مسرور​
 

ظفری

لائبریرین

تضاد

کتنے کوسوں پہ جا بسی ہے تو
میں تجھے سوچ بھی نہیں سکتا
اتنا بے بس ہوں، تیری سوچ کو میں
ذہن سے نوچ بھی نہیں سکتا
مجھ سے تو دور بھی ہے، پاس بھی ہے
اور مجھے ، یہ تضاد راس بھی ہے

احمد ندیم قاسمی​
 

عمر سیف

محفلین
کبھی بارش کے موسم میں
ہوائیں شور کرتی ہیں
خیالوں کا موسم بھی
جب ابر آلود ہو جائے
کوئی اُمید کا تارا کہیں
چمکنے سے پہلے ہی بجھ جائے
کسی ویران رہ گزر پر
آہٹ کا ہر امکان مٹ جائے
سکوت مضمحل فضا میں ہر طرف گُھل جائے
گزرتا وقت بھی ٹھہر جائے
اُسی لمحے اُداسی دہلیز پر اُترتی ہے
ہوا تھم سی جاتی ہے
حبسِ جاں اور بڑھتا ہے
دل کسی صورت پھر بہلتا نہیں۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین

جب وہ میرا نام
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
تلاش کر کے تھک گئی
تو دھیرے سے سر جھکایا
اور مسکرا کے کہا
” لکیریں جھوٹ بولتیں ہیں “​
 

عمر سیف

محفلین
بارشوں کے موسم میں
تم کو یاد کرنے کی عادتیں پُرانی ہیں
اب کے بار سوچا تھا
عادتیں بدل ڈالیں
پھر خیال آیا کہ
عادتیں بدلنے سے
بارشیں نہیں روکتیں !!!
 

ظفری

لائبریرین
پچھتاوا​

کیسے کہوں ؟ کس سے کہوں ؟
وہ خواب جو سجایا تھا
عذاب بن کے چھایا ہے
دشتِ جاں کی چوکھٹ پر
تنہائی کی وحشت نے
پھر تیرا سوگ منایا ہے
ہر شام کے دریچوں پہ
تمہاری یاد کی شمعوں کو
اِس دل نے جلایا ہے
بعد تم سے بچھڑنے کے
ذہن ودل کی کھیتی میں
پچھتاؤں کو اُگایا ہے​
 
نظم
محبت جب روٹھ جائے۔ ۔ ۔

وفا جب مصلحت کی شال اوڑھے ،

سرد رت کا روپ دھارے

دل کے آنگن میں اترتی ہے

تو پلکوں میں ستاروں کی دھنک مسکا نے لگتی ہے

کبھی خوابوں کے ان چھوئے ہیولوں سے بھی

ان دیکھی انجانی خوشبو سی آنے لگتی ہے

کسی کے سنگ بیتے ان گنت لمحوں کی زنجیریں

اچانک زہن میں جب جب گنگناتی ہیں

نفس کے تار میں سناٹا یک دم چیخ اٹھتا ہے

تو یہ محسوس ہوتا ہے

ہوائیں آکر سرگوشی سی کرتی ہیں

محبت کا تمہیں اب ادراک تو ہوگیا ہوگا؟

یہ جو بھی زخم دیتی ہے سینے نہیں دیتی

محبت روٹھ جائے تو کبھی جینے نہیں دیتی۔ ۔ ۔ ۔

فاخرہ بتول
 
نہ شکا یتیں نہ گلہ کرے !

نہ شکا یتیں نہ گلہ کرے !
کوئی ایسا شخص ہوا کرے
جو میرے لیے ہی سجا کرے
مجھ ہی سے باتیں کیا کرے

کبھی روئے جائے وہ بے پناہ
کبھی بے تہاشا اداس ہو
کبھی چپکے چپکے دبے قدم
میرے پیچھے آ کر ہنسا کرے

میری قربتیں میری چا ہتیں
کوئی یاد کرے قدم قدم
میں طویل سفر میں ہوں اگر
میری واپسی کی دعا کرے !
(امجد اسلام امجد)
 

عمر سیف

محفلین
اُسے کہنا

اُسے کہنا کہ اب وہ بارشوں کے موسم میں
دِل کے بند دریچوں کو وا نہیں کرتی
اُسے کہنا کہ اب وہ تتلیاں پکڑنے کو
کسی سر سبز جزیرے پر جایا نہیں کرتی
اُسے کہنا کہ اب وہ زندگی کے موضوع پہ
کوئی ترنم ریز نغمہ چھیڑا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ موجوں کے تلاطم سے
عہدِ ماضی کی طرح گھبرایا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ نرم خوابوں کی سر زمین پہ
گلاب کے سپنے سنجویا نہیں کرتی

اُسے کہنا اب وہ اپنے آنگن کے موتیا کو
کسی گجرے کے گہنے میں پرویا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ سرد اور تاریک راتوں میں
جاگتی تو رھتی ھے ، رویا نہیں کرتی
 

عمر سیف

محفلین
پہلے میرے خط کے اُس نے
اک انجانے خوف سے ڈر کر
ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے
اب
ایک حسیں احساس کے تابع
جسکا کوئی نام نہیں ہے
پچھلے کتنے ہی گھنٹوں سے
دروازے کی اوٹ میں چھپ کر
ٹکڑے جوڑ رہی ہے ۔۔ پاگل
 

عمر سیف

محفلین
سنو!
تم عزم والے ہو
بلا کا ضبط رکھتے ہو
تمہیں کچھ بھی نہیں ہو گا

مگر دیکھو !
جسے تم چھوڑے جاتے ہو
اسے تو ٹھیک سے شاید
بچھڑنا بھی نہیں آتا

سنو!
تم عزم والے ہو
اسے مت چھوڑ کے جاؤ
 
ایسی ہی سرد شام تھی وہ بھی
جب وہ مہندی رچائے ہاتھوں میں
اپنی آہت کے خوف سے لرزاں
سرخ آنچل میں مونہہ چھپائے ہوئے
اپنے خط مجھ سےلینے آئی تھی
اس کی سہمی ہوئی نگاہوں میں
کتنی خاموش التجائیں تھیں
اس کے چہرے کی زرد رنگت میں
کتنی مجبوریوں کے سائے تھے
میرے ہاتھوں سے خط پکڑتے ہی
جانے کیا سوچ کر اچانک وہ
میرا شانہ پکڑ کر روئی تھی
اس کے یاقوت رنگ ہونٹوں کے
کپکپاتے ہوئے کناروں پر
سینکڑوں ان کہے فسانے تھے
سرد شاموں میں دیر تک اکثر
جب یہ منظر دکھائی دیتا ہے
اک لمحہ حنائی ہاتھوں سے
مجھ کو اپنی طرف بلاتا ہے
ہمنشیں روٹھ کر نہ جا مجھ سے
ایسی ہی سرد شام تھی وہ بھی !
(امجد اسلام امجد)
 

عمر سیف

محفلین
کتنے برس لگے
یہ جاننے میں
کہ تیرا ہونا میرے لیے کیا ہے
ایسا ہونا بھی چاہئے تھا
شام ہوتے ہی
چاند میں روشنی نہیں آجاتی
رات ہوتے ہی
رات کی رانی مہک نہیں اُٹھتی
شام اور خوشبو کے بیچ
ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے
جس کا ہماری زمیں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
اس آسمانی لمحے نے
اب ہمیں چھو لیا ہے ۔۔۔!!!

پروین شاکر
 

عمر سیف

محفلین
اتنی سی اِک دُعا ہے
حسیں چاہتوں کے پھول بخشے، عروج بخشے
تمھاری دُنیا میں روشنی ہو
تمھاری محفل میں خوشیاں ہوں
تمھارے ہونٹوں پہ مُسکراہٹ
کبھی بھی تم تک دکھوں کی دستک نہ پہنچ پائے
تمھاری آنکھوں میں جو ستارے چمک رہے ہیں یونہی چمکتے رہیں ہمیشہ
تمھاری دل تک جُدائیوں، بےوفائیوں کی کوئی اندھیری کِرن نہ
پہنچے
خُدا کرے کہ ہر اک دل کاقرار لُوٹو
مگر تمھاری پر اک تمنا پر اک خواہش
تمھاری ہونٹوں تک آتے آتے
تمھارے قدموں تک آن پہنچے
جو ہوسکے تو تمھارے حصے کے سب غموں کو میں اپنے اندر اُتار
لوں
یہ ممکن تو نہیں، لیکن دُعا تو میرا حق ہے
یہ مختصر سی دُعا کا تحفہ سنبھال رکھنا
میری اندھیروں کی فکر چھوڑو
تم بس اپنا خیال رکھنا ۔۔۔!!!
 
ہتھیلی سامنے رکھنا !!

ہتھیلی سامنے رکھنا کہ
سب آنسو گریں اس میں
جو رک جائے گا ہونٹوں پر
سمجھ جانا کہ وہ ہوں میں

کبھی جو چاند کو دیکھو
تو تم یوں مسکرا دینا
کہ پھر بادل بھی آ جائیں
سمجھ جانا کہ وہ ہوں میں

جو چل جائے ہوا ٹھنڈی
تو آنکھیں بند کر لینا
جو جھونکا تیز ہو سب سے
سمجھ جانا کہ وہ ہوں میں

جو زیادہ یاد آؤں میں
توتم رو لینا جی بھر کے
اگر ہچکی کوئی آئے
سمجھ جانا کہ وہ ہوں میں

اگر تم بھولنا چاہو
مجھے شاید بھلا بھی دو
مگر جب سانس آئے گی
سمجھ جانا کہ وہ ہوں میں

(ع)
 
مجھے اچھا سا لگتا ہے
تمہارے سنگ سنگ چلنا
وفا کی آگ میں جلنا
تمہیں ناراض کر دینا
کبھی خود بھی روٹھ جانا

تمہاری بے رخی پر بھی
تمہاری آرزو کرنا
خود اپنے دل کی دھڑکن سے
تمہاری گفتگو کرنا

مجھے اچھا سا لگتا ہے

بہت اچھا سا لگتا ہے
تمہی کو دیکھتے رہنا
تمہی کو سوچتے رہنا

بہت گہرے خیالوں میں
جوابوں میں، سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہارا نام آ جانا
مجھے اچھا سا لگتا ہے !!!
 

عمر سیف

محفلین
دوست بن کر جو کل ملا تھا مجھے
کتنا بے چین کر گیا ہے مجھے
وہ تھا خوشیوں کا ایک سوداگر
جو مجھے کل ملا تھا رستے میں
میری آنکھوں میںآنسوؤں کے نشاں
صاف کر کے بڑی محبّت سے
میرے ہاتوں میں پھول پکڑآ کے
جھک کے اُس نے کہا تھا ہولے سے
اب سُنو، میری پوری بات سُنو
صبح ہوتی ہے اُس طرف دیکھو
درد کا سب سفر تمام ہوا
دوست! آج کے بعد تم نہ روؤ گی
میں نے سچ مان لی تھی بات اُس کی
آنسوؤں کی جھڑی میں ہنس دی تھی
آج پھر دُکھہ بھرا اکیلا دن
کرب کی رات درد کے سپنے
زینہ زینہ اُترتے آتے ہیں
شام ڈھلتی ہے پھر اُفق کے پار
آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں
کون جانے وہ منچلا ہنس مُکھہ
کون سے شہر کس گلی میں ہو
پھر کوئی میرے جیسی لڑکی ہو
جو اُسے دوست ہی سمجھتی ہو
جس کو وہ پھر نوید دیتا ہو
لو سُنو، میری پوری بات سُنو
دوست درد کے مرحلے تمام ہوئے
آج کے بعد تم نہ روؤگی
اُس کو عادت ہے دُکھہ بٹانے کی
پھول دینے کی، دوست کہنے کی
اور پھر قول بھول جانے کی
 
Top