خوشحال سے تُم بھی لگتے ہو
یُوں افسُردہ تو ہم بھی نہیں
پر جاننے والے جانتے ہیں
خوش تُم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں
تُم اپنی خودی کے پہرے میں
اور دَمِ غرور میں جکڑے ہوئے
ہم اپنی زعم کے نرغے میں
اَنا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
ایک مدّت سے غلطاں پیچاں
ہم اپنے آپ سے اُلجھے ہوئے
پچھتاوے کے انگاروں میں
محصور تلاطم آج بھی ہو
گو تُم نے کنارے ڈھونڈ لیئے
طوفان سے سنبھلے ہم بھی نہیں
کہنے کو سہارے ڈھونڈ لیئے
خا موش سے ہم تم مہر بہ لب
جگ بیت گئے ٹک بات کئے
سنو ! کھیل ادھورا چھوڑتے ہیں
بناء چال چلے ، بناء مات کیئے
جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں
وہ سائے رک بھی سکتے ہیں
چلو توڑو قسم ۔۔۔۔ انکار کریں
ہم دونوں جُھک بھی سکتے ہیں۔