خوبصورت نظمیں

سارہ خان

محفلین
دوست نے کہا:
محبت
اسے ریشم نہ تم سمجھو
نہ اس کی ڈور میں الجھو
بہت نازک سی کلی ہے
اسے محسوس کردیکھو
بہاروں سے خزاں تک کے سفر کو جانتی ہے یہ
اسے نہ تم غلط سمجھو
نہ یہ تم کو غلط سمجھے
اسے کوئی یقین مت دو
محبت جانتی سب ہے
کسی کی بے وفائی کےسبب پہچانتی ہے یہ
اسے خالی نہ تم سمجھو
اسے باقی نہ تم سمجھو
یہ ہوتی ہے تو ہوتی ہے
مگر یہ کُل نہیں ہوتی
کہ دل سے دل کو جاننے کے سبھی گرجانتی ہے یہ
اسے کوزہ نہ تم سمجھو
اسے قطرہ نہ تم سمجھو
سمندر کی شکل ہے یہ
بہت پرزور موجیں ہیں
کبھی جو جوش میں‌ آئے چٹانوں سے ٹکرانا جانتی ہے یہ
اسے خواہش نہ تم سمجھو
اسے آشیانہ تم سمجھو
یہ اک خواب جیسی ہے
چراغ آب جیسی ہے
لگا کے آگ سینوں‌ میں جلانا جانتی ہے یہ
اسے لمحہ نہ تم سمجھو
اسے آخر نہ تم سمجھو
ازل سے یہ ابد تک ہے
کبھی یہ مر نہیں سکتی
دھواں بن کے پھر لمحوں میں سمٹنا جانتی ہے یہ

:great:
 

سارہ خان

محفلین
محبت میں
اگرچہ دل کی آنکھیں مدتوں پلکیں جھپکنا بھول جاتی ہیں
مگر ان رتجگوں کے سرخ ڈورے نیل گوں سنولاہٹیں
اور ابراؤں کی رازداری بھی
عجب اِک حسن پیدا کرتی ہیں
محبت میں
اگرچہ دھڑکنیں اپنا چلن تک چھوڑ جاتی ہیں
مگر سنگیت ایسی دھڑکنوں کی تھاپ اور سرگم کو ترستا ہے
محبت میں
اگرچہ بے کلی
دل کو بہت تڑپائے رکھتی ہیں
مگر دل کی تڑپ ہی زندگی کو پتھروں کی زندگی سے
مختلیف بناتی ہیں دنیا میں
محبت میں
اگر چہ آنکھ سے اوجھل ہوئی لگتی ہے
دنیا اِک محبت سوا
لیکین بصیرت کی کئی بینائیاں اور کھڑکیاں کھلی چلی جاتی ہیں
باطن میں
محبت میں
اگرچہ آنسوؤں کو سرخ ہوتے پل نہیں لگتا
مگر یہ سرخیاں کتنے گلستاں چاند تارے
اور زمیں آسمان
رنگیں کرتی ہیں
محبت میں
جدائی دھوپ کے آنگن میں پلتی ہیں
اگرچہ پھر بھی ساری عمر خوابوں اور دعاؤں سے کبھی ٹھنڈک نہیں جاتی
مجھے معلوم ہیں کے تم محبت کے مخالف ہو
مگر جاناں ---
دلیلیں دلیلیں تو دلیلیں‌ہیں
محبت ان دلیلوں کی کہاں محتاج ہے
محبت خوبصورت ہے
 

سارہ خان

محفلین
شکریہ قیصرانی ۔۔۔۔۔شاعر کا نام تو نہیں پتا ۔۔۔ڈائجسٹ سے لی ہے ۔۔۔شاعر کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔۔۔ :(
 

فرخ

محفلین
ایک چھوٹی سی نظم۔۔۔

دریا میں قطرے کی صورت گم ہو جاؤں
اپنے آپ سے باہر نکلوں اور
تم ہو جاؤں

(امجد اسلام امجد)
 

شائستہ

محفلین
لو وہ چاہِ شب سے نکلا، پچھلے پہر پیلا مہتاب
:ذہن نے کھولی، رُکتے رُکتے، ماضی کی پارینہ کتاب
یادوں کے بے معنی دفتر، خوابوں کے افسردہ شہاب
سب کے سب خاموش زباں سے، کہتے ہیں اے خانہ خراب
گُزری بات، صدی یا پل ہو، گُزری بات ہے نقش بر آب
یہ رُوداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں



شہرِ تمنّا کے مرکز میں، لگا ہُوا ہے میلا سا
کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے، اک رنگیں گُلزار کھلا
وہ اک بالک، جس کو گھر سے ، اک درہم بھی نہیں ملا
میلے کی سج دھج میں کھو کر، باپ کی اُنگلی چھوڑ گیا
ہوش آیا تو، خُود کو تنہا پاکے بہت حیران ہوا
بھیڑ میں راہ ملی نہی گھر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

وہ بالک ہے آج بھی حیراں، میلا جیوں کا تُوں ہے لگا
حیراں ہے، بازار میں چُپ چُپ ،کیا کیا بِکتا ہے سودا
کہیں شرافت، کہیں نجات، کہیں مُحبّت، کہیں وفا
آل اولاد کہیں بِکتی ہے، کہیں بُزرگ، اور کہیں خُدا
ہم نے اس احمق کو آخر، اِسی تَذبذُب میں چھوڑا
اور نکالی، راہ مَفر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
 

نوید ملک

محفلین
ہر سینے کونے چار
ہر کونے درد ہزار
ہر درد کا اپنا وار
ہر وقت کی اپنی مار
تیرے گرد و پیش ہجوم
کئی سورج چاند نجوم
ہر جانب چیخ پکار
تیری کوئی سنے نہ ہوک
کبھی کوک میرے دل کوک
ہر سینے آنکھیں سو
ہرآنکھ کی اپنی لو
پر پوری پڑے نہ ضو
کبھی پھوٹ سکی نہ پو
تیرے صحن اندھیرا گُھپ
تیری اللہ والی چُپ
تیری مٹی ہو گئے جو
تیری کون مٹائے بھوک
کبھی کوک میرے دل کوک
ہر سینے سو سو جنگ
تیری سانس کے رستے تنگ
تیرا نیلا پڑ گیا رنگ
لمحوں کے خنجر تیز
ہر دھار اذیت خیز
تیرا نازک اِک اِک انگ
تیرا اِک اِک تار ملوک
کبھی کوک میرے دل کوک
 

نوید ملک

محفلین
محبت کی دوسری ادھوری نظم ( فرحت عباس شاہ)
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے
کوئی جنگل میں جا ٹھہرے ، کسی بستی میں بس جائے
محبت ساتھ ہوتی ہے
محبت خوشبوؤں کی لَے
محبت موسموں کا دَھن
محبت آبشاروں کے نکھرتے پانیوں کا مَن
محبت جنگلوں میں رقص کرتی مورنی کا تَن
محبت برف پڑتی سردیوں میں دھوپ بنتی ہے
محبت چلچلاتے گرم صحراؤں میں ٹھنڈی چھاؤں کی مانند
محبت اجنبی دنیا میں اپنے گاؤں کی مانند
محبت دل
محبت جاں
محبت روح کا درماں
محبت مورتی ہے
اور کبھی جو دل کے مندر میں کہیں پر ٹوٹ جائے تو
محبت کانچ کی گڑیا
فضاوں میں کسی کے ہاتھ سے گر چھوٹ جائے تو
محبت آبلہ ہے کرب کا
اور پھوٹ جائے تو
محبت روگ ہوتی ہے
محبت سوگ ہوتی ہے
محبت شام ہوتی ہے
محبت رات ہوتی ہے
محبت جھلملاتی آنکھ میں برسات ہوتی ہے
محبت نیند کی رُت میں حسیں خوابوں کے رستوں پر
سُلگتے ، جان کو آتے، رتجگوں کی گھات ہوتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
محبت مات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے
 

شائستہ

محفلین
فرخ نے کہا:
Shaista نے کہا:
شکریہ فرخ ، میں‌ بھی دیکھ رہی تھی کوئی پڑھتا بھی ہے یا نہیں ، ابھی آدھی لکھی تھی یہ نظم

جی، میں اچھی شاعری اکثر پڑھتا ہوں۔
تو باقی نظم کب آئیگی؟
[font=Nafees Web Naskh]حاضر ہے باقی نظم
راہ نوردِ شوق کو، راہ میں، کیسے کیسے یار مِلے
ابرِ بہاراں، عکسِ نگاراں، خالِ رُخِ دلدار مِلے
کچھ بلکل مٹّی کے مادُھو، کچھ خنجر کی دھار مِلے
کچھ منجدھار میں، کچھ ساحل پر، کچھ دریا کے پار مِلے
ہم سب سے ہر حال میں لیکن، یُونہی ہاتھ پسار مِلے
اُن کی ہر خُوبی پہ نظر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

ساری ہے بے ربط کہانی، دُھندلے دُھندلے ہیں اوراق
کہاں ہیں وہ سب، جن سے جب تھی، پل بھر کی دُوری بھی شاق
کہیں کوئ ناسُو ر نہیں، گو حائل ہے، برسوں کا فراق
کِرم فراموشی نے دیکھو، چاٹ لئے کتنے میثاق
وہ بھی ہم کو رو بیٹھے ہیں، چلو ہُوا قِصّہ بے باق
کُھلی، تو آخر بات اثر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
خوار ہُوے دمڑی کے پیچھے، اور کبھی جھولی بھر مال
ایسے چھوڑ کے اُٹّھے، جیسے چھُوا، تو کر دے کا کنگال
سیانے بن کر بات بِگاڑی، ٹھیک پڑی سادہ سی چال
چھانا دشتِ محبّت کتنا، آبلہ پا، مجنوں کی مثال
کبھی سکندر، کبھی قلندر، کبھی بگُولا، کبھی خیال
سوانگ رچائے، اور گُزر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

زیست، خُدا جانے ہے کیا شے، بُھوک، تجسّس، اشک، فرار
پھوُل سے بچّے، زُہرہ جبینیں، مرد، مجسّم باغ و بہار
مُرجھا جاتے ہیں کیوں اکثر، کون ہے وہ جس نے بیمار
:کیا ہے رُوحِ ارض کو آخر، اور یہ زہریلے افکار
کس مٹّی سے اُگتے ہیں سب، جینا کیوں ہے اک بیگار
ان باتوں سے قطع نظر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

دُور کہیں وہ کوئل کُوکی، رات کے سنّاٹے میں، دُور
کچّی زمیں پر بِکھرا ہوگا، مہکا مہکا آم کا بُور
بارِ مُشقّت کم کرنے کو، کھلیانوں میں کام سے چُور
کم سِن لڑکے گاتے ہوں گے، لو دیکھو وہ صبح کا نُور
:چاہِ شب سے پھُوٹ کے نکلا، میں مغمُوم، کبھی مسُرور
سوچ رہا ہوں، اِدھر اُدھر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں[/font]
 

فرخ

محفلین
بہت خوب نوید۔
محبت کی کافی اچھوتی تعریف ہے یہ۔ ساری نظم ہی بہت اچھی ہے۔

نوید ملک نے کہا:
محبت کی دوسری ادھوری نظم ( فرحت عباس شاہ)
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے
کوئی جنگل میں جا ٹھہرے ، کسی بستی میں بس جائے
محبت ساتھ ہوتی ہے
محبت خوشبوؤں کی لَے
محبت موسموں کا دَھن
محبت آبشاروں کے نکھرتے پانیوں کا مَن
محبت جنگلوں میں رقص کرتی مورنی کا تَن
محبت برف پڑتی سردیوں میں دھوپ بنتی ہے
محبت چلچلاتے گرم صحراؤں میں ٹھنڈی چھاؤں کی مانند
محبت اجنبی دنیا میں اپنے گاؤں کی مانند
محبت دل
محبت جاں
محبت روح کا درماں
محبت مورتی ہے
اور کبھی جو دل کے مندر میں کہیں پر ٹوٹ جائے تو
محبت کانچ کی گڑیا
فضاوں میں کسی کے ہاتھ سے گر چھوٹ جائے تو
محبت آبلہ ہے کرب کا
اور پھوٹ جائے تو
محبت روگ ہوتی ہے
محبت سوگ ہوتی ہے
محبت شام ہوتی ہے
محبت رات ہوتی ہے
محبت جھلملاتی آنکھ میں برسات ہوتی ہے
محبت نیند کی رُت میں حسیں خوابوں کے رستوں پر
سُلگتے ، جان کو آتے، رتجگوں کی گھات ہوتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
محبت مات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے
 

فرخ

محفلین
بہت اعلیٰ۔
جہاں تک میں اسکو سمجھ پایا ہوں، تو یہ مجھے ہر انسان کی زندگی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور پر یہ “خوار ہوئے دمڑی کے پیچھے“۔

جیسے ایک پنجابی مصرعہ ہے “ بندہ مکری، تولے تکڑی، ہتھ وچ لکڑی دفدا جاوے“
یعنی “انسان پیسہ کمانے کے لئے مکر بھی کرتا ہے اور کم بھی تولتا ہے اور پھر جب بڑھاپا آپکڑتا ہے تو پھر۔۔۔۔۔“ آگے آپ خود سمجھدار ہو۔



Shaista نے کہا:
فرخ نے کہا:
Shaista نے کہا:
شکریہ فرخ ، میں‌ بھی دیکھ رہی تھی کوئی پڑھتا بھی ہے یا نہیں ، ابھی آدھی لکھی تھی یہ نظم

جی، میں اچھی شاعری اکثر پڑھتا ہوں۔
تو باقی نظم کب آئیگی؟
[font=Nafees Web Naskh]حاضر ہے باقی نظم
خوار ہُوے دمڑی کے پیچھے، اور کبھی جھولی بھر مال
ایسے چھوڑ کے اُٹّھے، جیسے چھُوا، تو کر دے کا کنگال
سیانے بن کر بات بِگاڑی، ٹھیک پڑی سادہ سی چال
چھانا دشتِ محبّت کتنا، آبلہ پا، مجنوں کی مثال
کبھی سکندر، کبھی قلندر، کبھی بگُولا، کبھی خیال
سوانگ رچائے، اور گُزر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

دُور کہیں وہ کوئل کُوکی، رات کے سنّاٹے میں، دُور
کچّی زمیں پر بِکھرا ہوگا، مہکا مہکا آم کا بُور
بارِ مُشقّت کم کرنے کو، کھلیانوں میں کام سے چُور
کم سِن لڑکے گاتے ہوں گے، لو دیکھو وہ صبح کا نُور
:چاہِ شب سے پھُوٹ کے نکلا، میں مغمُوم، کبھی مسُرور
سوچ رہا ہوں، اِدھر اُدھر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں[/font]
 

شائستہ

محفلین
جی فرخ ایسا ہی کچھ ہے ،،، اس مصرعے پر غور کیا اپ نے جہاں ، شاعر ، کہتا ہے
اہ نوردِ شوق کو، راہ میں، کیسے کیسے یار مِلے
ابرِ بہاراں، عکسِ نگاراں، خالِ رُخِ دلدار مِلے
کچھ بلکل مٹّی کے مادُھو، کچھ خنجر کی دھار مِلے
کچھ منجدھار میں، کچھ ساحل پر، کچھ دریا کے پار مِلے
ہم سب سے ہر حال میں لیکن، یُونہی ہاتھ پسار مِلے
اُن کی ہر خُوبی پہ نظر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
 

شائستہ

محفلین
ظفر ،،، آپ کے کہنے پر ایک نظم حاضر ہے

کوئی بتلائے مجھے
میرے ان جاگتے خوابوں کا مقدر کیا ہے؟
میں کہ ہر شے کی بقا جانتا ہوں
اُڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں
سرد اور زرد ستاروں کی تگاپو کیا ہے
رنگ کیا چیز ہے خوشبو کیا ہے
صبح کا سحر ہے کیا، رات کا جادو کیا ہے
اور کیا چیز ہے آواز صبا جانتا ہوں
ریت اور نقش قدم، موج کا رم
آنکھ اور گوشہ لب، زلف کا خم
شام اور صبح کا غم
سب کی قسمت ہے فنا ، جانتا ہوں
پھر بھی یہ خواب مرے ساتھ لگے رہتے ہیں
جاگتے خواب کہ جن کی کوئی تعبیر نہیں
کوئی تفسیر نہیں
صورت زخم ہرے رہتے ہیں
میرے ہاتھوں سے پرے رہتے ہیں

آگہی جہل سے بدتر ٹھہری
جاگتے خواب کی تعبیر مقدر ٹھہری
زندگی میرے لیے گنبد بے در ٹھہری
میں کہ آواز صبا جانتا ہوں
اڑے لمحوں کا پتا جانتا ہوں
اور ہر شے کی بقا جانتا ہوں
 

نوید ملک

محفلین
Shaista نے کہا:
طاہر نے کہا:
کس کس کی تعریف کریں سب اپنی مثال آپ ہیں
اور کسی کی کریں‌نہ کریں ،،،، میری پوسٹ کی بھرپور تعریف ہونی چاہیے :roll:
بہت اچھے شائستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب خوش آپکی پوسٹ کی میں نے تعریف کر دی ۔ واقعی بہت زبردست ہیں 8)
 
Top