فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
بے شمار شواہد اور طالبان کی قيادت کی جانب سے بارہا تسليم کيے جانے کے باوجود اب بھی ايسے تجزيہ نگار اور رائے دہندگان موجود ہيں جو نا صرف يہ کہ ان گروہوں کو مختلف اکائياں گردانے پر بضد ہيں بلکہ اپنے تصورات کو وسعت دے کر ان دہشت گرد گروہوں کی خود ساختہ آزادی کی تحريک ميں خير کے ان پہلوؤں کو تلاش کرتے رہتے ہيں جن کا سرے سے وجود ہی نہيں ہے۔
اس بحث سے جو سب سے واضح سوال ابھرتا ہے وہ يہ ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف متحرک ان گروہوں کی غير متزلزل اور عدم برداشت پر مبنی غير انسانی اور سفاکانہ سوچ ميں اتنی مماثلت کيوں ہے، جو اپنے ايجنڈے کی تکميل کے ليے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ انسانی اذيت اور بے گناہ شہريوں کی ہلاکت پر انحصار کرتی ہے۔
جو رائے دہندگان اس بنياد پر ان کی حمايت کے ليے حيلے بہانے تراشتے ہيں کہ افغانستان پر غير ملکی طاقتوں کا قبضہ ہے، ان کے ليے وضاحت کر دوں کہ اقوام متحدہ کا افغانستان ميں انسانی حقوق سے متعلق ادارہ ہيومن رائٹس يونٹ آف دا يونائيٹٹ نيشنز اسسٹنس مشن ان افغانستان (يو اين اے ايم اے) سرکاری طور پر افغانستان میں جاری مسلح تنازعے کو کوئ بين الاقوامی مسلح تنازعہ نہيں بلکہ افغانستان کی حکومت اور غير رياستی مسلح گروہوں کے مابين مسلح جدوجہد قرار ديتا ہے جس ميں بين الاقوامی عسکری قوتيں افغان حکومت کو تعاون فراہم کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ اس تھريڈ پر بعض رائے دہندگان کی رائے کے برخلاف افغانستان ميں طالبان نے کئ بار عوامی سطح پر يہ بيان جاری کيا ہے کہ وہ ہر اس عنصر کے خلاف حملے کريں گے جو ان کی سوچ اور نظريے سے اختلاف کرے گا اور اس ميں وہ افراد اور گروہ بھی شامل ہيں جو بين الاقوامی قانون کے تحت "سويلين" يا عام شہری کے زمرے ميں آتے ہيں۔
گزشتہ کئ برسوں کے دوران طالبان اور ان سے منسلک عناصر نے کئ حکومتی عہديداروں، قبائلی عمائدين، سرکاری اہلکاروں، اجرت پر کام کرنے والوں، ڈرائيورز، مترجم اور ديگر شہريوں کو نا صرف يہ کہ نشانہ بنايا ہے بلکہ کھلم کھلا ان شہريوں کو قتل يا اغوا کرنے کا عنديہ بھی ديا ہے۔
سال 2011 اکتوبر ميں حکومت کی جانب سے لويا جرگہ کے انعقاد کے اعلان کے بعد طالبان نے اپنے بيان ميں يہ واضح کيا کہ وہ اس جرگے میں شموليت اختيار کرنے والے مختلف شہريوں اور حکومت سے متعلق عہديداروں کو نشانہ بنانا درست تصور کرتے ہيں۔
ايسے شہريوں پر دانستہ حملے اور ان کا قتل عالمی انسانی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے جس کے تحت کسی بھی مسلح تنازعے ميں محض عسکری مقاصد کے ليے کيا جانے والا حملہ ہی قانونی تصور ہوتا ہے۔
ايک منصفانہ تحريک جو عوامی مفاد کے حصول کی دعويدار ہو اس ميں کسی بھی صورت ميں شہريوں کو جائز عسکری ہدف قرار نہيں ديا جا سکتا ہے۔
افغانستان ميں دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے دانستہ شہریوں کو نشانہ بنانے اور قتل و غارت پر مبنی شرمناک مہم کے طفيل انسانی زياں اور جانی نقصان سے متعلق اعداد وشمار ہر گزرتے سال کے ساتھ بتدريج بڑھتے ہی چلے جا رہے ہيں۔
ادارہ ہيومن رائٹس يونٹ آف دا يونائيٹٹ نيشنز اسسٹنس مشن ان افغانستان (يو اين اے ايم اے) کی پيش کردہ دستاويز کے مطابق سال 2011 ميں تين ہزار اکيس (3021) شہری ہلاک ہوئے جو سال 2010 کے مقابلے ميں آٹھ فيصد زيادہ ہيں جب دو ہزار سات سونوے (2790) شہری ہلاک ہوئے اور يہ اعداد وشمار سال 2009 سے 25 فيصد زيادہ ہيں جب کل دو ہزار چار سو بارہ (2412) شہری ہلاک ہوئے۔
ريکارڈ سطح پر افغان بچوں، خواتين اور مردوں کی ہلاکت حکومت مخالف گروہوں کی ترميم شدہ حکمت عملی کی مرہون منت ہے۔ ہر گزرتے برس کے ساتھ متعدد افغان طالبان گروہ اور ان کے ساتھی تواتر کے ساتھ خود ساختہ دھماکہ خيز آلات يعنی آئ ای ڈيز کا استعمال کر رہے ہيں اور نا صرف يہ کہ ملک بھر ميں اپنی کاروائيوں کا دائرہ کار بڑھا رہے ہيں بلکہ خودکش حملوں ميں بھی اضافہ کيا جار ہا ہے جس کے نتيجے ميں زيادہ ہلاکتيں بھی ہو رہی ہيں اور اس کے ساتھ ساتھ غيرقانونی طور پر شہريوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سال 2011 ميں افغان بچوں، خواتين اور مردوں کی ہلاکت کا سب سے بڑا سبب خود ساختہ دھماکہ خيز آلات يعنی آئ ای ڈيز کا استعمال تھا جن کی تعداد 967 رہی يعنی کہ مجموعی طور پر اس تنازعے ميں 32 فيصد ہلاکتيں يا ہلاک ہونے والے ہر 3 ميں سے ايک شہری انھی آئ ای ڈيز کی زد ميں آئے۔
اسی طرح سال 2011 ميں خود کش حملوں کے نتيحے ميں ہلاک ہونے والے شہريوں کی تعداد ميں بھی ڈرامائ اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر خودکش حملوں کے نتيجے ميں 431 شہری ہلاک ہوئے جو کہ سال 2010 کے مقابلے ميں 80 فيصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
ان اعداد وشمار کا ايک سرسری جائزہ اور پاکستانی ميں اسی ضمن ميں موجود اعداد وشمار کے ساتھ ايک غير جانب دارانہ تقابلی جائزہ اس امر کو ثابت کرنے کے ليے کافی ہے کہ ہم ايک مشترکہ دشمن کے خلاف برسرپيکار ہيں اور ان کے مقاصد ميں عظمت، خير اور انصاف کا کوئ پہلو نہيں ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu