فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا کام امريکی خارجہ پاليسی کا دفاع کرنا نہيں بلکہ اس کی صحيح وضاحت کرنا ہے تاکہ منفی پراپيگنڈے کی بجائے صحت مند بحث کی جا سکے۔
ميرے لیے يہ بات خاصی حيران کن ہے کہ اکثر تھريڈز پر دلائل اور بحث کا رخ اس نہج پر پہنچ جاتا ہے جہاں کچھ دوست ميرے مذہب پر سوال اٹھانا شروع کر ديتے ہيں اور يہ قياس کرتے ہيں کہ آيا ميں پانچ وقت کی نماز بھی پڑھتا ہوں کہ نہيں۔
بحث کا يہ رخ اور دليل کا يہ زاويہ دراصل اس غلط گمان کا نتيجہ ہے کہ امريکی حکومت کی پاليسياں کسی بھی لحاظ سے ايک مخصوص مذہب کی نمايندگی کرتی ہيں، جس سے لامحالہ يہ نتيجہ اخذ کيا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے لیے کام کرنے والے ہر شخص کا اس مخصوص مذہب کی ضروريات اور ديگر لوازمات سے منسلک ہونا ضروری ہے۔
يہ سوچ بالکل غلط ہے۔
ميں مختلف موضوعات پر امریکی حکومت کا موقف اعلی عہديدران اور سفارت کاروں کے بيانات، تاريخی دستاويزات اور قابل تحقيق اعداد وشمار کی روشنی ميں آپ کے سامنے پيش کرتا ہوں۔ مجھ سميت امريکی حکومت کے ليے کام کرنے والے کسی بھی فرد کی مذہبی وابستگی يا اس کی مذہبی سوچ کا امريکی حکوت کی پاليسی سے کوئ تعلق نہيں ہے۔
امريکی حکومت اور امريکی معاشرہ عمومی طور پر کسی ايک مذہب کی آئينہ دار نہيں ہے۔
يہ ايک حقيقت ہے کہ امريکہ ميں حکومتی سطح پر فيصلہ سازی کے عمل کا اختيار مسلمانوں، عيسائيوں، يہوديوں يا کسی اور عقيدے يا سوچ سے وابستہ کسی مخصوص گروہ کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔ يہ تمام فيصلے امريکی شہری اپنے مذہبی عقائد سے قطع نظر بحثيت مجموعی امريکی قوم کے مفادات کے تحفظ کے ليے اپنی مخصوص حيثيت ميں سرانجام ديتے ہيں۔
ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت ميں کام کرنے والا ميں واحد مسلمان نہيں ہوں۔ اس وقت امريکی کانگريس، اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ، امريکی فوج، نيوی، وائٹ ہاؤس اور فيصلہ سازی کے حوالے سے تمام فورمز پر مسلمان موجود ہيں۔ ليکن بحثيت مسلمان ان کی موجودگی نہ ہی انھيں کوئ فائدہ ديتی ہے اور نہ ہی ان کے فرائض کی ادائيگی ميں ان کے راستے ميں کسی رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ امريکہ ميں جو بھی پاليسياں تشکيل پاتی ہيں، ان کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں ہوتی۔
امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوانسانی تاريخ کے ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔
اسلام اور امريکہ کے تعلقات کو جانچنے کا بہترين پيمانہ امريکہ کے اندر مسلمانوں کو ديے جانے والے حقوق اور مذہبی آزادی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ دنيا پر ايک خاص سوچ يا مذہب کے بارے ميں ايک رائے رکھتے ہيں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے کريں گے۔
جہاں تک ميرے مذہبی عقائد اور ان کی پابندی کے حوالے سے آپ کے براہراست سوال يا رائے کا تعلق ہے تو اپنی ذات کے حوالے سے کچھ باتوں کی وضاحت کر دوں جو ميں پہلے بھی اس فورم پر پيش کر چکا ہوں۔۔ ميں ايک امريکی مسلمان ہوں ۔ مجموعی طور پر 20 سے ذائد عمروں کے علاوہ حج کی سعادت بھی حاصل کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ گزشتہ 25 برسوں سے باقاعدگی سے روزے رکھ رہا ہوں۔ ۔ دنيا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کی طرح پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں جس ميں ظہر کی نماز بھی شامل ہے جو ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی عمارت کے اندر ديگر مسلمان بھائيوں کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu