شمشاد نے کہا:سونے پہ سہاگہ اگر اس میں ایک “ مائی “ بھی شامل ہو جائے تو۔
ظفری نے کہا:ویسے حجاب بی بی ۔۔۔ کھانے سے دماغ نہیں چلتا ۔۔۔ دماغ چلتا ہے دماغ کے کھوپڑی میں ہونے سے ۔۔۔۔ اب یہ پیٹ تھوڑی ہی ہے کہ جب بھی خالی ہوگیا ۔۔۔کہ کچھ ڈال دو اس میں ۔حجاب نے کہا:ویسے ماوراء بتیسی کیوں نہیں ہے کیا خیال ہے چندہ کرکے سب کو ایک ایک بتیسی نہ دلوا دی جائے تاکہ صرف بولنے کا ہی کام نہ کریں یہ بوڑھے کچھ کھائیں بھی تاکہ دماغ تو چلے نہ
ظفری نے کہا:اس کو کہتے ہیں آ بیل مجھے مار ۔۔۔
شمشاد بھائی ۔۔۔ میں تو یہ سوچ کر وہ بتیسی لے اُڑا تھا کہ اس پرانی بتیسی کے بدلے محب کو ایک نئی بتیسی دلوادوں کہ وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے حاجی امام دین کی بتیسی استعال کر رہے تھے اور وہ بتیسی بھی حکیم صاحب کو اپنے دادا سے وصیت میں ملی تھی اور اُس بتیسی میں 31 دانت ویسے بھی کم تھے ۔ اُس بتیسی کو استعمال کرنے سے محب کا منہ اور منہ کے گرد کا محل وقوع ایسے لگتا تھا کہ جیسے مٹی کے ٹیلے پر بارش کی وجہ سے دراڑیں پڑ گئیں ہوں ۔
تو پھر میں نے سوچا کہ ایک دوست ہونے کے ناطے کیوں نہ ایک نئی بتیسی خرید لی جائے مگر محب تھے کہ بس ۔۔۔ بضد تھے کہ وہ یہ بتیسی نہیں چھوڑیں گے ۔ کہنے لگے میری منہ دکھائی بھی اسی بتیسی میں ہوئی تھی ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا ۔ دلیے کے علاوہ تو کچھ کھا نہیں سکتے تھے ۔ کبھی کچھ اور خوراک کھانے کی کوشش بھی کی تو وہ منہ سے اس طرح باہر آجاتا تھا جیسے ندی نالوں سے بارش کا پانی ۔
اُس بتیسی میں بات تک تو ہوتی نہیں تھی ، اگر کسی کو “سلام “ کہہ بھی دیا تو پھر بتیسی اُنکے منہ سے ایسے فائر ہوجاتی تھی کہ سامنے والے کے شہید ہونے کے 99 فی صد امکانات روشن ہوجاتے تھے ۔ جب بھی اُس بتیسی کے ساتھ کلام کیا تو منہ سے موسم کی پہلی بارش کا سا سماں بندھ جاتا تھا اور سامنے والے کو چھتری کا سہارا لینا پڑتا تھا۔
بات کرنے سے پہلے اس ایک دانت کی نایاب بتیسی کی وجہ سے وہ کافی دیر تو منہ میں باتیں جمع کرتے تھے اور بات کہنے سے پہلے اُن کے منہ سے ایسی آوازیں خارج ہوتیں تھیں کہ لگتا تھا کہ 1922 کا کوئی پُرانا ریلوے کا انجن اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے ۔ سالگرہ پر اپنے منہ سے پہلے ہی سے برآمد ہونے والی پھونکوں کی وجہ سے کیک پر موم بتیاں جلانے سے بُجھا دیتے تھے ۔ اب میں یہاں کیا کیا بتاؤں ۔
بس اس لیئے وہ بتیسی لے اُڑا کہ اُس کا ہونا نہ ہونا ایک ہی بات تھی اور اُس کا نہ ہونے کا بے شک اُن کو نقصان ہوا ہوگا مگر کتنے اب سکون کا سانس لے رہے ہوں گے ۔
محب علوی نے کہا:قصہ ایک بتیسی کا
ظفری بتیسی تو لے اڑا پر جلدی میں یہ نہ دیکھ سکا کہ بتیسی کونسی پار کر لایا ہے۔ اصل میں محب نے کینیا سے بیش قیمت ہاتھی دانت کے چند نمونے منگوائے تھے اور شہر کے مشہور میوزیم میں اسے پیش کرنا تھا۔ پشکش کا نیا انداز سوچ کر محب نے اسے ایک خوبصورت بتیسی میں سجا دیا تھا ، دور سے دیکھنے پر پوری بتیسی نظر آتی تھی مگر حقیقت میں اس میں صرف ایک دانت تھا اور وہ بھی ہاتھی دانت۔
ظفری نے گھر پہنچ کر جلدی سے پرانی بتیسی کوڑے کے ڈرم میں پھینکی اور چمکتی ہوئی نئی بتیسی منہ میں ٹھونس لی اور شیشہ دیکھے بغیر ہی گلی میں نکل لیے۔ ظفری میاں کے دانت پان سپاری اور تمباکو کے شوق میں عین اخیر شباب میں داغِ مفارقت دے گئے تھے اور یوں منہ سے نکل گئے جیسے بہت بے آبرو ہو کر کوچہ جاناں سے کوئی پرانا عاشق نکلتا ہے۔ ایک مدت تو ظفری میاں نے دھیان ہی نہیں دیا پھر آہستہ آہستی چند خیرخواہوں نے محتاط لفظوں میں کہنا شروع کیا کہ دانتوں سے چہرہ سجتا ہے ، چہرہ بھرا بھرا لگتا ہے ، منہ کی رونق تو دانتوں سے ہی ہے تو ظفری میاں کچھ چونکے پھر اپنی ازلی لاابالی طبعت کی وجہ سے چنداں فکر نہ کی مگر جب گلی کے شریر لونڈوں نے کھسر پھسر کرتے ہوئے ظفری پلپلا کہنا شروع کیا تو پہلی بار ظفری میاں کو معاملے کی شدت کا احساس ہوا۔ گلی کے لونڈوں نے جب دیکھا کہ ظفری میاں کے کانوں کی لویں سرخ ہونی شروع ہوگئی ہیں تو ان کی ہمت اور بڑھ گئی اور وہ ظفری میاں کے گزرنے پر باقاعدہ ظفری پلپلے کی آوازیں کسنا شروع ہوگئے ۔ ظفری میاں نے ایک سستی سی بتیسی خرید کر منہ میں رکھ تو لی مگر ایسی غیر معیاری کے منہ کا پلپلا پن چھپائے نہ چھپتا اور لونڈوں کی گستاخیاں بڑھتی ہی جانے لگی یہاں تک کہ وہ دھول دھپے پر بھی اتر آئے اور گزرتے گزرتے ظفری کے کندھے پر ہاتھ مار کر بے تکلفانہ پوچھتے میاں ظفری پلپلے کیسے ہو؟ ظفری نے پہلے تو اخلاق کے دائرے میں رہ کر سمجھانے کی کوشش کی مگر جب بات نہ بنی تو باقاعدہ کوسنے دینے پر اتر آئے۔ اب لڑکوں کے ہاتھ ایک شغل آگیا وہ آتے جاتے ظفری میاں کو پلپلا کہتے اور ایک آدھ ہاتھ بھی جڑ دیتے ، پھر ظفری میاں پیچھے پیچھے اور لڑکے آگے آگے ہوتے۔
اب جو نئی نویلی اور قیمتی بتیسی ہاتھ لگی تو ظفری میاں کو لگا کہ سب مشکلیں آساں ہوجائیں گی اور گلی کے لونڈوں کو بھی دندان شکن جواب دوں گا جو پرانی بتیسی اور پلپلے پن کا مذاق اڑاتے تھے۔ ایک شانِ بے نیازی سے گھر سے نکلے اور گلی کے لونڈوں سے کہنے لگے کہ پہلے جو ہوا سو ہوا اب سے میں کسی کو کچھ کہتے نہ سنوں ، اب میں نے بہترین اور بیش قیمت بتیسی منگوا لی ہے ، یہ کہہ کر پورا جبڑہ کھول کر بتیسی کی نمائش کی ۔ گلی کے شرارتی لڑکوں کی نظر پڑی تو دنگ ہی رہ گئے اول دانت والی بتسی دیکھ ، ذرا سنبھلے تو ایک منچلے نے پوچھا کہ ظفری میاں جواب نہیں آپ کی نئی بتیسی کا ، اب واقعی کوئی آپ کو ظفری پلپلا نہیں کہہ سکتا کیونکہ اب آپ ظفری پلپلے نہیں بلکہ
ظفری دندان شکن ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہا
سب لڑکوں نے زوردار قہقہہ لگایا اور دوڑ لگادی ۔ ایک دفعہ پھر ظفری میاں پیچھے پپچھے اور لونڈے آگے آگے ، گلی کی نکڑ تک پہنچ کر لونڈے تو نکل لیے اور ظفری میاں کمر پکڑ کر ایک ٹوٹے بینچ پر بیٹھ کر لگے ہانپنے ۔ ایک ہی سانس میں جتنی صلواتیں یاد تھیں سب محب کو دے ڈالیں اور ہزیمت کا بدلہ چکانے کی ترکیب سوچنے لگے۔
شمشاد نے کہا:آخر محب کو حجاب آ ہی گیا اور خود ہی کہہ دیا کہ تینوں بوڑھے (محب، رضوان اور قیصرانی) ادھر ہی بے حجاب ہو گئے۔
میرا خیال ہے بتیسی کو اب رہنے دیں۔
قدرت نے جب محب کو دانت دیئے تھے تو چنے نہیں تھے، اب چنے دیئے ہیں تو دانت غائب، اب وہ ہاتھ دھو کے دوسروں کے دانتوں کے پیچھے پڑے ہوے ہیں۔
محب علوی نے کہا:حجاب آپ کے کتابوں کے مشغلے کا تو پتہ چل گیا مگر یہ نہیں پتہ چلا کہ کونسی کتابیں ،کیا خبر صرف قانونی اور لوگوں کو باہر سے اندر کرنے والی کتابیں ہی پڑھتی ہوں۔ شمشاد سے میں نے پوچھنا تھا مگر انہوں نے پہلے ہی ہاتھ اٹھا دیے لگتا ہے وکیلوں کے ہاتھوں بہت زخم اٹھائے ہیں۔
تراجم میں آپ کی دلچسپی ہے کچھ ، اگر چند اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی دعوت دی جائے تو کیا وعدہ فردا کریں گی یا خاطر شکنی۔