داعش کے دہشت گردوں کے ہاتھوں اللہ کے گھر،صحابہ اکرام ، پیغمبروں اور اولیا اللہ کے مزار بھی محفوظ نہ ہیں۔ اس طرح کے اقدامات غیر اسلامی ہیں۔ قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور ’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے اور جو انتہاپسند عناصر اس کے برعکس عمل کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول سلم ، قرآن مجید اور اسلام کی تعلیمات کی کھلی نفی کررہے ۔اسلام مقدس مقامات کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا، چاہے وہ دیگر مذاہب کے ہی کیوں نہ ہوں۔
الداعش کی ان کارروائیوں کو کسی طور اسلام کی خدمت قرار نہیں دیا جا سکتا، اس کی بجائے اس سے ہمارے مذہب کا تصور داغدار ہو رہاہےاور اس سے امت مسلمہ میں پھوٹ پڑ جائے گی حالانکہ اس وقت اسے اتحاد اور ہم آہنگی کی سخت ضرورت ہے ۔داعش کی کارروائیاں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ الداعش کے اراکین حقیقی مسلمان ہوتے تو وہ مختلف عقائد کے ماننے والوں کا احترام کرتے۔ دوسروں پر مذہبی عقائد زبردستی مسلط کرنے سے لوگ اسلام کے قریب آنے کی بجائے اس سے دور بھاگتے ہیں۔الداعش کا سب سے ہولناک جرم حضرت یونس کے مزار اور شامی شہر الرقہ میں حضرت اویس القرنی رضی اللہ تعالٰی عنہہ کے مزار کو بم دھماکے سے اڑانا ہے۔ اس سے تمام مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے۔