بہت آسان تھا اس کی محبت کو دعا کرنا
بہت مشکل ہے بندے کو مگر اپنا خدا کرنا
کہاں تک کھینچنا دیوار پر سادہ لکیروں کو
تمہاری یاد میں کب تک انھیں بیٹھے گنا کرنا
نجانے کس لیئےسیکھا طریقہ یہ ہوائوں نے
مرےکمرے میں سناٹے زبردستی بھرا کرنا
لہو کی طرح رگ رگ میں جو پیہم درد بہتا ہے
زمیں کی تہہ میں لے جائے تو کیا اس کا گلہ کرنا
محبت کرنے والوں کی کہانی بس یہی تو ہے
کبھی نیناں میں بھر جانا کبھی دل میں رچا کرنا
حقیقی داستانوں کا فسانہ بھی کوئی لکھے
محبت کرنے و الوں کےلئے نیناں دعا کرنا
دشمن جاں کوئی مہمان بناتی ہوں میں
آج فرزانہ کو نادان بناتی ہوں میں
بخش دیتی ہوں مناظر کو رو پہلا ریشم
جسم کو چاندنی کا تھان بناتی ہوں میں
جان رکھ دیتی ہوں طوطے کے بدن میں اپنی
اور طو طے کو بھی بے جان بناتی ہوں میں
رشتہ طے کرتی ہوں گڑیا کا پڑوسن کے گھر
سارا شادی کا بھی سامان بناتی ہوں میں
شام ڈھلنےسےمجھے دیکھ سحر ہونےتک
کیسے امید کو ارمان بناتی ہوں میں
جانےکس دھن میں سجا کر یہ کرن سا پیکر
خود کو آئینے سے انجان بناتی ہوں میں
یہ کسے دل کی سرائے میں بسا کر نیناں
اس کو اپنے لیئے سنسا ن بناتی ہوں میں
خواہشیں ہوش کھوئے جاتی ہیں
درد کے بیچ بوئے جاتی ہیں
انگلیوں سے لہو ٹپکنے لگا
پھر بھی کلیاں پروئے جاتی ہیں
کیسا نشہ ہے سرخ پھولوں میں
تتلیاں ان پہ سوئے جاتی ہیں
کتنی پیا ری ہیں چاندنی راتیں
تم کو دل میں سموئے جاتی ہیں
چوڑیاں بھولے بسرے بچپن کی
کیسی ٹیسیں چبھوئے جاتی ہیں
کچھ بھی اس نے کہا نہیں لیکن
آنکھیں ہر لمحہ روئے جا تی ہیں
وقت رخصت خوشی کی بوندیں کیوں
میرا گھونگھٹ بھگوئے جاتی ہیں
دھوپ سے میں نے بھر دیا آنگن
بارشیں پھر بھی ہوئے جاتی ہیں
میرے نیناں کو حسرتیں میری
آنسوؤں میں ڈبوئے جا تی ہیں
رتجگے کرتی ہوئی پاگل ہوا کچھ ٹہر جا
میں جلا لوں پیار کی مشعل ہوا کچھ ٹہر جا
دستکوں کو ہاتھ تک جانے کا موقعہ دے ذرا
چلمنوں میں جھانکتی بیکل ہوا کچھ ٹہر جا
آرزو کے کچھ ستارے اور ٹانکوں گی ابھی
میرا چھوٹا پڑگیا آنچل ہوا کچھ ٹہر جا
توڑ دیتی ہیں چٹانیں الفتو ں کی نرمیاں
تند خوئی چھوڑ بن کومل ہوا کچھ ٹہر جا
کچےخوابوں کے گھروندوں کو ذرا پکنے تو دے
ہوچکیں اٹھکیلیاں چنچل ہوا کچھ ٹہر جا
پیار کا ساون کبھی برسات سے پہلے بھی لا
دیکھ کتنے پیڑ ہیں گھائل ہوا کچھ ٹہر جا
روٹھے نیناں مان جائیں کچھ جتن اس کا بھی کر
ہلکے ہلکے آ کے پنکھا جھل، ہوا کچھ ٹہر جا
اس کو احساس کی خوشبو سے رہا کرنا تھا
پھول کو شاخ سےکھلتے ہی جدا کرنا تھا
پوچھ بارش سے وہ ہنستے ہوئے روتی کیوں ہے
شامِ گلشن کو نشہ بار ذرا کرنا تھا
تلخ لمحات نہیں دیتے کبھی پیاسوں کو
آسر ا دے کے ہمیں کچھ تو بھلا کرنا تھا
چاند پورا تھا اسے تکتے رہے یوں شب بھر
اپنی یادوں کا ہمیں زخم ہرا کر نا تھا
دونوں سمتوں کو ہی مڑنا تھا مخالف جانب
ساتھ اپنا ہمیں شعروں میں لکھا کرنا تھا
کرب سے آئی ہے نیناں میں یہ نیلاہٹ بھی
ضبطِ غم کا ہمیں کچھ فرض ادا کرنا تھا
تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرے سات ہو
دلنشیں موسم ہے جیسے دھوپ میں برسات ہو
ہے یہی بوندوں کی کوشش میری کھڑکی توڑ دیں
جس طرح ہو درد میرا اور ان کی گھات ہو
کیوں تذبذب میں رہو اپناؤ یا پھر چھوڑدو
کیفیت جیسی بھی ہو آؤ تو اس پر بات ہو
یوں دھندلکے میں ہوا محسوس میرے ہاتھ کو
اتفاقاَ چھو گیا جو وہ تمہارا ہات ہو
پھر سروتے نے سپاری ٹکڑے ٹکڑے کاٹ کر
پان میں رکھ دی ہے جیسے کوئی رسمی بات ہو
جیت سکتی ہوں میں آسانی سے بازی پیار کی
میرے دل کو ضد ہے لیکن ہار جاؤں، مات ہو
دن کے روشن دان سے جھانکے اجالا گرم گرم
تیل بھی کم ہو دیئے میں اور ٹھنڈی رات ہو
کھینچ لاتا ہے کوئی چہرہ بھی نیناں میں دھنک
کیوں مرتب پھر نہ رنگوں کی یہاں بہتات ہو
ہوا کے شور کو رکھنا اسیر جنگل میں
میں سن رہی ہوں قلم کی صریر جنگل میں
ہتھیلیوں پہ ہوا سنسناتی پھرتی ہے
میں اس کی چاہَ کی ڈھونڈوں لکیر جنگل میں
خیال رکھنا ہے پیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہے مجھے جوئے شیر جنگل میں
دیارِ جاں میں پھرے رات دندناتی ہوئے
ادھر ہے قید سحر کا سفیر جنگل میں
عجیب لوگ ہیں دل کے شکار پر نکلے
کمان شہر میں رکھتے ہیں تیر جنگل میں
طلب کےشہر میں تھا جو سدا قیام پذیر
سنا ہے رہتا ہے اب وہ فقیر جنگل میں
کبھی جو چھو کے گزرجائے نرم سا جھونکا
یہ زلف لے کر اڑائے شریر جنگل میں
بڑے سکون سے رہتے ہیں لوگ بستی کی
رکھی ہےدشت میں غیرت ضمیر جنگل میں
ہوا میں آج بھی روتی ہے بانسری نیناں
اداس پھرتی ہے صدیوں سے ہیر جنگل میں
صبح کے روپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
شیشے کی ایک کرن بن کے جگاتی ہوں اسے
بال کھولے ہوئے پھرتی ہوں کسی خواب کےساتھ
شام کو روز ہی روتی ہوں رُلاتی ہوں اسے
یاد میر ی بھی پڑی رہتی ہے تکیے کے تلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے
راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی
چبھ کے کانٹے کی طرح روز ستاتی ہوں اسے
بھولے بسرے کسی لمحے کی مہکتی خوشبو
گوندھ کر اپنے پراندے میں جھلاتی ہوں اسے
روز آجاتی ہوں کمرے میں ہوا کی صورت
کنڈی کھڑکائے بغیر اس سے چراتی ہوں اسے
بد مزاجی تو نہیں ہے یہ محبت میری
روز لڑتی بھی ہوں پھر روز مناتی ہوں اسے
ایک بھیگے ہوئے نیناں کا سمجھ کر موتی
شام کے نیلے دوپٹے میں لگاتی ہوں اسے
تخلیق کا عمل اسے سچی خوشی لگا
عورت کو کرب ذات نئی زندگی لگا
لگتا ہے مجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
جینے کا حوصلہ جو ملا اجنبی لگا
آتی ہوئی رتوں کی اچانک خبر ملی
جب رنگ ڈھالنے کوئی تازہ کلی لگا
سپنے میں کیا لکھا ہے یہ تو نے نگار شب
وہ چاند کی مثال مجھے چاند ہی لگا
اک جھیل میں کنول پہ وہ محو خرام خواب
آنکھوں کے پانیوں کی مجھے شاعری لگا
خوشبو سےجس کی رہتی ہوں سرشار و دم بخود
پیکر مرا اسی کو بہت کامنی لگا
نیناں اڑی جو نیند تو اک جاں فزا خیال
خوشبو لگا ۔۔۔ بہار لگا ۔۔۔ روشنی لگا
ان بادلوں میں روشن چہرہ ٹھہر گیا ہے
میری نظر میں کوئی جلوہ ٹھہر گیا ہے
اشکوں کے پانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹھہر گیا ہے
آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں
پلکوں پہ میری کیسے قطرہ ٹھہر گیا ہے
جس نے مجھے چھوا تھا نشتر تھا وہ ہوا کا
زخم ایک میرے دل میں گہرا ٹھہر گیا ہے
نیلی رتوں میں کوئی آ کر ملا تھا شاید
اک زہر سا رگوں میں جس کا ٹھہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہے د ل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹھہر گیا ہے
گردش رکی ہوئی ہےمیرے لہو کی نیناں
یا وقت کا کہیں پر پہیہ ٹھہر گیا ہے
بے روح لڑکیوں کا ٹھکانہ بنا ہوا
کمرہ ہے میرا آئینہ خانہ بنا ہوا
میں نے تو کوئی بات کسی سے نہیں کہی
سوچا ہے جو وہی ہے فسانہ بنا ہوا
ندیا میں کس نےرکھ دیئےجلتےہوئےچراغ
موسم ہے چشمِ تر کا سہانا بنا ہوا
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہے الجھنوں کا نشانہ بنا ہوا
ممکن ہے مار دے مجھے اس کی کوئی خبر
دشمن ہے جس کا میرا گھرانہ بنا ہوا
بارش کی آگ ہے مرے اند ر لگی ہوئی
بادل ہے آنسوؤں کا بہانہ بنا ہوا
نیناں کئی برس سے ہوا کی ہوں ہم نفس
ہے یہ بدن اُسی کا خزانہ بنا ہوا
خوبصورت جنتوں میں سانپ چھوڑے رات بھر
مسکراتی ساعتوں کے لیکھ پھوڑے رات بھر
شمع کی لو ہے کہ ہے یہ آتشِ ہجراں کی آنچ
ہم پگھلتے جارہے ہیں تھوڑے تھوڑے رات بھر
میں نے دل کی ریت پر اشکوں سےلکھی یہ غزل
اور دریاؤں کے رخ پلکوں سے موڑے رات بھر
ریشمی یادوں کے گچھے کھل رہے ہیں دم بہ دم
بھیگے بھیگے چاند سے موتی نچوڑے رات بھر
دیکھتا رہتا ہے وہ نیناں لئے اب دم بخود
توڑنے والے کے میں نےخواب جوڑے رات بھر
سہیلی خبر کچھ نہیں میں کہاں ہوں
میں ہیرا کہ موتی نہاں ہوں عیاں ہوں
میں نس نس میں ٹکرائی ہوں خواہشوں سے
میں گرتا ہوا ایک خالی مکاں ہوں
ہواؤں میں اُڑتی ہوئی ریت ہے وہ
میں بکھری ہوئی پھول کی پتیاں ہوں
بہت خوبصورت ہوئی میری دنیا
جہاں تم ہو آباد میں بھی وہاں ہوں
اُٹھاتے نہیں اب تو بچے بھی ان کو
میں ساحل پہ بکھری ہوئی سیپیاں ہوں
کھڑی ہوں ابھی تک مقابل ہوا کی
بڑی مضمحل ہوں بڑی سخت جاں ہوں
ستاروں سے آنکھیں بھری جا رہی ہیں
تمہی نے کہا تھا کہ میں کہکشاں ہوں
انگوٹھی مری آپ چلتی ہے نیناں
میں خود سے یہ گڑوی بجاتی کہاں ہوں
بسی ہے یاد کوئی آکے میرےکاجل میں
لپٹ گیا ہے ادھورا خیال آنچل میں
میں ایک سیپ ابھی مجھ کو تہہ میں رہنے دو
گہر بنا نہیں کرتے ہیں ایک دو پل میں
اسی چراغ کی لو سے یہ دل دھڑکتا ہے
جلائے رکھتی ہوں جس کو شبِ مسلسل میں
ٹپک رہے ہیں در و بام سے مرے آنسو
چھپےہوئےتھےابھی تک وہ جیسےبادل میں
میں زندگی کےلیئے پھول چننا چاہتی ہوں
کہیں اداس نہ ہو وہ خزاں زدہ کل میں
خزاں کا دور ہے لیکن کسی کی چاہت سے
دھڑک رہی ہے بہار ایک ایک کونپل میں
جو تتلیوں کی طرح سوگوار ہے نیناں
اکیلی گھومتی ہے زندگی کےجنگل میں
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
کوئی بادل تو برستا رہا مجھ پر لیکن
دل ابھی تک ہےاسی طرح بیاباں نیناں
میری ہر صبح ہوئی ایک مسلسل ماتم
میری ہر شام ہوئی شام غریباں نیناں
اب مسلسل ترے کوچے میں جھڑی رہنی ہے
یاد کے ابر ہوئے ہیں ترے مہماں نیناں
چاند رکھا ہے کہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
رہ گیا یہ مرے گھر میں ترا ساماں نیناں
اپنے چہرے پہ کوئی وصل کا افسوں لکھ لے
حرف جیسے ہوں پرستان کی پریاں نیناں
اپنے چھالوں پہ لگالے کوئی تازہ نشتر
اب تو اس درد کا کرلے کوئی درماں نیناں
کہہ دے پائل کی چھنا چھن سے ذرا تھم جائے
کیونکہ جنگل میں کئی مور ہیں رقصاں نیناں
چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہےجو صدا دیتا ہے، نیناں نیناں
میں چھوٹی سی لڑکی بہت ہی بڑی ہوں
کہ ہر جنگ اپنی ا کیلی لڑی ہوں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے
کہ صدیوں سے ساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
ہوا کے ورق پر لکھی اک غزل تھی
خزاں آئی تو شاخ سے گر پڑی ہوں
ملی ہیں مجھے لحظہ لحظہ کی خبریں
کسی کی کلا ئی کی شاید گھڑی ہوں
ہے لبریز دل انتظاروں سے میرا
میں کتبے کی صورت گلی میں گڑی ہوں
خلا سے مجھے آرہی ہیں صدائیں
مگر میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں
میں اک گوشہء عافیت سے نکل کر
وہ پگلی ہوں دنیا سے پھر لڑ پڑی ہوں
وہ کرتا ہے نیناں میں بسنے کی باتیں
مگر میں تو اپنی ہی ضد میں پڑی ہوں
مسلسل زلزلے ہیں چشم نم میں
قیامت کروٹیں لیتی ہے غم میں
عقیدوں کے پہن کر پاک چھلے
بھٹکتی پھر رہی ہوں میں حرم میں
سفر تھوڑا بھی ہم طےکر نہ پائے
ذرا سا فاصلہ تھا تم میں ہم میں
مرےگھر سے تری دہلیز تک تو
بجی تھیں پائلیں ہر ہر قدم میں
ابھی تک یاد ہے اس کی وجاہت
ملا تھا جو مجھے پچھلے جنم میں
ٹھٹھک جاتی ہوں اکثر لکھتے لکھتی
ابھر آتے ہیں دو نینا ں قلم میں
روشنی سے شبیں چراتی ہوں
روز دکھ کے دئیے جلاتی ہوں
چاند چاہت کے لکھتی رہتی ہوں
خواہشیں لفظ سے بناتی ہوں
پاؤں،دھرتی سےکھینچ لیتی ہوں
تارے آکاش سے بلاتی ہوں
عشق ہے شکوہ سنج ویسے بھی
میں کہاں تم کو آزماتی ہوں
پاگلوں کی طرح نہیں روتی
کھل کےآنسو مگر بہاتی ہوں
بات رہ جاتی ہے ادھوری سی
اس کےلہجے میں ڈوب جاتی ہوں
دھیرے دھیرے اترتی ہیں یادیں
دھیرے دھیرے مکاں سجاتی ہوں
گہری گہری سی کالی آ نکھوں میں
اجلے سپنوں کو میں چھپاتی ہوں
جاگنے والے چاند کو نیناں
دور سے لوریاں سناتی ہوں
کوئی سرگوشیوں سے کیوں بولے
میری خاموشیوں سے کیوں بولے
میں خزاں رنگ ہوں ہمیشہ سے
جسم خوش پوشیوں سے کیوں بولے
در و دیوار تم بھی چپ رہتے
مصلحت کوشیوں سےکیوں بولے
سب کو یہ فکر ہے سرِ محفل
دل طرب جوشیوں سےکیوں بولے
سونا اپنی جگہ پہ سونا ہے
کھوٹ،زر پوشیوں سےکیوں بولے
ہے یہ بہتر حواس کھو جائیں
نیناں مدہوشیوں سے کیوں بولے
چٹانوں سے وہ ٹکر ا کر گری ہے آبشاروں میں
رہی ندیا مگر قیدی ہمیشہ دو کناروں میں
کھلی ہے کاغذی پھولوں کی شادابی درختوں پر
چھپی ہےمیرے اندر کی خزاں فرضی بہاروں میں
کہیں بھیگے ہوئے جھونکے کلی کو چوم جاتے ہیں
کہیں بپھری ہوئی پاگل ہوا ہے آبشاروں میں
کبھی ہم نیل کے پانی میں اس انداز سے ڈولیں
کہ اپنی داستاں لکھ دیں اُسی دجلہ کے دھاروں میں
مجھے قوموں کی ہجرت کیوں تعجب خیز لگتی ہے
یہ کونجیں کس قدر لمبے سفر کرتی ہیں ڈاروں میں
مری چشم تمنا میں تری صورت اتر آئی
دکھائی دے رہا ہے چاند اشکوں کے ستاروں میں
حویلی کا سماں وہ ہے نہ وہ پہلی کہانی ہے
نہ دلہن پر وہ جوبن ہے نہ جھلمل ہے غراروں میں
مجھے بھیگی سڑک پر چلتے چلتے یونہی یاد آیا
یہ بوندیں سنسنائی تھیں کبھی خوابی نظاروں میں
بدن کی پالکی کبتک اٹھائیں گےمرے کاندھے
اٹھےگا بوجھ یہ اک دن کبھی بٹ کر کہاروں میں
بلا کی چاندنی بکھری ہوئی ہے ہر طرف نیناں
سہیلی چل بِرہ کےگیت گائیں سبزہ زاروں میں