درد کی نیلی رگیں - فرزانہ نیناں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
ٹوٹے پر چڑیاں

درختوں سے ہرے پتے
ہوا کیوں نوچ لیتی ہے۔۔۔!
وہ ان چڑیو ں کے ٹوٹے پَر
کہاں پر بیچ دیتی ہے۔۔۔!
انھیں جو مول کوئی لے
دکھوں سے تول کوئی لے
اگر دل میں یہ چبھ جائیں۔۔۔
تو گہرے نقش کھب جائیں
اگر ہم وقت سے چھپ کر
کہیں بے وقت ہو جائیں
اور ان چڑیوں کی صورت ۔۔۔
وقعت اپنی ہم بھی کھو جائیں
تو کیا پھر بھی
لگا تار ایسے سناٹوں کی گہری دھول
یہاں اُڑ اُڑ کر آئے گی!
تو کیا پھر سوکھی سوکھی ٹہنیوں کی کوکھ میں
غمناک سانسوں کو
وہی بپتا سنائے گی!
ہرے پتوں کی ہر کونپل
جو اپنی خشک آنکھوں میں
نمی کے پھول چنتی ہے
ٹپک کر بوند کی مانند
رشتے توڑ جائے گی!
ہم اپنی سسکیاں چل کر
کسی خندق کی گہرائی میں
جاکر دفن کر آئیں!
ہوا کے تیز ناخن بھی تراش آئیں
تو پھر ان ٹوٹے پَر چڑیوں کو بھی
پرواز آئے گی
ہماری بےصدا باتوں میں بھی
آواز آئےگی ۔ ۔ ۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
کب تم مجھ کو یاد کروگے؟

وقت کے الجھے الجھے دھاگے
جب دل توڑ کے چل دیں گے
پگڈنڈی پر پیلے پتے تم کو تنہا دیکھیں گے
پیڑوں کےسینے پر لکھے
نام بھی ہوجائیں تحلیل
اور ہوا بھی سمت کو اپنی کر جائے تبدیل
بھینی بھینی خوشبو ہم کو
ہر اک گام پکارے گی
کر کے یخ بستہ جب ہم کو
برف اس پار سدھارے گی
دھوپ صداؤں کے سکے
جب کانوں میں کھنکائے گی
گرجا گھر کی اونچی برجی
چاند کا چہرہ چومے گی
بارش، مسکانوں کے موتی
پتھر پر جب پھوڑے گی
اور برستی بوندوں کے
دھاروں پر دھارے جوڑے گی
گرم گرم، انگاروں جیسے
آنسو آنکھ سے ابلیں گے
دل کے ارماں
اک مدت کےبعد تڑپ کر نکلیں گے
جب احساس کی دنیا میں پھر
اور نہ گھنگھرو چھنکیں گے
صرف خموشی گونجے گی تب
آنے والے موسم کی
کھڑکی پر دستک بھی نہ ہوگی
کوئی سریلی رم جھم کی
شام کے سناٹے میں بدن پر
کوٹ تمہارا جھولے گا
یادوں کا لمس ٹٹولے گا
گھور اداسی چھولے گا
اونچی اونچی باتوں سے تم
خاموشی میں شور کروگے
گیت پرانےسن کر
ٹھنڈی سانسیں بھر کر
بھور کروگے
اس پل شب کی تنہائی میں
اپنے دل کو شاد کروگے
بولو ۔ ۔ ۔ مجھ کو یاد کروگے ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
 

قیصرانی

لائبریرین
فقط اک پھول

پرندے لوٹتے دیکھے
تو یہ دھوکا ہوا مجھ کو
کہ شاید جستجو میری
یا کوئی آرزو میری
ترے در سے پلٹ آئی
مجھے تنہا بیاباں سے گزرتے لگ رہا ہے ڈر
جدائی کے شجر کی اب حفاظت
بس سے باہر ہے
یہ پانی آنکھ سے گرتا
اگر سیلاب ہو جائے
یہ پیلی دھوپ، مہکی رُت
سراب و خواب ہوجائے
تو پھر اس تشنہ روش میں
پھوٹتی کلیوں کے سب نغمے
سنانے کو ترستی خواہشیں
ناکام ٹہریں گی
مثالِ رفتگاں، جاتے ہوئے مہکے ہوئے لمحے
خزاں کے زرد پتوں کے لئے ہی قرض لے آؤ
مسلسل جو اُداسی پر اداسی
یوں برستی ہے
کہیں مرجھا نہ دے
سرسبز اس شاخِ محبت کو
تعلق کی بھی میری جان
اک میعاد ہوتی ہے
پھر اس کے بعد ۔ ۔ ۔
ہر بندھن سے جان آزاد ہوتی ہے
خزاں کی جیت سے پہلے
ذرا یہ دھیان کرلینا
کہ سینے میں، مرا دل ہے
فقط اِک پھول ۔ ۔ ۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
تمہاری یاد

سونی سونی
خالی خالی
اک سرمئی حویلی میں
راگ۔ ۔ ۔
ستار نے چھیڑا ہے
اک جلتی مشعل لے کر
شب ۔ ۔ ۔ ملنےکو آئی ہے
فانوسوں کی چھن چھن ،چھن میں
جھلمل جھلمل چاندنی پر
رقص ہوا کا جاری ہے
سوکھی چنبیلی کی اک بیل
خستہ ستون سے لپٹی ہے
اور تھرکتی لَو کا رنگ
لےکر لاکھوں ننھے دیپ
دل کے طاق پہ
جل اُٹھے ہیں
آئی جیسے ۔ ۔ ۔
تمہاری یاد ۔ ۔ ۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
پہلی خوشی

میلہ ہے بستی میں دو دن
رات بھی ناچے جھومے دن
جھولے والے دور دور سے لائے ہیں تہوار
کھٹ مٹھےجذبوں سے مہکا مہکا ہے بازار
شیشے کے صندوق میں
چوڑی والا خواب سجا کر لایا
اپنی چونچ میں اک طوطے نے
جانے کس کا حال دبایا
رس گنے کا ٹپ ٹپ کر کے
رستا جائے مشینوں سے
اونٹوں کے کوہانوں پر
موتی کی جھالر ٹنکی ہوئی
سبک قدم میلے کی جانب
ٹھمک ٹھمک کر چلتے ہیں
دودھیا ناریل جیسا چاند
اترے گا میدان میں آج
آوازوں کی بین پہ جوگن
ناچ ناچ کے ہوگی ماند
اب کے برس بھی
ململ کا یہ لہراتا دھانی آنچل
اُڑتا ہے مجھ سے بھی تیز
آج کناروں میں اس کے
اک ریشم جیسی پھسلن ہے
لہراتا سُر ۔ ۔ ۔
پگڈنڈی پر کس تیزی سے دوڑا ہے
جیسے ملنے آئے گی
پھر مجھ سے وہ
پہلی خوشی ۔ ۔ ۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
سوندھی خوشبو

سوندھی مٹی کی یہ صراحی
قطرہ قطرہ گونج رہی ہے
بھیگی بھیگی شبنم کی
رم جھم کرتی جھنکاروں سے
جب بھی کوئی پیاس بجھانے
اوک میں پانی بھرتا ہے
جانے کیسے چوری چوری
پار، سمندر کرتا ہے
سوندھی سوندھی خوشبو
اس کی روح کے پار اُترتی ہے
دور۔ ۔ ۔ بہت ہی دور
جزیروں میں جو تارے گرتے ہیں
ان کی یاد میں پگڈنڈی پر
سبک روی سے چلتی ہے
دھوپ چھاؤں میں سال، مہینے
پنچھی بن کر اُڑتے ہیں
آنکھ، پرونے لگتی ہے
کچھ نتھرے لمحے صراحی سے
پینے والے میں تتلی کے پَر
خود سے اُگ آتے ہیں
نیلے پانی کی ٹھنڈک سے
آنکھیں مندنے لگتی ہیں
دل کہتا ہے
قطروں کی ان لاوارث آوازوں کو
کانچ کے دریا کی تہہ میں
اک ڈوبنے والی کشتی پر
پھر سے بٹھا کر دور
اُسی ساحل تک جاکر پہنچائیں
جس کی ریت کی سوندھی خوشبو
سب کو پاگل کرتی ہے ۔ ۔ ۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
کبھی تم بھی

کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا
رہا دل کہاں ،کبھی کھوجنا
کبھی اُڑتے پنچھی دبوچنا
کبھی خود کھرنڈ کو نوچنا
کبھی جب شفق میں ہنسی کھلے
کسی نین جھیل میں خوں ملے
تو اداس چاند کو دیکھنا
کوئی رخ اکیلے ہی ڈھونڈنا
یہ رُتیں جو دھیرے سے چھوتی ہیں
ہمیں خوشبوؤں سے بھگوتی ہیں
یہ رُتیں نہ پھر کبھی آئیں گی
یہ جو روٹھ روٹھ کے جائیں گی
یہ رُتیں انوکھا سرور ہیں
کہ یہ پاس ہو کے بھی دور ہیں
انھیں تم دُعاؤں میں ڈھلنے دو
انہیں آسمان کو چلنے دو
سنو ہوک جب کسی کونج میں
اِنھیں سرد ہواؤں کی گونج میں
تو اداس چاند کو دیکھنا
کبھی تم بھی ۔ ۔ ۔
ہم کو ہی سوچنا ۔ ۔ ۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
تنہائیوں‌کی دھوپ

مجھے تنہائیوں کی دھوپ میں چلنے کی عادت ہے
کوئی بھی کیفیت دل میں زیادہ دیر کب اتری
وہی تو جانتا ہے
منتظر تھی کب سے میں اس کی
سوالِ خامشی کے گرم میلوں کی دوپہروں میں
وہ آنکھیں جانتی ہیں
دیر تک اس بند مٹھی میں
میں اس بہتے ہوئے پانی کو
روکے رہ نہیں سکتی
خراشیں دُکھ رہی ہیں
پانی پڑتے ہی جلن کچھ اور بھی ہوگی
جنوں کے حرف یکدم آنسوؤں کا اوڑھ کر چہرہ
ٹپک کر چیختی چنگھاڑتی لہریں بہاتے ہیں
خدا جانے میں اپنی دھوپ کی پگڈنڈیوں کے موڑ
اندھیروں کے تعاقب میں کیوں ایسے دوڑ کر اتری
کہ ٹھاٹھیں مارتا پانی
مری آنکھوں کی ساری سرخ اینٹیں توڑ کر نکلا
یہ آنکھیں جانتی تھیں پانی پڑتے ہی
جلن، کچھ اور بھی ہوگی
وہی یہ جانتا تھا
منتظر اس کی تھی میں کب سے
وہی اک پیاس تھی
جو خشک ہونٹوں پر بنی سسکی
اسی پانی کی
اس کو بھی بہت دن سے ضرورت تھی
کسی سائے بنا اس نے کبھی
چلنا نہیں سیکھا
کسی بھیگی اداسی کا بھی کوئی
پل نہیں چکھا
سو میں نے بخش دی وہ بھی
جو گھر میں ٹین کی چھت تھی
مجھے تنہائیوں کی دھوپ میں
جلنےکی عادت تھی
مجھے تنہائیوں کی دھوپ میں
چلنے کی عادت ہے ۔ ۔ ۔ !!
 

قیصرانی

لائبریرین
ناریل کا پیڑ

ساحل کے پاس تنہا
اک پیڑ ناریل کا
اک خواب ڈھونڈھتا ہے
یادوں میں بھیگا بھیگا
آنچل سے نیلے تن میں
آکاش جیسے پیاسے
سیپوں کے ٹوٹے پھوٹے
خالی پڑے ہیں کاسے
وہ ریت بھی نہیں ہے
جس پر لکھا تھا تم نے
ساگر سکوت میں ہے
لہریں بھی سو رہی ہیں
اک قاش بے دلی سے
بس چاند کی پڑی ہے
کومل سی یاد کوئی
تنہا جہاں کھڑی ہے
اُس ناریل کے نیچے ۔ ۔ ۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
ماں

بڑا محروم موسم ہے
تمہاری یاد کا اے ماں
نجانےکس نگر کو چھوڑ کر
چل دی ہو مجھ کو ماں!
شفق چہروں میں اکثر ڈھونڈتی رہتی ہوں
میں تم کو
کسی کا ہاتھ سر پہ ہو
تو لگتا ہے تم آئی ہو
کوئی تو ہو
جو پوچھے
کیوں ترے اندر اداسی ہے
مرے دل کے گھروندے کی صراحی
کتنی پیاسی ہے
مجھے جادوئی لگتی ہیں
تمہاری قربتیں اب تو
مری یادوں میں رہتی ہیں
تمہاری شفقتیں اب تو
کبھی لگتا ہے
خوشبو کی طرح مجھ سے لپٹتی ہو
کبھی لگتا ہے یوں
ماتھے پہ بوسے ثبت کر تی ہو
کوئی لہجہ، ترے جیسا
مرے من میں اتر جائے
کوئی آواز ۔ ۔ ۔
میری تشنگی کی گود بھر جائے
کوئی ایسے دعائیں دے
کہ جیسے تان لہرائے
کسی کی آنکھ میں
آنسو لرزتے ہوں مری خاطر
مجھے پردیس بھی بھیجے
لڑے بھی وہ مری خاطر
مگر جب لوٹتی ہوں
ساری یادیں لے کے آنچل میں
تو سایہ تک نہیں ملتا
کسی گنجان بادل میں
کوئی لوری نہیں سنتی ہوں میں
اب دل کی ہلچل میں
تمہاری فرقتوں کا درد
بھر لیتی ہوں کاجل میں
کہیں سے بھی دعاؤں کی
نہیں آتی مجھےخوشبو
مری خاطر کسی کی آنکھ میں
اترے نہیں آنسو
محبت پاش نظروں سے
مجھے تم بھی تکا کرتیں
مدرز ڈے پر کسی تحفے کی
مجھ سے آرزو کرتیں
سجا کر طشت میں چاندی کے
تم کو ناشتہ دیتی
بہت سے پھول گلدا نوں میں
لا کر میں سجا دیتی
کوئی موہوم سا بھی سلسلہ
باقی کہاں باہم
کہ اب برسیں مرے نیناں
تمہاری دید کو چھم چھم
دلاؤں ایک ٹوٹے دل سے
چاہت کا یقیں کیسے!
مری ماں ۔ ۔ ۔ آسمانوں سے تجھے
لاؤں یہاں کیسے!
نجانےکون سی دنیا میں جا کے
بس گئی ہو ماں
بڑا محروم موسم ہے
تمہاری یاد کا ۔ ۔ ۔ اےماں ۔ ۔ ۔ !!!

اختتام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top