ستارہ ایک چلو آسماں سے ٹوٹ گیا
پیالہ حادثہء ناگہاں سے ٹوٹ گیا
سفر کی آخری منزل پہ جانے والےگئے
چلا تھا ساتھ کہاں پر کہاں سےٹوٹ گیا
سمجھ میں کیوں نہیں آتا یہ کیا معمہ ہے
یقیں کا رشتہ اچانک گماں سے ٹوٹ گیا
جو دل کے غار میں تعویذ لکھ کے رکھتا تھا
اُسی کا رابطہ تسبیح خواں سے ٹوٹ گیا
رہیں گی تم سے خیالات میں ملاقاتیں
بحال سلسلہ ہوگا جہاں سے ٹوٹ گیا
میں تم سےکہہ نہیں پائی تھی ماجرا دل کا
کہ واسطہ ہی مکیں کا مکاں سے ٹوٹ گیا
خزاں کے آنے سے پہلے یہ کیا ہوا نیناں
ہزار رشتہء گل گلستاں سے ٹوٹ گیا
جسے ڈبو کے گیا تھا حباب پانی میں
لہر وہ کھاتی رہی پیچ و تاب پانی میں
کبھی تو تارِ رگِ جاں بھی چھیڑ کر دیکھو
بجانے جاتے ہو اکثر رباب پانی میں
تری نگاہ بہت ہے مرے لئے ساقی
نہ گھول مجھ کو بنا کر شراب پانی میں
خبر چھپی ہے جو لڑکی کی وہ نئی تو نہیں
اُتر گئی تھی جو ہو کر خراب پانی میں
پھر اپنی آگ بجھانے کوئی کہاں جائے
لگائے آگ اگر ماہتاب پانی میں
گہر ہمارے بھی نیناں کے دیکھ لو آکر
تما م سیپ نہیں لا جواب پانی میں
مرجھائے ہوئے جسم سجا کیوں نہیں دیتے
سورج سے بچانےکی ردا کیوں نہیں دیتے
کَن اکھیوں سےدیکھوگے فضاؤں میں کہاں تک
تم سوکھی زمینوں کو د عا کیوں نہیں دیتے
کٹیا میں پلٹ آئے گی سنیاس اٹھائے
تم اپنی پجارن کو پتا کیوں نہیں دیتے
ویران روش کو بھی سجاوٹ کی طلب ہے
تم شاخ گلابوں کی لگا کیوں نہیں دیتے
لہروں میں کو ئی شور نہ گرداب میں گرمی
سوئی ہوئی ندی کو جگا کیوں نہیں دیتے
جب رنگ اٹھالے تو برش روک نہ پائے
فنکار کو وہ شکل دکھا کیوں نہیں دیتے
رات بھر دیکھے پہاڑوں پہ برستے موسم
لالہ رُو بھیگے کناروں پہ سلگتے موسم
رات کے خالی کٹورے کو لبا لب کرکے
کس قدرخوشبو چھڑ کتے ہیں بہکتے موسم
شام ہوتی ہے تو پھر گیت جگا دیتے ہیں
پائلوں میں کسی گھنگھرو کے کھنکتے موسم
شوخ بوندوں کی طرح جا کے اٹک جاتے ہیں
جسم کی کوری صراحی پہ چمکتے موسم
کیا پتہ کب یہ کسی شاخ کو بنجر کردیں
نرم مٹی کو سکھا کر یہ سسکتے موسم
زرد پتوں میں کسی یاد کےجامن کے تلے
کھیلتے رہتے ہیں بچپن کےچہکتے موسم
باندھ کے پر کہیں لےجائیں گے مجھ کو نیناں
خواب میں اُڑتے پرندوں سےگزرتے موسم
اداسیوں کےعذابوں سے پیار رکھتی ہوں
نفس نفس میں شبِ انتظار رکھتی ہوں
یہ دیکھ کتنی منور ہے میری تنہائی
چراغ، بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں
نہ چاند ہے نہ ستارہ نہ کوئی جگنو ہے
نصیب میں کئی شب ہائےتار رکھتی ہوں
کہاں سے آئےگا نیلے سمندروں کا نشہ
میں اپنی آنکھ میں غم کا خمار رکھتی ہوں
مثالِ برق چمکتی ہوں بے قراری میں
میں روشنی کی لپک بر قرار رکھتی ہوں
جلی ہوئی سہی دشتِ فراق میں لیکن
کسی کی یاد سے دل پُر بہار رکھتی ہوں
دل سےمت روٹھ مرے دیکھ منالے اس کو
کھو نہ جائے کہیں سینے سے لگا لے اس کو
وہ مسافر اسے منزل کی طرف جانا تھا
اس لئے کردیا رستے کے حوالے اس کو
مدتوں وجد میں رہتے ہوئے دیوانے کو
ہوش آیا ہے تو ہر بات سنالے اس کو
کس لئے اب شبِ تاریک سے گھبراتی ہوں
خود ہی جب بخش دیئے سارے اجالے اس کو
کچھ ضروری تو نہیں آپ کو سب کچھ مل جائے
جو ملے کیجئے دامن کے حوالے اس کو
نیلگوں جھیل میں ہے چاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئے سنبھالے اس کو
اپنے بے سمت بھٹکتے ہوئے نیناں کی قسم
کتنے خوش بخت ہیں سب دیکھنے والے اس کو
اب کے ٹس سے مس نہیں ہونا ہوا کے زور پر
بے دھڑک لکھے وہ ان پتوں پہ رائے بے حساب
نیلمیں نیناں میں جلتے بجھتے ہیں نیلے چراغ
خالی کمرے میں چلے آتے ہیں سائے بے حساب
آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سےچھپ کرتکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہے جیتا
روز کا ہی معمول ہے یہ تو
کل بھی بیتا آج بھی بیتا
درد بھی ویسا ہی بلکل ہے
تھوڑا تھوڑا ، میٹھا میٹھا
چولھا، چوکا، جھاڑو، پونچھا
سب کچھ کر بیٹھی تب سوچا
ہر شے پونچھ کے جھاڑ کے دیکھا
جانےکہاں پہ دل ہے رکھا ۔۔۔!!!
کڑی دھوپ میں چلتےچلتے
سایہ اگر مل جائے ۔۔۔ تو !
اک قطرےکو ترستےترستے
پیاس، اگر بجھ جائے ۔۔۔ تو !
برسوں سے خواہش کےجزیرے
ویراں ویراں اُجڑے ہوں
اور سپنوں کےڈھیر سجا کر
کوئی اگر رکھ جائے ۔۔۔ تو !
بادل ،شکل بنائیں جب
نیل آکاش پہ رنگوں کی
اُن رنگوں میں اس کا چہرہ
آکے اگر رُک جائے ۔۔۔۔ تو !
خاموشی ہی خاموشی ہو
دل کی گہری پاتالوں میں
کچھ نہیں کہتے کہتے گر
کوئی سب کہہ جائے ۔۔۔ تو !
زندہ رہنا سیکھ لیا ہو
سارے دکھوں سے ہار کے جب
بیتے سپنے پا کےخوشی سے
کوئی اگر ۔۔۔ مرجائے ۔ ۔ ۔ تو ۔۔۔ !!!
بڑی بڑی دو سیاہ آنکھیں
تمہارے چہرے میں کھوگئی ہیں
تمہاری آواز چلتے چلتے
یہ چاہتی ہیں کہ اب عبادت
صبح ہو یا شام ہو مگر ہو
تمہارا چہرہ ۔۔۔ تمہارا چہرہ
جو نیلگوں لہر میں ڈبودے
مجھے ڈبو دے، مجھے ڈبو دے
مرے بدن کے تمام کانٹے چنے
اور اپنے بھی پاؤں رکھ دے
وفا کے ٹھنڈے سے پانیوں میں
محبتوں کی روانیوں میں
بڑی بڑی دو سیاہ آنکھیں
تمہارےچہرے میں کھو گئی ہیں ۔۔۔ !!!
اپنا رستہ ڈھونڈنا اکثر
اتنا سہل نہیں ہوتا ہے
لوگوں کے اس جنگل میں
چلنا سہل نہیں ہوتا ہے
یہ تو کوئی جگنو ہے جو
لے کر روشن سی قندیل
کبھی کبھی
یوں راہ بنائے
جیسے ہو دریائےنیل ۔۔۔۔ !!!
سپنے بنتے نیناں پر
ہونٹ جب اپنے رکھ دوگے
دھیرے دھیرے سرگوشی میں
کانوں سے کچھ کہدوگے
اور میں۔۔۔
آنکھیں موندے موندے
کروٹ اپنی بد لوں گی
گہری نیند کو شوخ ادا سے
چپکے چپکے کھولوں گی
آنچل میں چہرے کو چھپا کر
کَن اَکھیوں سے دیکھوں گی
چاند کی چوڑی سے کرنیں
چھن چھن،چھن چھن ٹوٹیں گی
جھیل سی ٹھہری دھڑکن اُس دَم
دھک دھک ،دھک دھک بولے گی
اور تم بھی۔ ۔ ۔
دھیرے سے ہنس کر
مجھ کو کہدوگے
پگلی ۔ ۔ ۔ !!!
نیلگوں فضاؤں میں
شور ہے بپا دل میں
شدتوں کے موسم کی
چاہتیں سوا دل میں
حبس ہے بھرا دل میں
میں اداس گلیوں کی
اک اداس باسی ہوں
بادلوں کے پردے سے
واہموں کو ڈھکتی ہوں
خوشبوئیں گلابوں کے جسم سے نکلتی ہیں
روشنی کی امیدیں کونپلوں پہ چلتی ہیں
پھر بہار آنے سے پہلے ٹوٹ جاتی ہیں
چوڑیاں بھی ہاتھوں میں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں
جسم کے شگوفوں میں رنگ چھوڑ جاتی ہیں
بس سنہرے لہجےکی
روشنی ہے لو جیسی
ہونٹ سے پرے دل میں
کام کی دعا ایسی
کس کو یہ خبر لیکن
اِس سنہرے لہجے میں
کھارے کھارے پانی سا
بدگمانیوں سے پُر
زہر،ایسا گھل جائے
جس سے ایک دم سارا
سنہرا لہجہ۔ ۔ ۔
دھل جائے ۔ ۔ ۔ !!!!
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنے پیکر کی سبز رت پر
بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سے تاریک خواب بنتی
تو میں اذیت کی ملگجی
انگنت اداسی کے رنگ چنتی
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
میں اپنے پلو میں سوگ باندھے
کسی کو ان کا پتہ نہ دیتی
اجالے کو ٹھوکروں میں رکھتی
خموشیوں کے ببول چنتی
سماعتوں کے تمام افسون
پاش کرتی۔ ۔ ۔
میں کچھ نہ سنتی
دہکتی کرنوں کا جھرنا ہوتی
سفر کے ہر ایک مرحلے پر
میں رہزنوں کی طرح مکرتی
وہم اگاتی،گمان رکھتی
تمہاری ساری وجاہتوں کو
میں سو طرح پارہ پارہ کرتی
نہ تم کو یوں آئینہ بناتی
اگر ۔ ۔ ۔ میں پتھر کی لڑکی ہوتی۔۔۔!!!
چاندنی کے ہالے میں
کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کے یوں اداسی میں
کس کو سوچتی ہو تم
بار بار چوڑی کے
سُر کسے سناتی ہو
شور سے صدا کس کی
توڑ توڑ لاتی ہو
بزم میں بہاروں کی
کھوئی کھوئی لگتی ہو
دوستوں کے مجمع میں
کیوں اکیلی رہتی ہو
موج موج بہتی ہو
آنسوؤں میں رہتی ہو
جھالروں سے پلکوں کی
ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہو
بلبلے کی صورت میں
پھوٹ پھوٹ جاتی ہو
دھند سے لپٹ کر کیوں
سونی راہ تکتی ہو
کھڑکیوں سے برکھا کو
دیکھ کر بلکتی ہو
سارے سپنے آنکھوں سے
ایک بار بہنے دو
رات کی ابھاگن کو
تارہ تارہ گہنے دو
ماضی، حال، مستقبل
کچھ تو کورا رہنے دو
پُل کے نیچے بہنے دو
آنسوؤں کی یہ ندیاں
وقت چلتا جائے گا
بیت جائیں گی صدیاں
بےحسوں کی بستی میں
بےحسی کو رہنے دو
دل تو پورا پاگل ہے
اس کو پورا رہنے دو
یہ جو کہتا رہتا ہے
اس کو بھی وہ کہنے دو
اس کو کورا رہنے دو
تم یہ کورا رہنے دو ۔ ۔ ۔!!!
کل ملبوس نکالا اپنا
ہلکا کاسنی رنگت کا
دھڑ سے کھول کے دل کے پٹ کو
خوشبو سن سن کرتی آئی
جیسے نیل کنارے پر
لہراتا اک چنچل آنچل
جیسے سرد اماوس میں
کُرتا جھلمل تاروں کا
جیسے سرخ گلابوں کی
رم جھم کے پھندنے کلیاں
جیسے رات کی رانی
بن کے جھالر سر سر کرتی ہو
جیسے چمبیلی چمپا کے
گہنے ہاتھوں سے لپٹیں
جیسے سبزے پر مخمل کی
گرگابی کے نگ دمکیَں
جیسے بوگن ویلیا کے سب
گرتے ہوئے گھنگھرو چھنکیں
جیسے ہار سنگھار کا ریشم
نارنجی چہرے کو پونچھے
جیسے بنفشے کی مسکانیں
درد اُدھیڑیں سیون سیون
جیسے سدا بہار کے چھلے
پہنے کوئی انگلی میں
جیسے نرگس نیلے پیلے
ڈورے ڈالے نیناں میں
لیکن رجنی گندھا کی
سوکھی سوکھی شاخ پہ اٹکی
ایک کلی نے یاد مجھے
وہ سوندھی سی پہنائی ہے
جس کی قبر کو
گیندے کی چادر سے
ہم نے ڈھانپا تھا ۔ ۔ ۔ !!!
سنہرے بالوں کی نرم خوشبو
جو شبنمی موتیوں سے میں نے
سلگ سلگ کر اتار دی ہے
اداسیوں کے چمکتے جھمکوں کی آب کتنی سنوار دی ہے
جلا کے کندن کا ہار کی ہے
میں شوخ گردن کے گرد اب تک
تمھارا ریشم سا لمس لے کر
ہزاروں گرہیں بنا رہی ہوں
نجانے کب سے بلا رہی ہوں
بہت ہی وہمی
بہت ہی سہمی
مجھے گہر ساز توڑ دےگا
سوال یہ سرسرا رہا ہے!
اور ایسا اک دن اگر ہوا تو
تمہاری مندری کے تن کا ہیرا
تمہاری سونا تو چاٹ لے گی۔ ۔ ۔ !!!
بہت گہرا کنواں ہے
اور۔ ۔ ۔ زنگ آلود میرا ڈول
بہت محتاط ہو کر
تہہ میں اس کو میں نے ڈالا تھا
مگر میں کیا بتاؤں۔ ۔ ۔
اب کی بار اس نے بھرا ہے کیا
بہت سے گرم گرم آنسو
بہت ہی خشک خشک آہیں
نہایت اَن چھوئی خواہش
بہشتی منظروں کے خواب
کسی کی مسکراہٹ
کھوکھلی سی
پھیکی پھیکی سی
کسی کے مطلبی حیلے
سلگتے زخم کے ٹیلے
چبھن کی کرچیاں
اُجڑی ہوئی کچھ بستیاں بے آب
وہ نیلے اور زہریلے
دہکتے درد کی ٹیسیں
کئی سوکھے ہوئے تالاب
وہاں شاید ہے اک صحرا
جہاں اگتا نہیں جنگل
وہیں ہم پھینک آتے ہیں
اٹھا کر اپنی ہر مشکل
نہیں فرصت کہ یہ سوچیں
کبھی تھک ہار کر ہی
پیاس کی شدت مٹانے کو
کوئی ٹوٹے ہوئے پتوں کی مانند
اڑ کے آ جائے
یہ بنجر پن کہیں اس کی
لگن کو توڑ نہ جائے
وہ شاید چاند کے سائے کے پیچھے
پھر نہ جائے گا
کسی آہٹ میں پائے گا
ستاروں سی کوئی جھلمل
بغیر انجام کی منزل۔ ۔ ۔ !!!
ندی کنارے خواب پڑا تھا
ٹوٹا پھوٹا، بےسد ھ ‘ بیکل
لہریں مچل کر اس کو تکتیں
سانجھ سویرے آ کر پل پل
سیپی چنتے چنتے میں بھی
جانے کیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہوا کہ اُس میں
روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ کو میرے اس کی حرارت
دھیرے دھیرے تاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اُٹھایا
اک اوندھی کشتی کےنیچے
تھوڑا سا رکھا تھا سایہ
نرم سی گیلی ریت کا میں نے
بستر ایک بچھایا
سانس دیا ہونٹوں سے اس کو
تب کچھ ہوش میں آیا
پھر اکھڑے اکھڑے جملوں میں
اس نے یہ بتلایا
پھینک گئے ہیں اس کو اپنے،
سنگی ساتھی بھائی
سن کر اس کی پوری کہانی
دیر تک مجھ کو سانس نہ آئی
آخری خواہش مجھ کو دے کر
نیناں میں چاہت کو سمو کر
نیند ہمیشہ کی جا سویا
اپنے دکھ کو مجھ میں بویا
پلک پلک، موتی بنتی ہوں
سارے بدن کو پھونک چکی ہوں
لیکن میری روح بچی ہے
دور اسی ندیا کے کنارے
آج بھی بیٹھی سوچ رہی ہے
شاید سیپیاں چنتےچنتے
کوئی مجھے چن کر لے جائے
ٹھنڈی ریت پہ خواب بچھائے
میرے بند پپوٹے چھو کر
شاید وہ اوجھل ہوجائے
گہری گہری جھیل کی تہہ سے
کبھی نہ باہر آ نے پائے ۔ ۔ ۔ !!!
مسافر تم ذرا سوچو
یہ اجلی دھوپ جاتے پل
وہ پیلے پیڑ کیوں روئے!
گلابی پھول کھلتے پل
وہ پیلے پیڑ کیوں روئے!
گھنیری شام اپنی زلف کے سائے میں چھپتی ہے
سمندر، بند آنکھوں سے
اگر اپنے پپوٹوں میں کبھی لبریز ہوتا ہے
اگر سوچوں کی لہریں
رفتہ رفتہ ٹوٹ جاتی ہیں
تو قسمت کے سرابوں پر
اڑی رنگت کے چھینٹوں پر
وہ پیلے پیڑ کیوں روئے!
وہ مدھم چاند
کیوں خنجر لیئے چھپ چھپ کے چلتا ہے
محبت چاندنی بن کر
جب اس کے دل میں رہتی ہے
تو پتھر ہاتھ میں پا کر
وہ پیلے پیڑ کیوں روئے !
بہت پر خار ہیں رستے
بہت بیزار ہیں رستے
جدائی کی فصیلوں سے
گزرتے بادلوں کی بجلیوں کو
بھول بیٹھے ہیں
جنھیں تم بھول بیٹھے ہو
وہ اب واپس نہ آئیں گے
کبھی واپس نہ آئیں گے
وہ واپس آ نہیں سکتے
شگوفے کھل رہے ہیں پھر
کوئی رت بھی نہیں نیلی
کسی ناسور لمحے پر
نہیں یہ آنکھ اب گیلی
اک استفسار باقی ہے
وہ پیلے پیڑ کیوں روئے ۔ ۔ ۔ ؟