درست تلفظ کیا ہے؟

بہت آداب، حضرت منیر انور صاحب۔

میرا مختصر نکتہ نظر بس اتنا ہے کہ غلطی ، غلطی ہے ۔۔ کوئی بھی کرے ۔۔۔ وہ غالب ہو ۔۔ میر ہو ۔۔۔ کہ داغ ہو ۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ غلطی کو تجربہ کہہ کر چھپانا یا پھر انہیں اہل زبان ہونے کی رعایت دینا ۔۔ یا یہ کہ انہوں نے رعایت لی ہے ۔۔​
 

فاتح

لائبریرین
غلطی ڈیکلیئر کرنے سے پہلے بہتر ہوتا اگر ہم یہ جان لیتے کہ زبانیں کیسے تشکیل پاتی ہیں اور کیسے ان میں روزانہ کی بنیادوں پر تغیر رونما ہوتا ہے اور کسی زبان میں تبدیلی کا استحقاق کسے حاصل ہے، وغیرہ وغیرہ
 

محب اردو

محفلین
محمد یعقوب آسی صاحب اور منیر انور صاحب کی بات بہت قرین انصاف اور قریب قیاس محسوس ہوتی ہے ۔ اور غالب اور داغ وغیرہ شعراء کی اس طرح کی غلطیوں کے حوالے سے محترم المقام الف عین صاحب کی توجیہ ہی بہتر لگتی ہے ۔ واللہ أعلم ۔
ویسے کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ رائے بھی رکھتےہیں کہ اردو بہت ساری زبانوں کا مجموعہ ضرور ہے لیکن اب چونکہ یہ ایک استقلالی حیثیت اختیار کرچکی ہے اب الفاظ کے استعمالات اور تراکیب کے اطلاقات میں اردو زبان کے اساتذہ و مؤسسین کا خیال رکھا جائےگا نہ کہ اس بات کی رعایت رکھی جائے گی کہ کوئی لفظ کسی زبان ( ماخوذ منہ ) میں کس طرح لکھا پڑھا گیا ہے ۔
مثلا لفظ ’’ ممنون ‘‘ اور ’’ مشکور ‘‘ یہ عربی زبان میں مفعول کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ اردو زبان میں فاعل کے معنی میں لیے جاتے ہیں ۔
عربی میں عام طور پہ کہا جاتا ہے : تفضل مشکورا ۔تشریف لاکر شکریہ کا موقعہ دیں ۔
جبکہ اردو زبان میں یوں بولا جاتا ہے : آپ کے تعاون پر بہت مشکور ہوں ۔ حالانکہ اگر عربی زبان کی رعایت رکھی جائے تو یوں ہونا چاہیے کہ : آپ کے تعاون پر بہت شاکر ہوں ۔
’’ان شاء اللہ ‘‘ کو بھی کچھ لوگ ’’ انشاء اللہ ‘‘ لکھنے سے گریز نہیں کرتے ، اور دلیل یہی ہے ۔
 
محمد یعقوب آسی صاحب اور منیر انور صاحب کی بات بہت قرین انصاف اور قریب قیاس محسوس ہوتی ہے ۔ اور غالب اور داغ وغیرہ شعراء کی اس طرح کی غلطیوں کے حوالے سے محترم المقام الف عین صاحب کی توجیہ ہی بہتر لگتی ہے ۔ واللہ أعلم ۔
ویسے کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ رائے بھی رکھتےہیں کہ اردو بہت ساری زبانوں کا مجموعہ ضرور ہے لیکن اب چونکہ یہ ایک استقلالی حیثیت اختیار کرچکی ہے اب الفاظ کے استعمالات اور تراکیب کے اطلاقات میں اردو زبان کے اساتذہ و مؤسسین کا خیال رکھا جائےگا نہ کہ اس بات کی رعایت رکھی جائے گی کہ کوئی لفظ کسی زبان ( ماخوذ منہ ) میں کس طرح لکھا پڑھا گیا ہے ۔
مثلا لفظ ’’ ممنون ‘‘ اور ’’ مشکور ‘‘ یہ عربی زبان میں مفعول کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ اردو زبان میں فاعل کے معنی میں لیے جاتے ہیں ۔
عربی میں عام طور پہ کہا جاتا ہے : تفضل مشکورا ۔تشریف لاکر شکریہ کا موقعہ دیں ۔
جبکہ اردو زبان میں یوں بولا جاتا ہے : آپ کے تعاون پر بہت مشکور ہوں ۔ حالانکہ اگر عربی زبان کی رعایت رکھی جائے تو یوں ہونا چاہیے کہ : آپ کے تعاون پر بہت شاکر ہوں ۔
’’ان شاء اللہ ‘‘ کو بھی کچھ لوگ ’’ انشاء اللہ ‘‘ لکھنے سے گریز نہیں کرتے ، اور دلیل یہی ہے ۔
بہت درست فرمایا۔ ویسے مشکور مفعولی ہی ہے۔ اردو میں بھی ایسا ہی ہے۔ جس معنی میں یہ استعمال ہونے لگا ہے وہاں شکر گذار مستعمل ہے۔
 
چلئے صاحب ۔۔ ہم تو صاف نکل گئے، کہ بات جوانی اور جوانوں کے بیچ چل پڑی بلکہ چکرا رہی ہے۔
خوش رہئے۔
ویسے میرا بہت صاف اور واضح نظریہ ہے کہ زبان میں کسی کو کوئی خصوصی استحقاق حاصل نہیں۔ جب ایک قاعدہ بن گیا اور معروف ہو گیا تو پھر وہ سب کے لئے ہے، کوئی اسنثناء نہیں ہونا چاہئے۔
 

منیر انور

محفلین
غلطی ڈیکلیئر کرنے سے پہلے بہتر ہوتا اگر ہم یہ جان لیتے کہ زبانیں کیسے تشکیل پاتی ہیں اور کیسے ان میں روزانہ کی بنیادوں پر تغیر رونما ہوتا ہے اور کسی زبان میں تبدیلی کا استحقاق کسے حاصل ہے، وغیرہ وغیرہ

آپ نے بہت عمدہ بات کی محترم ۔۔۔۔۔۔۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ زبانین کیسے پروان چڑھتی ہیں اور کسے زبان میں تبدیلی کا استحقاق کسے حاصل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبانوں میں تبدیلیاں رونما پوتی رہتی ہیں ۔۔۔ لفظوں کے استعمال میں جدت آتی رہتی ہے ۔۔۔ لیکن یہاں بات ہو رہی تھی درست تلفظ کی ۔۔۔ اس بات کا مین بھی قائل ہون کہ اردو اب بجائے خود ایک زبان کی حیثیت رکھتی ہے اسے زبانوں کا مرکب کہہ کر لفظوں کو بنیادی زبان کے مطابق نہین پرکھا جانا چاہیئے ۔۔ لیکن ایک بات بہت واضح ہے ۔۔ زبان وہ نہیں ہوتی جو لغات میں محفوظ ہوتی ہے زبان وہ ہوتی ہے جو بولی اور لکھی جاتی ہے ۔۔۔ زیر نظر قافیوں کے مسئلہ پر اسی اصول کے مطابق بھی نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ درست قافیئے استعمال نہیں کئے گئے ۔۔۔۔ مذکورہ الفاظ بولنے میں بھی اور لغات کے اعتبار سے بھی وہ تلفظ نہیں رکھتے جن کے تحت انہین استعمال کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جناب فاتح صاحب کا ارشاد ہے:
غلطی ڈیکلیئر کرنے سے پہلے بہتر ہوتا اگر ہم یہ جان لیتے کہ زبانیں کیسے تشکیل پاتی ہیں اور کیسے ان میں روزانہ کی بنیادوں پر تغیر رونما ہوتا ہے اور کسی زبان میں تبدیلی کا استحقاق کسے حاصل ہے، وغیرہ وغیرہ

پورے احترام کے ساتھ، میں اپنے فاضل دوست سے اس بات پر راہنمائی چاہوں گا کہ:
استحقاق کسے حاصل ہے، اور کسے حاصل نہیں؛ اور اس استحقاق کی بنیاد کیا ہے؟۔
بہت آداب۔
 

فاتح

لائبریرین
جناب فاتح صاحب کا ارشاد ہے:


پورے احترام کے ساتھ، میں اپنے فاضل دوست سے اس بات پر راہنمائی چاہوں گا کہ:
استحقاق کسے حاصل ہے، اور کسے حاصل نہیں؛ اور اس استحقاق کی بنیاد کیا ہے؟۔
بہت آداب۔
آج ہم اور آپ سب "آتَش"کو آتِش" بھی بلکہ اکثر آتِش "ہی" باندھتے ہیں۔۔۔ جسے کبھی ایک فارسی شاعر نے قافیے کی ضرورت کے مطابق آتِش باندھا تھا۔۔۔ اس کی کیا توجیہ ہو گی؟
 
آج ہم اور آپ سب "آتَش"کو آتِش" بھی بلکہ اکثر آتِش "ہی" باندھتے ہیں۔۔۔ جسے کبھی ایک فارسی شاعر نے قافیے کی ضرورت کے مطابق آتِش باندھا تھا۔۔۔ اس کی کیا توجیہ ہو گی؟

قافیے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مسلمہ تلفظ سے انحراف؛ بس۔ اگر ہم ایسے انحرافات کو مانتے چلے جائیں تو اردو کا کیا حال ہو گا!
آپ کے نزدیک اگر یہ اُس شاعر کا استحقاق ہے تو اُس کی کوئی دلیل بھی رہی ہو گی، وہی دلیل میرا مطمعِ نظر ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
قافیے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مسلمہ تلفظ سے انحراف؛ بس۔ اگر ہم ایسے انحرافات کو مانتے چلے جائیں تو اردو کا کیا حال ہو گا!
آپ کے نزدیک اگر یہ اُس شاعر کا استحقاق ہے تو اُس کی کوئی دلیل بھی رہی ہو گی، وہی دلیل میرا مطمعِ نظر ہے۔
تو آپ کے نزدیک آتش کا تلفظ ت کی زیر ساتھ (آتِش) غلط ہے؟
 
آج ہم اور آپ سب "آتَش"کو آتِش" بھی بلکہ اکثر آتِش "ہی" باندھتے ہیں۔۔۔ جسے کبھی ایک فارسی شاعر نے قافیے کی ضرورت کے مطابق آتِش باندھا تھا۔۔۔ اس کی کیا توجیہ ہو گی؟

قافیے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مسلمہ تلفظ سے انحراف؛ بس۔ اگر ہم ایسے انحرافات کو مانتے چلے جائیں تو اردو کا کیا حال ہو گا!
آپ کے نزدیک اگر یہ اُس شاعر کا استحقاق ہے تو اُس کی کوئی دلیل بھی رہی ہو گی، وہی دلیل میرا مطمعِ نظر ہے۔

تو آپ کے نزدیک آتش کا تلفظ ت کی زیر ساتھ (آتِش) غلط ہے؟
میرے نزدیک دونوں ایک ہی طرح درست ہیں۔
آج ہی کی نہیں بلکہ پرانی لغات میں بھی دونوں طرح کا تلفظ لکھا ہے۔
آتِش قدیم فارسی آتیش سے ہے۔ اور آتَش آترس سے۔ ؎
دونوں میں غلط کوئی نہیں بس استعمال آتَش کا زیادہ ہوتا ہے۔
بحوالہ :شمس الغات ۱۸۰۶ء
امیر الغات از امیر مینائی ۱۸۹۱ء
 
سوال یہ ہے کہ جب قرآن پاک سات حروف پر نازل ہوسکتا ہے اور سات قراتیں بھی مشہور ہیں (تلفظ کے اختلاف کے ساتھ)، تو اردو بیچاری کس کھیت کی مولی ہے۔ اردو زبان تو ویسے بھی روز بروز ارتقاء (یا تنزل) کی جانب گامزن ہے، اسے جامد اور ناقابلِ تغیر نہیں کہا جاسکتا۔:)
واللہ اعلم
 
سوال یہ ہے کہ جب قرآن پاک سات حروف پر نازل ہوسکتا ہے اور سات قراتیں بھی مشہور ہیں (تلفظ کے اختلاف کے ساتھ)، تو اردو بیچاری کس کھیت کی مولی ہے۔ اردو زبان تو ویسے بھی روز بروز ارتقاء (یا تنزل) کی جانب گامزن ہے، اسے جامد اور ناقابلِ تغیر نہیں کہا جاسکتا۔:)
واللہ اعلم

سات قرات سات لہجے ہیں۔ ان میں بھی جمہور عاصم کوفی کی قرات پر جمع ہے۔
اردو کا معاملہ دوسرا ہے۔
 
میرے خیال میں بحث دوسری طرف نکل گئی ہے جسے ختم ہوجانا چاہئے۔ کوئی کسی کو قائل کر سکتا ہے نہ رضامند۔ تو کیا حاصل؟
جس کا جو نظریہ ہے وہی رہے گا۔ چاہیں لاکھ دلائل بھی مل جائیں۔
 

محب اردو

محفلین
سات قرات سات لہجے ہیں۔ ان میں بھی جمہور عاصم کوفی کی قرات پر جمع ہے۔
اردو کا معاملہ دوسرا ہے۔
بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ قرآن سات حروف پرنازل کیا گیا ہے ۔ اب ان سات حروف سے کیا مراد ہے علماء کےمختلف اقوال ہیں سب سے راجح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سات وجوہ اختلاف ہیں مثلا واحد تثنیہ جمع ، تذکیر و تانیث ، تقدیم و تأخیر ۔۔۔۔ الخ نہ تو اس سے مراد سات قراءات ہیں اور نہ ہی سات لہجے ہیں اور اس سے بڑی لغزش یہ ہےکہ لہجے کو قرات کے مترادف مان لیا جائے ۔ گویا امام عاصم کوفی کی قرات ان کا لہجہ تھا ۔۔۔۔ یہ بات علمی اور واقعی اعتبار سے درست نہیں ہے ۔
کیونکہ قراءات صرف سات نہیں بلکہ دس ہیں اور یہ بھی وہ تعداد ہے جو آج کل مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ۔ ورنہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے ۔
اس حوالے سے ماہنامہ رشد (قراءت نمبر ) جو کہ مجلس التحقیق الإسلامی لاہور کے زیر انتظام غالبا تین یا چار قسطوں میں چند سال پہلے شائع ہوا ہے قابل مطالعہ ہے ، اور بلاشک اردو زبان میں اس موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے ۔
http://www.kitabosunnat.com/kutub-l...-wa-ashra/435-monthly-rushad-ka-qirat-no.html
 
تو آپ کے نزدیک آتش کا تلفظ ت کی زیر ساتھ (آتِش) غلط ہے؟
لغات دیکھ کر بتا دوں گا۔ سنا تو آتِش ہے تائے مکسور کے ساتھ۔

میرا سوال یہ تھا ہی نہیں کہ کس انفرادی لفظ کی کون سی املاء اور کون سے اعراب درست ہیں۔ میرا اصل سوال یہ تھا کہ کسی زبان میں تبدیلی کا
استحقاق کسے حاصل ہے، اور کسے حاصل نہیں؛ اور اس استحقاق کی بنیاد کیا ہے؟۔
اِس پر میری راہنمائی فرمائیے گا۔ بہت نوازش۔

جناب فاتح صاحب
 
بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ قرآن سات حروف پرنازل کیا گیا ہے ۔ اب ان سات حروف سے کیا مراد ہے علماء کےمختلف اقوال ہیں سب سے راجح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سات وجوہ اختلاف ہیں مثلا واحد تثنیہ جمع ، تذکیر و تانیث ، تقدیم و تأخیر ۔۔۔ ۔ الخ نہ تو اس سے مراد سات قراءات ہیں اور نہ ہی سات لہجے ہیں اور اس سے بڑی لغزش یہ ہےکہ لہجے کو قرات کے مترادف مان لیا جائے ۔ گویا امام عاصم کوفی کی قرات ان کا لہجہ تھا ۔۔۔ ۔ یہ بات علمی اور واقعی اعتبار سے درست نہیں ہے ۔
کیونکہ قراءات صرف سات نہیں بلکہ دس ہیں اور یہ بھی وہ تعداد ہے جو آج کل مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ۔ ورنہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے ۔
اس حوالے سے ماہنامہ رشد (قراءت نمبر ) جو کہ مجلس التحقیق الإسلامی لاہور کے زیر انتظام غالبا تین یا چار قسطوں میں چند سال پہلے شائع ہوا ہے قابل مطالعہ ہے ، اور بلاشک اردو زبان میں اس موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے ۔
http://www.kitabosunnat.com/kutub-l...-wa-ashra/435-monthly-rushad-ka-qirat-no.html

اس بحث کو آگے کے لئے بچا کر رکھ لیتے ہیں۔ دھاگہ اور زمرہ اس کی اجازت نہیں دیتا تو میری طرف سے خاموشی کو جواب جانئے۔ :)
 
Top