سید عاطف علی
لائبریرین
برادر ابو حذیفی ّّعباسی نے بہت دلچسپ اشارہ کیا ہےباب افتعال ومفاعلہ کے مصادرمیں دوران گفتگو واقع ہونے والی تلفظ کی اغلاط ۔
انتہاء ؛اجتناب ؛ افتراق ؛ ؛انتظام ؛ امتحان ؛ التجاء؛ وغیرہ ان کلمات میں حرف ،، ت ؛؛کو اکثر لوگ فتحہ ( زبر ) کے ساتھ مثلا اِنتَہاء پڑھتے ہیں جبکہ درست ؛؛ ت ؛؛ کے کسرہ( زیر) کے ساتھ ِانتِہاء ہےِ ۔
اسیطرح مشاھدہ ، َمطالعہ،مکالمہ مباحثہ وغیرہ میں ،الف کے بعد والا حرف ہمیشہ مفتوح ہو گا ۔ جیسے مباحَثہ : اسے مکسور پڑھنا غیر صحیح ہے
مفاعلہ کےباب میں رباعی افعال کے صرفی اوزان کے بابت عربی قواعد کے مطابق تو مذکورہ حرف اصولا" مفتوح ہی ہوتا ہے ۔ تو کیا اردو کےمحاوراتی اسلوب میں بھی اسے اسی طرح رکھا جائے گا ؟ ۔ جبکہ مذکورہ بالا تما م کلمات تائے مربوطہ کے باعث عربی قواعد کے مطابق (غیر حقیقی ) مؤنث شکل میں استعمال ہوتے ہیں تو انہیں ان کے اصولی مرجع کی طرح اردو میں بھی مؤنث بنا کر استعمال کردینا شروع کر دیا جائے ؟ ۔۔۔۔مثلا" ۔۔۔۔میں نے فلاں کتاب کی مطالعہ کرلی ہے جو مجھے میرے دوست نے دیا تھا۔ ( واضح رہے کہ عربی محاورہ میں کتاب مذکر مستعمل ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا یقینا " نہیں۔۔۔۔ اس لئے کہ اردو کا ایک میچور محاوراتی اسلوب ہے جس کے مطابق ہی ہر کلمے کا برتاؤ متعین ہوتا ہے ۔۔۔ اسی طرح موسیقی اردو میں استعمال ہوتا ہے جو در اصل الف مقصورۃ کی شکل ہے اور اصلا" موسیقا بولا جاتا ہے ۔۔۔۔ مستقبل کا بے اردو میں مکسورہ استعمال ہوتا ہے جبکہ یہ با اصلا" مفتوحہ ہوتا ہے۔۔۔۔اگر اردو میں اسے ہم دانستہ مفتوحہ شکل میں بولیں تو ہمیں ہنسی آ جاے گی ۔۔۔۔ ایسے مختلف فیہ امور میں ارباب لسانیات کی رائے مختلف ہونا بھی عجب نہیں تا ہم معیار( جو کہ حتمی نہیں ہو سکتا ) متعین کرنے میں ہر اس زبان ( خصوصا" عربی اور فارسی ) کی ایٹمولوجیکل تغیراتی ارتقاء اور مروج اسلوب کی مابین توازن کو مد نظر رکھ کر کیا جانا چاہئے جن کا دودھ پی کر ہماری زبان نے بلوغ و جمال پایا ہے ۔ ۔۔۔۔اور السنہء عالم میں ایک با وقار زبان کا مقام بھی حآ صل کیا ہے۔۔۔ میرے خیال میں محترم آسی صاحب کی پیش کردہ غزل ایسے ہی اختلاف کی مثال ہے۔جہاں تک کسی معیار سے انحراف کا تعلق کا تعلق ہے (جیسے داغ و غالب میر و اقبال وغیرہم ) تو اس کی نوعیت کی لطافت کے مطابق پرکھا اورایویلویٹ جاسکتا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔اور ہم جیسا عامی کوئی انحراف کرے تو اسے اسی طرح نپٹا جائے جو محترم منیر انورصاحب نے کہا ۔