درست تلفظ کیا ہے؟

سید عاطف علی

لائبریرین
باب افتعال ومفاعلہ کے مصادرمیں دوران گفتگو واقع ہونے والی تلفظ کی اغلاط ۔

انتہاء ؛اجتناب ؛ افتراق ؛ ؛انتظام ؛ امتحان ؛ التجاء؛ وغیرہ ان کلمات میں حرف ،، ت ؛؛کو اکثر لوگ فتحہ ( زبر ) کے ساتھ مثلا اِنتَہاء پڑھتے ہیں جبکہ درست ؛؛ ت ؛؛ کے کسرہ( زیر) کے ساتھ ِانتِہاء ہےِ ۔
اسیطرح مشاھدہ ، َمطالعہ،مکالمہ مباحثہ وغیرہ میں ،الف کے بعد والا حرف ہمیشہ مفتوح ہو گا ۔ جیسے مباحَثہ : اسے مکسور پڑھنا غیر صحیح ہے
برادر ابو حذیفی ّّعباسی نے بہت دلچسپ اشارہ کیا ہے
مفاعلہ کےباب میں رباعی افعال کے صرفی اوزان کے بابت عربی قواعد کے مطابق تو مذکورہ حرف اصولا" مفتوح ہی ہوتا ہے ۔ تو کیا اردو کےمحاوراتی اسلوب میں بھی اسے اسی طرح رکھا جائے گا ؟ ۔ جبکہ مذکورہ بالا تما م کلمات تائے مربوطہ کے باعث عربی قواعد کے مطابق (غیر حقیقی ) مؤنث شکل میں استعمال ہوتے ہیں تو انہیں ان کے اصولی مرجع کی طرح اردو میں بھی مؤنث بنا کر استعمال کردینا شروع کر دیا جائے ؟ ۔۔۔۔مثلا" ۔۔۔۔میں نے فلاں کتاب کی مطالعہ کرلی ہے جو مجھے میرے دوست نے دیا تھا۔ ( واضح رہے کہ عربی محاورہ میں کتاب مذکر مستعمل ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا یقینا " نہیں۔۔۔۔ اس لئے کہ اردو کا ایک میچور محاوراتی اسلوب ہے جس کے مطابق ہی ہر کلمے کا برتاؤ متعین ہوتا ہے ۔۔۔ اسی طرح موسیقی اردو میں استعمال ہوتا ہے جو در اصل الف مقصورۃ کی شکل ہے اور اصلا" موسیقا بولا جاتا ہے ۔۔۔۔ مستقبل کا بے اردو میں مکسورہ استعمال ہوتا ہے جبکہ یہ با اصلا" مفتوحہ ہوتا ہے۔۔۔۔اگر اردو میں اسے ہم دانستہ مفتوحہ شکل میں بولیں تو ہمیں ہنسی آ جاے گی ۔۔۔۔ ایسے مختلف فیہ امور میں ارباب لسانیات کی رائے مختلف ہونا بھی عجب نہیں تا ہم معیار( جو کہ حتمی نہیں ہو سکتا ) متعین کرنے میں ہر اس زبان ( خصوصا" عربی اور فارسی ) کی ایٹمولوجیکل تغیراتی ارتقاء اور مروج اسلوب کی مابین توازن کو مد نظر رکھ کر کیا جانا چاہئے جن کا دودھ پی کر ہماری زبان نے بلوغ و جمال پایا ہے ۔ ۔۔۔۔اور السنہء عالم میں ایک با وقار زبان کا مقام بھی حآ صل کیا ہے۔۔۔ میرے خیال میں محترم آسی صاحب کی پیش کردہ غزل ایسے ہی اختلاف کی مثال ہے۔جہاں تک کسی معیار سے انحراف کا تعلق کا تعلق ہے (جیسے داغ و غالب میر و اقبال وغیرہم ;) ) تو اس کی نوعیت کی لطافت کے مطابق پرکھا اورایویلویٹ جاسکتا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔اور ہم جیسا عامی کوئی انحراف کرے تو اسے اسی طرح نپٹا جائے جو محترم منیر انورصاحب نے کہا ۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
استاد داغ کی یہ غزل فیس بک پر دیکھی ہے۔ اس میں تیسرے شعر کے قافیے پر مخمصے کا شکار ہوں۔ اہلِ علم و فن احباب سے راہنمائی دی درخواست ہے۔

بشر کو گر نہ ملتی کس کو ملتی عشق کی دولت
نہیں تھا کوئی اس کا مستحق اول سے آخر تک

یہاں درست کیا ہے؟ مستحِق یا مستحَق؟ ۔۔ اگر مستحِق درست لفظ ہے تو یہاں دیگر قوافی میں حرف ماقبل قاف سب مفتوح ہیں۔
الف عین صاحب، فاتح صاحب، محمد وارث صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، اور محمد خلیل الرحمٰن صاحب سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔

آسی صاحب ۔اگرچہ آپ نے اہلِ علم و فن کی قید لگائی ہے تاہم آپ کی خندہ پیشانی اور قلبی وسعت کی بنیادپہ عرض ہے کہ ۔۔۔ داغ پھر استاذ داغ ہیں۔۔۔اور مذکورہ مقام میں یہ لفظ بالکل ٹھیک باندھا گیا ہے۔۔۔۔مُسْتَحَقّ ۔۔۔۔ اسکا مادّہ حقّقَ ( haqqaqa ) ہے جو رباعی ہے۔۔۔۔ اور اپنے مستعمل معنی میں ہی داغ نے استعمال کیا ہے۔ہم اردو والوں نے مستقبل کے ت کی طرح زیر لگادی ۔جواصلا" مستقبَل ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محترمی سید عاطف علی صاحب کا کہنا ہے کہ:


استاد داغ کے شعر سے قطع نظر مجھے اس مادہ (ح ق ق ق) کو تسلیم کرنے میں تامل ہے۔ مزید پھر عرض کروں گا۔
یہ تو ۔۔۔سمند فکر کو اک اور تازیانہ ہوا:)۔تو پھر ضرور تحقیق فرمایئے۔۔۔دیکھیں آپ کا ہدہدِ ادراک ملک تحقیق سے کیا خبر لاتا ہے۔۔۔
 

محب اردو

محفلین
آسی صاحب ۔اگرچہ آپ نے اہلِ علم و فن کی قید لگائی ہے تاہم آپ کی خندہ پیشانی اور قلبی وسعت کی بنیادپہ عرض ہے کہ ۔۔۔ داغ پھر استاذ داغ ہیں۔۔۔ اور مذکورہ مقام میں یہ لفظ بالکل ٹھیک باندھا گیا ہے۔۔۔ ۔مُسْتَحَقّ ۔۔۔ ۔ اسکا مادّہ حقّقَ ( haqqaqa ) ہے جو رباعی ہے۔۔۔ ۔ اور اپنے مستعمل معنی میں ہی داغ نے استعمال کیا ہے۔ہم اردو والوں نے مستقبل کے ت کی طرح زیر لگادی ۔جواصلا" مستقبَل ہے۔
استاد محترم آسی صاحب کا تأمل بجا ہے ۔ لفظ ’’ مستحق ‘‘ کا مادہ ’’ ح ق ق یعنی ’’حَقٌ ‘‘ ہے نہ کہ ح ق ق ق ’’ حقَّق ‘‘ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ افعال کی دو قسمیں ہیں :
ثلاثی جس کے تیں حرف اصلی ہوں جیساکہ ’’ حق ‘‘ ہے اور رباعی جس کے چار حرف اصلی ہون جیساکہ ’’ زلزلہ ‘‘ ۔
پھر ان میں سے ہر ایک کی دو دو قسمیں ہیں ثلاثی مزید فیہ جیساکہ مادہ ’’ حق ‘‘ سے احقاق ، تحقیق ، استحقاق وغیرہ ۔
رباعی مزید فیہ مثلا تزلزل ، تدحرج وغیرہ ۔
کسی بھی مادے کے مختلف ابواب ہونا اور پھر ہر ایک باب سےافعال ( ماضی ، مضارع ، امر ) اور اسماء ( فاعل ، مفعول ، ظرف وغیرہ ) کا خاص قواعد و ضوابط کے مطابق آنا یہ اہل علم کے ہاں مشہور معروف بات ہے لہذا یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اب لفظ مستحق یہ اسم فاعل (کسرہ کے ساتھ ) یا اسم مفعول ( فتحہ کے ساتھ ) ہے ۔ اور یہ بات استفعال ہے اس سے مصدر استحقاق فعل ماضی استحق مضارع یستحق اور اسم فاعل مستحق ہے ۔
لفظ ’’ حقَّق ‘‘ یہ فعل ماضی ہے باب تفعیل سے ۔ اس کا مصدر تحقیق ، فعل مضارع یحقق اور اسم فاعل محقق ہے ۔


مذکور وضاحت کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ ’’ مستحق ‘‘ کا مادہ کسی بھی صورت ’’ حقَّق ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ کیونکہ مستحق باب استفعال اور حقق باب تفعیل سے ہے ۔
’’استحقاق‘‘ لازم جبکہ ’’تحقیق‘‘ متعدی ہے ۔ دونوں کو ایک کیسے کیا جا سکتا ہے؟

یہاں سے یہ غلطی بھی واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ ’’ مستحق ‘‘ یا ’’ حقق ‘‘ رباعی نہیں بلکہ ثلاثی ہے لیکن ثلاثی مزید فیہ ہے ۔

معنی کے اعتبار سے بھی یہ توجیہ ٹھیک نہیںکیونکہ
استحقاق کا مطلب ہے ’’ کسی چیز کا حقدار ہونا ‘‘ لہذا ’’ مستحِق ‘‘ کا مطلب ہوگا ’’ حقدار ‘‘
تحقیق کا مطلب ہے ’’ حق ثابت کرنا ‘‘ لہذا ’’ محِقق ‘‘ کا معنی ہوگا ’’حق ثابت کرنے والا ‘‘ اور ’’ محقَق ‘‘ کا مطلب ہوگا ’’ جس کو ثابت کیا گیا ہے ۔ مروجہ اسلوب کے مطابق اسم فاعل کا مطلب ہوگا تحقیق کرنے والا جبکہ مفعول کا مطلب ہوگا جس کی تحقیق کی گئی ہے ۔
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ جہاں لفظ ’’ مستحق ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے ، وہاں کون سا معنی مراد ہوتا ہے ’’ حقدار ‘‘ یا ’’ تحقیق کرنے والا ‘‘ یا ’’ جس کی تحقیق کی گئی ‘‘ ، بلا تاخیر کہا جا سکتا کہ پہلا معنی ہی مراد ہوتا ہے ۔

اب ایک مسئلہ باقی رہ جاتا ہے کہ ’’ حقدار ‘‘ کے لیے عربی لفظ ’’ مستحِق ‘‘ ہے یا ’’ مستحَق ‘‘ ہے ۔ یہ بات بالکل آسان ہے اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ لفظ ’’ استحقاق ‘‘ سے ہے اور استحقاق متعدی نہیں بلکہ لازمی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
کیونکہ لازم کے جو ابواب ہیں اگر وہ بغیر کسی اضافی حرف کے استعمال ہوں تو وہ فاعلی معنی کا ہی فائدہ دیتے ہیں ، مفعولی معنی دینے کی ان کے اندار صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ اضطراری حالت میں ان سے مفعولی معنی حاصل کرنے کے لیے کچھ اضافی حروف کا استعمال کیا جاتا ہے جو ان کو لازمی معنی سےنکال کر متعدی میں شامل کردیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ایک لفظ ہے ’’ انفعال ‘‘ جس کے معنی ہیں ’’ متأثر ہونا ‘‘ اور یہ ایک لازمی معنی ہیں اس باب سے فاعل آئے گا ’’ منفعل ‘‘ یعنی ’’ متأثر ہونے والا ‘‘ اب کوئی شخص اس سے مفعولی معنی ’’ جس چیز سے متأثر ہوا گیا ہے ‘‘ لینے کے لیے اس کی عین پر فتحہ دے کر یعنی منفعَل کہہ کر کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کو لزوم سے تعدی کی طرف لانے کے لیے ساتھ کوئی نہ کوئی اضافی حرف استعمال کرنا ضروری ہے مثلا کہاجائے گا ’’منفعَل بہ ‘‘
اتنی لمبی بات سے کہنا صرف یہ مقصود تھا کہ لفظ ’’ مستحق ‘‘ چونکہ بغیر کسی اضافی حرف کے استعمال ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فاعل ہے اور فاعل ’’ مستحِق ‘‘ یعنی کسرہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اگر یہ کسرہ کے ساتھ نہ ہوتا تو پھر اس کو اکیلا ہونےکی بجائے ’’ مستحَق بہ ‘‘ ہونا چاہیے تھا ۔۔ جیسا کہ اردو میں لفظ ’’ معتَدبہ ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

یہ ساری باتیں ان حضرات کے لیے ہیں جو اردو زبان میں استعمال شدہ عربی کلمات کے بارے میں عربی قواعد کی رعایت رکھنے کے قائل ہیں ۔۔۔۔۔ رہی بات دیگر حضرات کی تو ان کے لیے شاید یہ حقائق کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔

جناب محمد یعقوب آسی @محمد خلیل الرحمن الف عین @محمد اسامہ سرسری کی خدمت میں :
چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق کچھ بڑی بڑی باتیں سرزد ہوگئی ہیں امید ہے اساتذہ شفقت کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔
 
ما شاء اللہ! جناب محب اردو! آپ نے اردو اور عربی سے محبت کا عمدہ ثبوت پیش کیا ہے۔
اس فقیر کے سوالوں کا کافی و شافی جواب مل گیا اور دامن میں کچھ قیمتی موتی بھی آ گئے۔
آداب عرض ہے۔
 
ما احسن ما قال صاحب ہذا المقال!
نعم ما اجاب و اصاب بما اجاب و افاد فیما اجاب فجزاہ اللہ علی ما اجاب!
محب اردو صاحب! ماشاءاللہ بہت خوب لکھا آپ نے۔
پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
استاد محترم آسی صاحب کا تأمل بجا ہے ۔ لفظ ’’ مستحق ‘‘ کا مادہ ’’ ح ق ق یعنی ’’حَقٌ ‘‘ ہے نہ کہ ح ق ق ق ’’ حقَّق ‘‘ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ افعال کی دو قسمیں ہیں :
ثلاثی جس کے تیں حرف اصلی ہوں جیساکہ ’’ حق ‘‘ ہے اور رباعی جس کے چار حرف اصلی ہون جیساکہ ’’ زلزلہ ‘‘ ۔
پھر ان میں سے ہر ایک کی دو دو قسمیں ہیں ثلاثی مزید فیہ جیساکہ مادہ ’’ حق ‘‘ سے احقاق ، تحقیق ، استحقاق وغیرہ ۔
رباعی مزید فیہ مثلا تزلزل ، تدحرج وغیرہ ۔
کسی بھی مادے کے مختلف ابواب ہونا اور پھر ہر ایک باب سےافعال ( ماضی ، مضارع ، امر ) اور اسماء ( فاعل ، مفعول ، ظرف وغیرہ ) کا خاص قواعد و ضوابط کے مطابق آنا یہ اہل علم کے ہاں مشہور معروف بات ہے لہذا یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اب لفظ مستحق یہ اسم فاعل (کسرہ کے ساتھ ) یا اسم مفعول ( فتحہ کے ساتھ ) ہے ۔ اور یہ بات استفعال ہے اس سے مصدر استحقاق فعل ماضی استحق مضارع یستحق اور اسم فاعل مستحق ہے ۔
لفظ ’’ حقَّق ‘‘ یہ فعل ماضی ہے باب تفعیل سے ۔ اس کا مصدر تحقیق ، فعل مضارع یحقق اور اسم فاعل محقق ہے ۔


مذکور وضاحت کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ ’’ مستحق ‘‘ کا مادہ کسی بھی صورت ’’ حقَّق ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ کیونکہ مستحق باب استفعال اور حقق باب تفعیل سے ہے ۔
’’استحقاق‘‘ لازم جبکہ ’’تحقیق‘‘ متعدی ہے ۔ دونوں کو ایک کیسے کیا جا سکتا ہے؟

یہاں سے یہ غلطی بھی واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ ’’ مستحق ‘‘ یا ’’ حقق ‘‘ رباعی نہیں بلکہ ثلاثی ہے لیکن ثلاثی مزید فیہ ہے ۔

معنی کے اعتبار سے بھی یہ توجیہ ٹھیک نہیںکیونکہ
استحقاق کا مطلب ہے ’’ کسی چیز کا حقدار ہونا ‘‘ لہذا ’’ مستحِق ‘‘ کا مطلب ہوگا ’’ حقدار ‘‘
تحقیق کا مطلب ہے ’’ حق ثابت کرنا ‘‘ لہذا ’’ محِقق ‘‘ کا معنی ہوگا ’’حق ثابت کرنے والا ‘‘ اور ’’ محقَق ‘‘ کا مطلب ہوگا ’’ جس کو ثابت کیا گیا ہے ۔ مروجہ اسلوب کے مطابق اسم فاعل کا مطلب ہوگا تحقیق کرنے والا جبکہ مفعول کا مطلب ہوگا جس کی تحقیق کی گئی ہے ۔
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ جہاں لفظ ’’ مستحق ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے ، وہاں کون سا معنی مراد ہوتا ہے ’’ حقدار ‘‘ یا ’’ تحقیق کرنے والا ‘‘ یا ’’ جس کی تحقیق کی گئی ‘‘ ، بلا تاخیر کہا جا سکتا کہ پہلا معنی ہی مراد ہوتا ہے ۔

اب ایک مسئلہ باقی رہ جاتا ہے کہ ’’ حقدار ‘‘ کے لیے عربی لفظ ’’ مستحِق ‘‘ ہے یا ’’ مستحَق ‘‘ ہے ۔ یہ بات بالکل آسان ہے اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ لفظ ’’ استحقاق ‘‘ سے ہے اور استحقاق متعدی نہیں بلکہ لازمی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
کیونکہ لازم کے جو ابواب ہیں اگر وہ بغیر کسی اضافی حرف کے استعمال ہوں تو وہ فاعلی معنی کا ہی فائدہ دیتے ہیں ، مفعولی معنی دینے کی ان کے اندار صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ اضطراری حالت میں ان سے مفعولی معنی حاصل کرنے کے لیے کچھ اضافی حروف کا استعمال کیا جاتا ہے جو ان کو لازمی معنی سےنکال کر متعدی میں شامل کردیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ایک لفظ ہے ’’ انفعال ‘‘ جس کے معنی ہیں ’’ متأثر ہونا ‘‘ اور یہ ایک لازمی معنی ہیں اس باب سے فاعل آئے گا ’’ منفعل ‘‘ یعنی ’’ متأثر ہونے والا ‘‘ اب کوئی شخص اس سے مفعولی معنی ’’ جس چیز سے متأثر ہوا گیا ہے ‘‘ لینے کے لیے اس کی عین پر فتحہ دے کر یعنی منفعَل کہہ کر کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کو لزوم سے تعدی کی طرف لانے کے لیے ساتھ کوئی نہ کوئی اضافی حرف استعمال کرنا ضروری ہے مثلا کہاجائے گا ’’منفعَل بہ ‘‘
اتنی لمبی بات سے کہنا صرف یہ مقصود تھا کہ لفظ ’’ مستحق ‘‘ چونکہ بغیر کسی اضافی حرف کے استعمال ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فاعل ہے اور فاعل ’’ مستحِق ‘‘ یعنی کسرہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اگر یہ کسرہ کے ساتھ نہ ہوتا تو پھر اس کو اکیلا ہونےکی بجائے ’’ مستحَق بہ ‘‘ ہونا چاہیے تھا ۔۔ جیسا کہ اردو میں لفظ ’’ معتَدبہ ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

یہ ساری باتیں ان حضرات کے لیے ہیں جو اردو زبان میں استعمال شدہ عربی کلمات کے بارے میں عربی قواعد کی رعایت رکھنے کے قائل ہیں ۔۔۔ ۔۔ رہی بات دیگر حضرات کی تو ان کے لیے شاید یہ حقائق کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔

جناب محمد یعقوب آسی @محمد خلیل الرحمن الف عین @محمد اسامہ سرسری کی خدمت میں :
چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق کچھ بڑی بڑی باتیں سرزد ہوگئی ہیں امید ہے اساتذہ شفقت کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسی صاحب کا تامل محب اردو صاحب کےتوسن فکر کو تازیانہ ( بلکہ کافی شدید تازیانہ) ثابت ہوا اور جناب نے ثلاثی و رباعی مجرد و مزید کا ایک پورا لیکچر کاپی کردیا :) ۔ جو کہ بہر حال فایدے سے خالی نہیں اور یقینا "ایک مثبت کاوش ہے :thumbsup2: ۔۔۔۔اور اس سے یہ خوب واضح ہو جاتا ہے کہ حقق در اصل ثلاثی مزید فعل ہے ( جس کا استعمال یحقق الاحلام یعنی خواب پورا کر نا یا ہونا یا اس طرح کے معانی میں میں ہوسکتا ہے)َ ۔اوریہ کہ حقق تحقیق تک پہنچتا ہے۔۔۔۔جیسے علّم (ثلاثی مزید) تعلیم تک پہنچتا ہے۔

تا ہم محب اردو صاحب نے افعال کی اقسام میں ثلاثی رباعی کے ساتھ خماسی اور سداسی افعال کا ذکر نہیں کیا ۔۔۔ (جیسا کہ انطلق اور استغفر ) وغیرہم۔۔۔۔۔

اور قاموس المعانی کے مطابق مستحق ( مفتوحہ ح والا جو داغ کے شعر میں خاص وی آئی پی :lol: موضعوع بن گیا ) استحقّ جو کہ المعانی کے مطابوق سداسی متعد فعل کا مفعول ہےاور اس کا فاعل ح کسرہ وا لا مستحق ہے۔ ۔۔۔ انگللش میں اس کے معنی و متبادل deserved - merited۔earned ۔۔۔دیے گئے ہیں۔۔۔۔
آسی صاحب !!! آپ کاتامل کی کیا ہی اچھے ثمرات لایااور ہاں امید ہے آپ کا قافیے والا اشکال کافی شافی وضآحت پا گیا :lol: ۔۔۔۔اور استاذ داغ کا تو ذکر ہی کیا ۔۔۔۔۔محب اردو صاحب کا بھی قابل قدرعلمی شراکت کا اور تصحیح کا شکریہ:clap: ۔

  1. اسْتَحَقّ :
    اسْتَحَقّ الشيءَ والأمر : استَوْجَبَهُ .
    و اسْتَحَقّ الإثمَ : وجبت عليه عقوبته .
    وفي التنزيل العزيز : المائدة آية 107 فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا ) ) .
    المعجم: المعجم الوسيط -
  2. استحق - اِسْتَحَقَّ :
    [ ح ق ق ]. ( فعل : سداسي متعد ). اِسْتَحْقَّ ، يَسْتَحِقُّ ، مصدراِسْتِحْقَاقٌ .
    1 ." اِسْتَحَقَّ كُلَّ تَقْدِيرٍ عَلَى أَعْمَالِهِ ": اِسْتَأْهَلَ .
    2 ." لاَ يَسْتَحِقُّ كُلَّ هَذَا التَّأْنِيبِ " : لاَ يَسْتَوْجِبُهُ . " أَمْرٌ يَسْتَحِقُّ الذِّكْرَ ".
    المعجم: الغني -
  3. استحقَّ يستحقّ ، اسْتَحْقِقْ / اسْتَحِقَّ ، استحقاقًا ، فهو مُستحِقّ ، والمفعول مُستحَقّ ( للمتعدِّي ):
    • استحقَّ الدَّيْنُ حانَ دفعُه " لا تتأخَّر عن دفع الدَّيْن إذا استحقّ ".
    • استحقَّ الشَّيءَ / استحقَّ الأمرَ : استَوْجَبَه ، واستأهله وكان جديرًا به " استحقَّ المُصابُ الشَّفقةَ ، - استحقَّ مكافأةً / التّقديرَ / الشُّكرَ / الإجلالَ والإكبارَ ، - حادث يستحق الذِّكرَ : ذو أهميّة في هذا المقام ، - لا يستحقّ الحلوَ مَنْ لم يذق الحامض [ مثل ]، - { فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا } ".
    • استحقَّ الإثمَ : وجبت عليه عقوبتُه " { فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا }: استوجبا ذنبًا لكذبهما في الشّهادة ".
    المعجم: اللغة العربية المعاصر -
  4. ضمان الدرك الذي هو ضمان الثمن للمشتري أن استحق المبيع أو وجد به عيب ( ر:
    درك ) .
    المعجم: مصطلحات فقهية -
  5. استحقّ الشّيء / استحقّ الأمر:
    استَوْجَبَه ، واستأهله وكان جديرًا به " استحقَّ المُصابُ الشَّفقةَ - استحقَّ مكافأةً / التّقديرَ / الشُّكرَ / الإجلالَ والإكبارَ - حادث يستحق الذِّكرَ
    المعجم: عربي عامة -
  6. استحقّ الدّيْن:
    حانَ دفعُه " لا تتأخَّر عن دفع الدَّيْن إذا استحقّ ".
    المعجم: عربي عامة -
  7. استحقّ الإثم:
    وجبت عليه عقوبتُه " { فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا }
    المعجم: عربي عامة -
 
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
تا ہم محب اردو صاحب نے افعال کی اقسام میں ثلاثی رباعی کے ساتھ خماسی اور سداسی افعال کا ذکر نہیں کیا ۔۔۔ (جیسا کہ انطلق اور استغفر ) وغیرہم۔۔۔

محترم! عربی زبان میں افعال یا تو ثلاثی ہیں یا رباعی۔ خماسی اور سداسی افعال میں نہیں ہیں، البتہ اسماء میں خماسی بھی ہے، جیسے: سفرجل،قذعمل،جحمرش، قرطعب، غضرفوط، قبعثری، قرطبوس، خزعبیل، خندریس وغیرہ ، مگر ”سداسی نامہ“ تو ”عربستان“ کے ”ملکِ صرف و نحو“ سے کوئی ہدہدِ ادراک ملکۂ ”اسماء“ کی جانب سے آج تک نہیں لایا۔:)
اگر مستحق سداسی ہے تو اس لحاظ سے ”استحقاق“ سباعی ہوا، لغت میں آپ نے جس ”سداسی“ لفظ کا حوالہ دیا ہے وہاں بھی موجودہ شکل کے حروف کی تعداد بتائی گئی ہے، اسی سطر کے شروع میں
[ ح ق ق ]​
کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لفظ اصل کے لحاظ سے ثلاثی ہے اور یہی محب اردو صاحب کا منشا تھا کہ اصل کے لحاظ سے افعالِ عربیہ کی دو ہی قسمیں ہیں ثلاثی اور رباعی۔
انطلق اور استغفر بھی مستحق کی طرح ثلاثی مزید فیہ کی قسمیں ہیں۔ انطلق باب انفعال سے ہے ، جبکہ استغفر اور ”مستحق“ ہردو باب استفعال سے ہیں، ”استغفر“ صحیح جبکہ ”مستحق“ مضاعف ہے۔:)
استاد محترم
محب اردو
 

محب اردو

محفلین
ما شاء اللہ! جناب محب اردو! آپ نے اردو اور عربی سے محبت کا عمدہ ثبوت پیش کیا ہے۔
اس فقیر کے سوالوں کا کافی و شافی جواب مل گیا اور دامن میں کچھ قیمتی موتی بھی آ گئے۔
آداب عرض ہے۔
اگر کچھ ہے تو یہ آپ جیسے اساتذہ فن کی شفقت کا ہی نتیجہ ہے ۔ نوازش کے لیے شکریہ ۔
 

محب اردو

محفلین
ما احسن ما قال صاحب ہذا المقال!
نعم ما اجاب و اصاب بما اجاب و افاد فیما اجاب فجزاہ اللہ علی ما اجاب!
محب اردو صاحب! ماشاءاللہ بہت خوب لکھا آپ نے۔
پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ جزاکم اللہ خیرا۔
لا نملک إلا الشکر الجزیل علی ہذہ الکلمات التألیفیۃ والتشجیعیہ ۔
بہت شکریہ قبول فرمائیے ۔
 

محب اردو

محفلین
محترم! عربی زبان میں افعال یا تو ثلاثی ہیں یا رباعی۔ خماسی اور سداسی افعال میں نہیں ہیں، البتہ اسماء میں خماسی بھی ہے، جیسے: سفرجل،قذعمل،جحمرش، قرطعب، غضرفوط، قبعثری، قرطبوس، خزعبیل، خندریس وغیرہ ، مگر ”سداسی نامہ“ تو ”عربستان“ کے ”ملکِ صرف و نحو“ سے کوئی ہدہدِ ادراک ملکۂ ”اسماء“ کی جانب سے آج تک نہیں لایا۔:)
انطلق اور استغفر بھی مستحق کی طرح ثلاثی مزید فیہ کی قسمیں ہیں۔ انطلق باب انفعال سے ہے ، جبکہ استغفر اور ”مستحق“ ہردو باب استفعال سے ہیں، ”استغفر“ صحیح جبکہ ”مستحق“ مضاعف ہے۔:)

محب اردو
بجا فرمایا آپ نے ۔
میرے خیال سے سید عاطف صاحب کی معلومات کا ذریعہ معلوم کر لینا چاہیے ۔ اردو بہت ساری زبانوں کا مجموعہ ہے جس طرح ہم عربی پر زور دے رہے ہیں ممکن ہے وہ کسی تیسری زبان سے متعلق حاصل مطالعہ پیش کر رہے ہوں ۔
کیونکہ زبر زیر پیش وغیرہ کا اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن یہ بعد المشرقین بہر صورت کچھ اور ہی پتہ دے رہا ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
برادر سرسری صاحب ۔۔۔ ہمارے عربی زبان کے استاذ کے بقول یہ لسانیات کے اختلافات فقہی اختلاف سے کم نہیں:jokingly: ۔۔۔اور پھر یہ عربی زبان ہے۔۔۔۔عین ممکن ہے کہ ماہرین نے عدد کے اعتبار سے ایسی تقسیم بھی کر رکھی ہو ۔۔۔۔۔۔ ان سے نمٹنا آپ جیسے ماہرین کا کام ہے ہم تو ہر رائے کا احترام کرتے ہیں اور مزاج کے موافق رائے کو اختیار کرسے ہیں ۔۔۔کیا عجب کہ یہ بھی ایک رائے ہو۔۔۔۔مندرجہ ذیل لنک ذرا ملاحظہ کریں ۔۔۔۔
أقسام الفعل في اللغة ---http://www.dar-alhejrah.com/t7098-topic

أقسام الفعل في اللغة ثلاثة: ماضٍ ومضارع وأمر، وكل قسم منها قد يكون
بالنسبة إلى عدد حروفه ثلاثيّاً أو رباعيّاً أو خماسيّاً أو سداسيّاً.
فأية صيغة من هذه الصيغ تدخل على أولها همزة وصل؟
1. الفعل الماضي: تدخل همزة الوصل على الماضي الخماسي نحو:
(انطَلَقَ، اقْتَرَبَ)، وعلى الماضي السداسي نحو:
(استَغْفَرَ، استَعْلَى)
 
أقسام الفعل في اللغة ثلاثة: ماضٍ ومضارع وأمر، وكل قسم منها قد يكون
بالنسبة إلى عدد حروفه ثلاثيّاً أو رباعيّاً أو خماسيّاً أو سداسيّاً.
آپ نے جس ”سداسی“ لفظ کا حوالہ دیا ہے وہاں بھی موجودہ شکل کے حروف کی تعداد بتائی گئی ہے۔
:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں نے یہی عرض کیا تھا سرسری صاحب ۔کہ تعداد کی بنیاد پر تقسیم کا نقطہ نظر نا ممکنات میں سے تو نہیں ۔۔ بھلا کوئی رائے حتمی ہو جا سکتی ہے اگر ایسا ہو جائے تو ساری دنیا ایک پوائنٹ پہ متفق نہ ہو جائے۔۔۔۔ اگر نہیں تو یہ فرمادیجیے کہ یہ ثلاثی اور یہ رباعی کیا ہے کیا یہ تعداد نہیں ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مندرجا بالا مقتبس عبارت (لنک) کو ایک نقطہ نظر سمجھا جاسکتا ہے ۔۔۔ ہمارے نزدیک تو کسی ویو پواینٹ کو کشادہ دلی سے دیکھنے سے مثبت پیش رفت کا امکان زیادہ ہو تا ہے ۔۔۔۔کول ڈاؤن ہو جایئے ۔۔:lol: ۔۔ ابھی برادر محب صاحب کو بھی منانا ہے ;) ۔۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ زیر زبر کا اختلاف ہی فاعل کو مفعول بنا دیتا ہے محب اردو صاحب ۔۔۔ آپ تو خوب واقف لگتے ہیں ان سے فاعل اور مفعو ل کا فرق تو بعد المشرقین سے بھی بڑھ کر ہو گا ۔۔۔
آپ اختلاف ضرور کریں اور اور طفل مکتب سمجھ کر پس انداز کردیں اس سے آپ کی قلبی وسعت کا پتہ چلے گا ۔یہ تو قافیئے کی بحث ہے کوئی زبان دانی کا مقابلہ تھوڑاہی ہے۔۔۔۔بھلا دیکھیے نقطہ ء نظر کے اختلاف سے کتنی باتیں واضح ہو گئیں اور ہم جیسے کم مایہ کم علم افراد مستفید ہوئے۔:laugh1:
 
میں نے یہی عرض کیا تھا سرسری صاحب ۔کہ تعداد کی بنیاد پر تقسیم کا نقطہ نظر نا ممکنات میں سے تو نہیں ۔۔ بھلا کوئی رائے حتمی ہو جا سکتی ہے اگر ایسا ہو جائے تو ساری دنیا ایک پوائنٹ پہ متفق نہ ہو جائے۔۔۔ ۔ اگر نہیں تو یہ فرمادیجیے کہ یہ ثلاثی اور یہ رباعی کیا ہے کیا یہ تعداد نہیں ہے ؟۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اور مندرجا بالا مقتبس عبارت (لنک) کو ایک نقطہ نظر سمجھا جاسکتا ہے ۔۔۔ ہمارے نزدیک تو کسی ویو پواینٹ کو کشادہ دلی سے دیکھنے سے مثبت پیش رفت کا امکان زیادہ ہو تا ہے ۔۔۔ ۔کول ڈاؤن ہو جایئے ۔۔:lol: ۔۔ ابھی برادر محب صاحب کو بھی منانا ہے ;) ۔۔۔ ۔
اصل میں محب اردو صاحب نے فرمایا تھا:
افعال کی دو قسمیں ہیں :​
ثلاثی جس کے تیں حرف اصلی ہوں جیساکہ ’’ حق ‘‘ ہے اور رباعی جس کے چار حرف اصلی ہون جیساکہ ’’ زلزلہ ‘‘ ۔​
یہ تقسیم انھوں نے حروف اصلیہ کے لحاظ سے کی تھی۔
اس کے جواب میں آنجناب نے ارشاد فرمایا:
تا ہم محب اردو صاحب نے افعال کی اقسام میں ثلاثی رباعی کے ساتھ خماسی اور سداسی افعال کا ذکر نہیں کیا ۔۔۔ (جیسا کہ انطلق اور استغفر ) وغیرہم۔۔۔ ۔۔​
حالانکہ خماسی اور سداسی حروف اصلیہ کے لحاظ سے افعال کی قسمیں ہیں ہی نہیں۔
مگر چونکہ آنجناب نے حوالہ بھی دیا تھا :
[ ح ق ق ]. ( فعل : سداسي متعد ). اِسْتَحْقَّ ، يَسْتَحِقُّ ، مصدراِسْتِحْقَاقٌ .​
اس سے یہ معلوم ہورہا تھا کہ سداسی بھی افعال کی قسم ہے اور بات چل رہی تھی حروف اصلیہ کے لحاظ سے تقسیم افعال کی تو میں نے سوچا کہ وضاحت کردوں کہ افعال کی یہ دو الگ الگ تقسیمیں ہیں:
ا۔ حروف اصلیہ کے لحاظ سے: ثلاثی اور رباعی
2۔حروف کی تعداد کے لحاظ سے: ثلاثی ، رباعی ، خماسی ، سداسی وغیرہ
:):):):)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اصل میں محب اردو صاحب نے فرمایا تھا:

یہ تقسیم انھوں نے حروف اصلیہ کے لحاظ سے کی تھی۔
اس کے جواب میں آنجناب نے ارشاد فرمایا:

حالانکہ خماسی اور سداسی حروف اصلیہ کے لحاظ سے افعال کی قسمیں ہیں ہی نہیں۔
مگر چونکہ آنجناب نے حوالہ بھی دیا تھا :

اس سے یہ معلوم ہورہا تھا کہ سداسی بھی افعال کی قسم ہے اور بات چل رہی تھی حروف اصلیہ کے لحاظ سے تقسیم افعال کی تو میں نے سوچا کہ وضاحت کردوں کہ افعال کی یہ دو الگ الگ تقسیمیں ہیں:
ا۔ حروف اصلیہ کے لحاظ سے: ثلاثی اور رباعی
2۔حروف کی تعداد کے لحاظ سے: ثلاثی ، رباعی ، خماسی ، سداسی وغیرہ
:):):):)
سرسری صاحب !!! آپ کی اس پر خلوص وضآحت کی چنداں ضرورت نہ تھی ۔:)
 

حسان خان

لائبریرین
ماشاءاللہ جناب! آپ جیسے صاحبِ علم حضرات کو محفل پر ایسی معلوماتی گفتگو کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہوتی ہے۔ اگر عربی کے قواعد سے تھوڑی بہت واقفیت ہوتی تو ہم بھی یہاں ہونے والی گفتگو ٹھیک سے سمجھ لیتے اور کچھ حصہ ڈال دیتے۔
 
Top