قرۃالعین اعوان
لائبریرین
دشتِ ہجراں میں نہ سایہ نہ صدا تیرے بعد
کتنے تنہا ہیں تیرے آبلہ پا تیرے بعد
کوئی پیغام نہ دلدارِنوا تیرے بعد
خاک اڑاتی ہوئی گزری ہے صبا تیرے بعد
لب پے اک حرفِ طلب تھا نہ رہا تیرے بعد
دل میں تاثیر کی خواہش نہ دعا تیرے بعد
عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد
ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد
دھوپ عارض کی نہ زلفوں کہ گھٹا تیرے بعد
ہجر کی رت ہے کہ محبس کی فضا تیرے بعد
لیئے پھرتی ہے سرِ کوئے جفا تیرے بعد
پرچمِ تار گریباں کو ہوا تیرے بعد
پیرہن اپنا نہ سلامت نہ قبا تیرے بعد
بس وہی ہم ہیں وہی صحرا کی ردا تیرے بعد
نکہت و نے ہے نہ دستِ قضا تیرے بعد
شاخِ جاں پر کوئی غنچہ نہ کھلا تیرے بعد
دل نہ مہتاب سے اجلا نہ جلا تیرے بعد
ایک جگنو تھا چپ چاپ بجھا تیرے بعد
درد سینے میں ہوا نوحا سرا تیرے بعد
دل کی دھڑکن ہے کہ ماتم کی صدا تیرے بعد
کونسے رنگوں کے بھنور کیسی حنا تیرے بعد
اپنا خون میری ہتھیلی پے سجا تیرے بعد
تجھ سے بچھڑا تو مرجھا کے ہوا برد ہوا
کون دیتا مجھے کھلنے کی دعا تیرے بعد
ایک ہم ہیں کہ بے برگ و نوا تیرے بعد
ورنہ آباد ہے سب خلقِ خدا تیرے بعد
ایک قیامت کی خراشیں میرے چہرے پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد
اے فلکِ ناز میری خاک نشانی تیری
میں نے مٹی پہ تیرا نام لکھا تیرے بعد
تو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹا
میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد
یہ الگ بات ہے کہ افشاں نہ ہوا تو ورنہ
میں نے کتنا تجھے محسوس کیا تیرے بعد
ملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئے
کوئی چہرہ بھی نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعد
بجھے جاتے ہیں خد و خال مناظر افق
پھیلتا جاتا ہے خواہش کا خلا تیرے بعد
میرے دکھتی ہوئی آنکھوں سے گواہی لینا
میں نے سوچا تجھے اپنے سے سوا تیرے بعد
سہہ لیا دل نے تیرے بعد ملامت کا عذاب
ورنہ چبھتی ہے رگِ جاں میں ہوا تیرے بعد
جانِ محسن میرا حاصل یہی مبہم سطریں
شعر کہنے کا ہنر بھول گیا تیرے بعد
کتنے تنہا ہیں تیرے آبلہ پا تیرے بعد
کوئی پیغام نہ دلدارِنوا تیرے بعد
خاک اڑاتی ہوئی گزری ہے صبا تیرے بعد
لب پے اک حرفِ طلب تھا نہ رہا تیرے بعد
دل میں تاثیر کی خواہش نہ دعا تیرے بعد
عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد
ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد
دھوپ عارض کی نہ زلفوں کہ گھٹا تیرے بعد
ہجر کی رت ہے کہ محبس کی فضا تیرے بعد
لیئے پھرتی ہے سرِ کوئے جفا تیرے بعد
پرچمِ تار گریباں کو ہوا تیرے بعد
پیرہن اپنا نہ سلامت نہ قبا تیرے بعد
بس وہی ہم ہیں وہی صحرا کی ردا تیرے بعد
نکہت و نے ہے نہ دستِ قضا تیرے بعد
شاخِ جاں پر کوئی غنچہ نہ کھلا تیرے بعد
دل نہ مہتاب سے اجلا نہ جلا تیرے بعد
ایک جگنو تھا چپ چاپ بجھا تیرے بعد
درد سینے میں ہوا نوحا سرا تیرے بعد
دل کی دھڑکن ہے کہ ماتم کی صدا تیرے بعد
کونسے رنگوں کے بھنور کیسی حنا تیرے بعد
اپنا خون میری ہتھیلی پے سجا تیرے بعد
تجھ سے بچھڑا تو مرجھا کے ہوا برد ہوا
کون دیتا مجھے کھلنے کی دعا تیرے بعد
ایک ہم ہیں کہ بے برگ و نوا تیرے بعد
ورنہ آباد ہے سب خلقِ خدا تیرے بعد
ایک قیامت کی خراشیں میرے چہرے پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد
اے فلکِ ناز میری خاک نشانی تیری
میں نے مٹی پہ تیرا نام لکھا تیرے بعد
تو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹا
میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد
یہ الگ بات ہے کہ افشاں نہ ہوا تو ورنہ
میں نے کتنا تجھے محسوس کیا تیرے بعد
ملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئے
کوئی چہرہ بھی نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعد
بجھے جاتے ہیں خد و خال مناظر افق
پھیلتا جاتا ہے خواہش کا خلا تیرے بعد
میرے دکھتی ہوئی آنکھوں سے گواہی لینا
میں نے سوچا تجھے اپنے سے سوا تیرے بعد
سہہ لیا دل نے تیرے بعد ملامت کا عذاب
ورنہ چبھتی ہے رگِ جاں میں ہوا تیرے بعد
جانِ محسن میرا حاصل یہی مبہم سطریں
شعر کہنے کا ہنر بھول گیا تیرے بعد