اُلجھن تمام عمر یہ تار ِنفس میں تھی
دِل کی مُراد عاشقی میں یا ہوس میں تھی
در تھا کھلا،پہ بیٹھے رہے پرَ سمیٹ کر
کرتے بھی کیا کہ جائے اماں ہی قفس میں تھی
سکتے میں سب چراغ تھے ،تارے تھے دم بخود
میں اُس کے اختیار میں، وہ میرے بس میں تھی
اب کے بھی ہے ،جمی ہوئی آنکھوں کے سامنے
خوابوں کی ایک دُھند جو پیچھلے برس میں تھی
کل شب تو اس کی بزم میں ایسے لگا مجھے
جیسے کائنات مری دسترس میں تھی ، ،،