محمد احمد بھائی آپ نے میرے دل کی بات چھیڑدی ،پہلے تو اِس کا شکریہ قبول کریں۔
میرا کہنا یہ ہے کہ اِس وقت کھیلوں کی دنیا میں فٹ بال اور کرکٹ کا راج ہے۔فٹبال میں تو پاکستان کا دوردورتک اتاپتا نہیں ۔لیکن کرکٹ میں پاکستان کا نام اور ایک خاص مقام ہے ۔احمد بھائی جب ہماری ٹیم ورلڈ کپ جیسے معرکوں میں سرگرمِ عمل اور محوِ تگ وتاز ہوتی ہے تو کھلاڑی کی پرفامنس کا انحصار تو مدِ مقابل کی پر فامنس کی بنیاد پر ہوتا ہے یعنی اُس نے جس طرح بال کرائی اِس نے اُس کے مطابق اِسے ہٹ کیااوراِس کا فیصلہ میدان میں بجلی کی سی سرعت سے اِسے خود کرنا ہے جس کے لیے ایک عرصے سے جنگی بنیادوں پر مشقوں ،تربیتوں ، ریہرسلوں اور خودآزمائیوں کے بعد میدان میں اُترتا ہے اور اپنا کھیل اپنے انداز میں پیش کرتا ہے ۔
مگر ایک اور بات بڑی اہم اور بہت ضروری ہے کہ اِس کا ذاتی کردارجس میں چلنا ، اُٹھنا بیٹھنا، بولنا، مسکراہٹ ، ہنسی ،دیکھنااور اثر لینا اور ردِ عمل دینا ، حرکات و سکنات وغیرہ سب ہی کچھ آجاتا ہے تو اِس میں بھی اِسے اعلیٰ درجے کے لوگوں کی رہنمائی ، تربیت ، اخذو اکتساب اور درس و تدریس کی ضرورت ہے کہ اِس نے میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے عمل سے کیا چیز دکھانی ہے اور باڈی لیگوئج سے کیاکیا کیا کہنا ہے کہ پوری دنیا پر اِس کا اِس کی قوم کا اور اِس کے ملک کا اچھا اثر پڑے ،یہ نہ ہوکہ:
یا عمر بھر کا شوق تھا یا اک نگاہ میں
دیدار کی کلیم کو حسرت نہیں رہی