دنیا کا سب سے بُرا ملک؟

اچھی بات ہے نا یہ تو۔ مگر ہر ایک کی سوچ ایسی نہیں ہوتی۔ پاکستانیوں نے کتنے مزے سے "بورڈر" جیسی متعصب انڈین فلمیں دیکھی ہیں۔ حتیٰ کہ لوگ انہی فلموں کے گانے گاتے اور سنتے ہیں۔ زوال پذیر معاشرہ ہے نا۔۔ اپنی اساس کو اپنے نظریے کو بھول چکی ہے یہ قوم۔۔


اچھا کیا آپ نے۔
ویسے میں نے آج تک گنتی کی 10،12 انڈین فلمیں دیکھی ہونگی(اب نہیں دیکھتا(صرف انڈین)) اور رہی بات گانوں کی تو مجھ سے کوک سٹوڈیو ہی نہیں سنبھالا جاتا ان کے گانوں کو کیا کروں
 

عثمان

محفلین
مجھے یہ لائن سب سے زبردست لگی ہے۔کونکہ میں بذات خود شاہ رخ خان اور دیگر بھارتی مسلمان اداکاروں کو مسلمان نہیں سمجھتا اور یہ میری ذاتی رائے ہے ۔واللہ اعلم
پیر زادہ صاحب نے دلیپ کمار اور اے آر رحمان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا۔ اے آر رحمان تو ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
یاسر پیرزادہ صاحب نے درست ہی لکھا ہوگا۔

لیکن کوئی مجھے بتا دے کہ دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جہاں ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی بند رہتی ہو، اگر کوئی مثال نہ ملے تو پھر بھی فخر والی بات ہے کہ ہم جیسا دنیا میں کوئی نہیں۔
 
یاسر پیرزادہ صاحب نے درست ہی لکھا ہوگا۔

لیکن کوئی مجھے بتا دے کہ دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جہاں ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی بند رہتی ہو، اگر کوئی مثال نہ ملے تو پھر بھی فخر والی بات ہے کہ ہم جیسا دنیا میں کوئی نہیں۔
:cry::silent3::crying3:
 

محمد امین

لائبریرین
اس پر میں صر ف ہنس سکتا ہوں۔ یاسر پیرزادہ ابھی ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوئے ہیں۔



جی تو ہم جیسے جاہل تو انڈیا سے ہی موازنہ کرتے ہیں اپنے ملک کا۔ ٹیکنولوجی میں پاکستان انڈیا کے آس پاس بھی نہیں ہے۔ انڈیا میں ہر بڑی ٹیکنولوجی کمپنی کا دفتر موجود ہے، پاکستان میں اکا دکا اور وہ بھی بھاگ رہے ہیں۔ انڈیا میں آئی ٹی کے لیے مخصوص شہر ڈیویلپ کیے گئے ہیں اور آسائشیں دی جاتی ہیں۔ صنعتی شعبہ انڈیا میں زیادہ مضبوط ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کا ایک بہت بڑا حصہ بنگلہ دیش چلا گیا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں پاکستانی صنعتکاروں نے بھی اپنی صنعتیں بنگلہ دیش منتقل کر لی ہیں۔

بچوں والا مضمون لکھا ہے جناب نے۔۔۔

محمد امین یار تم توقع سے زیادہ قنوطیت پسند واقع ہوئے ہو اور یہ بھی ایک خطرناک مسئلہ ہوتا ہے کہ آپ کو حد سے زیادہ منفی رخ نظر آنے لگتا ہے چیزوں کا۔

بھارت میں کتنی ترقی اور کب سے ہوئی ہے اس پر کبھی غور کیا ہے اور کتنے لوگ خط غربت سے نیچے ہیں ، اس کا کچھ اندازہ ہے۔

یورپ میں اس وقت غربت اور لوگوں کی کیا حالت ہے ، اس پر کبھی تحقیق کرنے کی زحمت کی ہے ؟
 
یہ کرشمے ان چار سالوں میں نہیں ہوئے۔ میں اپنے بچپن سے یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ ہاں اب آبادی کے شہروں میں influx کی وجہ سے یہ تعداد زیادہ نظر آتی ہے کیوں کہ گاؤں میں رہنے، کمانے اور زراعت وغیرہ پر انحصار کرنے والے شہروں میں آ کر کوئی کام نہیں پاتے۔ اور اکثر گاؤں کے ان پڑھ افراد کے یہاں غالباً یہ رواج ہے کہ مرد کام نہیں کرتے تو عورتیں بیچاری یا تو شہروں میں گھروں میں کام کرتی ہیں یا بھیک مانگتی ہیں۔ ایسی زندہ مثالیں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔

ہمارے گھر میں کام کرنے جو خاتون آتی ہیں انکا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ مجھے ڈبل ڈبل کام کرنا پڑتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی لڑکی کو بھی لگانا پڑتا ہے کیوں کہ میرا شوہر گاؤں میں رہتا ہے اور کام نہیں کرتا۔ ان کے یہاں مردوں میں کام کرنے کا رواج ہی نہیں،۔

بہرحال یہ پھر جملۂ معترضہ تھا۔

ماشاءللہ امین پھر آپ نے جزو کو کل پر گمان کرکے نتائج اخذ کر لیے ہیں۔

یہ زندہ مثالیں آپ کو ہر جگہ اور ہر خطہ میں مل جائیں گی مگر یہ عمومی رویہ نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں بھی جو کام کرتی ہیں ان کے شوہر کی نوکری چلی گئی تھی اس وجہ سے انہیں کام کرنا پڑا اور پھر مہنگائی اور حالات نے کبھی اس رخ پر آنے ہی نہیں دیا کہ صرف ایک شخص کی کمائی سے گھر چل سکے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کا کوئی دیپ جلاتے جاتے

مگر تنقید کرنا آسان کام بھی اور احساس کمتری ، احساس جرم اور کاہلی کی اس سے پردہ پوشی بھی ہوجاتی ہے
جن کو تاریک رُخ دیکھنے کی عادت ہو اُن سے ہمدردی کی جاسکتی ہے بحث نہیں
 

عثمان

محفلین
عزیزم محمد امین ، جو پاکستان میں رہتے ہیں ، اس کی سختیاں جھیلتے ہیں ، اس کی معشیت کا پہیہ چلاتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ وہ اب بیرونی محب الوطن سے کوسنے سنیں گے۔ :eek:
 

محمد امین

لائبریرین
ماشاءللہ امین پھر آپ نے جزو کو کل پر گمان کرکے نتائج اخذ کر لیے ہیں۔

یہ زندہ مثالیں آپ کو ہر جگہ اور ہر خطہ میں مل جائیں گی مگر یہ عمومی رویہ نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں بھی جو کام کرتی ہیں ان کے شوہر کی نوکری چلی گئی تھی اس وجہ سے انہیں کام کرنا پڑا اور پھر مہنگائی اور حالات نے کبھی اس رخ پر آنے ہی نہیں دیا کہ صرف ایک شخص کی کمائی سے گھر چل سکے۔

کیوں کہ میرا شوہر گاؤں میں رہتا ہے اور کام نہیں کرتا۔ ان کے یہاں مردوں میں کام کرنے کا رواج ہی نہیں،۔
محب بھائی جزو کو کل پر قیاس نہیں کیا، انہی خاتون کا جملہ یہاں دہرایا ہے۔۔۔ بہرحال ایسا بھی نہیں ہے کہ سارے ہی لوگ ایسے ہوتے ہوں۔ میں نے فقط مثال پیش کی ،،

محمد امین یار تم توقع سے زیادہ قنوطیت پسند واقع ہوئے ہو اور یہ بھی ایک خطرناک مسئلہ ہوتا ہے کہ آپ کو حد سے زیادہ منفی رخ نظر آنے لگتا ہے چیزوں کا۔

بھارت میں کتنی ترقی اور کب سے ہوئی ہے اس پر کبھی غور کیا ہے اور کتنے لوگ خط غربت سے نیچے ہیں ، اس کا کچھ اندازہ ہے۔

یورپ میں اس وقت غربت اور لوگوں کی کیا حالت ہے ، اس پر کبھی تحقیق کرنے کی زحمت کی ہے ؟

منفی تو اس لیے لگ رہا ہے آپ کو کہ میں نے تنقید کی۔ کراچی کی بے مثال ترقی والے دور کا ذکر بھی تو کیا میں نے، آپ نے اس کی ستائش نہیں کی:) کیوں کہ دراصل ہم منفی پہلو ہی دیکھنے کے عادی ہیں کیوں کہ معاشرہ ہی منفی ہے۔

یورپ سے پاکستان کا تقابل کریں گے اب یورپ پر ایسا وقت آگیا ہے؟؟
 

محمد امین

لائبریرین
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کا کوئی دیپ جلاتے جاتے

مگر تنقید کرنا آسان کام بھی اور احساس کمتری ، احساس جرم اور کاہلی کی اس سے پردہ پوشی بھی ہوجاتی ہے
جن کو تاریک رُخ دیکھنے کی عادت ہو اُن سے ہمدردی کی جاسکتی ہے بحث نہیں

زحال بھائی۔ مجھے اپنے وطن سے محبت ہے جبھی تو میں یہاں رہتا ہوں، باوجود ہزار مشکلات کے (یہ الگ بات ہے کہ کوئی موقع بھی نہیں ملا باہر جانے کا)۔۔۔ میں اچھی چیزوں کی ستائش بھی کرتا ہوں۔ حقیقت پسندی اور حقیقت پوشی میں فرق ہوتا ہے۔ جو جو باتیں میں بیان کرتا ہوں وہ ایک آدھ دفعہ کا ذکر نہیں ہوتا۔،ایک تسلسل ہے ہماری نالائقیوں اور جہالت میں۔۔ میں اس بات کو ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگا رہا کہ پاکستان سب سے برا ملک ہے۔ جب کہ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ پاکستان کیسا ہے۔ کیوں کہ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت نہیں بدلتی، حقیقت کا ادراک کرنے سے بدلتی ہے۔۔

عزیزم محمد امین ، جو پاکستان میں رہتے ہیں ، اس کی سختیاں جھیلتے ہیں ، اس کی معشیت کا پہیہ چلاتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ وہ اب بیرونی محب الوطن سے کوسنے سنیں گے۔ :eek:

ہاہاہا عثمان بھائی ایسے نہیں بولیں
 

زبیر مرزا

محفلین
زحال بھائی۔ مجھے اپنے وطن سے محبت ہے جبھی تو میں یہاں رہتا ہوں، باوجود ہزار مشکلات کے (یہ الگ بات ہے کہ کوئی موقع بھی نہیں ملا باہر جانے کا)۔۔۔ میں اچھی چیزوں کی ستائش بھی کرتا ہوں۔ حقیقت پسندی اور حقیقت پوشی میں فرق ہوتا ہے۔ جو جو باتیں میں بیان کرتا ہوں وہ ایک آدھ دفعہ کا ذکر نہیں ہوتا۔،ایک تسلسل ہے ہماری نالائقیوں اور جہالت میں۔۔ میں اس بات کو ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگا رہا کہ پاکستان سب سے برا ملک ہے۔ جب کہ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ پاکستان کیسا ہے۔ کیوں کہ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت نہیں بدلتی، حقیقت کا ادراک کرنے سے بدلتی ہے۔۔
ہاہاہا عثمان بھائی ایسے نہیں بولیں
امین بھائی میں نے آپ کو ہر گز مخاطب کرکے بات نہیں کی تھی :) آپ کے جذبے اور خلوص میں کوئی شک نہیں
رہی بات کچھ کی جہالا کی تو میں نظرانداز کرچکا ہوں آپ اپنا جملہ ضائع نہ کریں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
پاکستان دنیا کا سب سے بُرا ملک بہرحال نہیں ہے، بس یہ ہے کہ یہاں بُرے لوگ تعداد میں کم ہونے کے باوجود اچھوں پر غالب ہیں۔ اگر ایک دفعہ قیادت اچھے لوگوں کے پاس آگئی تو عوام میں جو لوگ غلط حرکتیں کر بھی رہے ہیں وہ بھی راہِ راست پر آ جائیں گے، کچھ ڈنڈے سے اور کچھ صبح کے بھولے کی طرح۔ :)

ہمارے مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں سو کبھی کبھی محبت کرنے والی ماں کی طرح اولاد کے عیب نظر نہیں آتے۔ پھر بھی جہاں جراحت کی ضرورت ہو، وہاں سادہ طریقہ ء علاج کارگر نہیں رہتا۔ سو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ حقیقت پسندی اور اُمید دونوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ کچھ غلط ہے تو اس کا ادراک حاصل کریں تاکہ اس کا تدارک بھی کیا جا سکے۔
 

ساجد

محفلین
تاریخ کی یہ منادی ہے کہ جب کسی قوم میں نظریاتی زوال وسیع تر ہو جائے اور اس کے اربابِ بست و کشاد اپنی قوم سے غافل ہو کر عیش و عشرت میں پڑ جائیں تو ایسے میں قوم کی تسبیح کے دانے بکھرنا شروع ہو جایا کرتے ہیں۔ سیاسی طور پر مرکز گریزی ، جغرافیائی لحاظ سے تقسیم اور نظریاتی لحاظ سے پسپائی اس قوم کے اکثر افراد میں سرایت کر جایا کرتی ہے۔
یہی وہ مقام ہوتا ہے جب اپنی دھرتی اور قوم سے وفاداروں کو اپنے اعصاب کو مضبوط رکھنے کے لئے چو مکھی لڑنا پڑتی ہے ، داخلی طور پر اپنے حکمرانوں سے اور خارجی طور پر استحصالی قوتوں سے۔ امید ایک دیا ہے جس کی لو پھڑا پھڑاتی تو ہے لیکن یہ بجھتا کبھی بھی نہیں اور امید کا یہی دیا ایک دن قوم کے افراد کو اس قابل کرتا ہے کہ وہ ان اعصاب شکن حالات کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کر جاتے ہیں۔
حقائق سے نظریں چرانے سے بڑا دھوکہ کوئی نہیں ہوا کرتا۔ پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں وہ یاسر پیرزادہ کے بھارت سے تقابل کرنے سے بدل نہیں جائیں گے لیکن مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں کہ دیا ابھی جل رہا ہے اور اس دھاگے پر پیش کئے گئے پر امید جوابی مراسلات اس کا عندیہ دیتے ہیں۔
 
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستانی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ان خبروں کا از خود نوٹس لیا ہے جن میں ان کے بیٹے پر ایک کاروباری شخصیت سے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کا فائدہ حاصل کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

کیا اس خبر سے کوئی نئی امید کی شمع روشن نہیں ہو رہی؟

پاکستان جیسے ملک میں جو انصاف سے بالکل "پاک" ہے اس میں ایسی خبر کس طرف اشارہ کرتی ہے؟
 
1101541142-1.jpg
1101541142-2.gif
 
Top