بہت اچھے۔ اگر اس موضوع پر کہیں سے کوئی اچھی کتاب ملے تو اس کا مطالعہ بہت مفید ہو گا کیونکہ انقلاب فرانس کا مضمون حبس شدہ معاشروں کے اسباب اور ان کے ممکنہ مستقبل کی بہترین مثال لئے ہوئے ہے۔ متوازن مگر بے خون مضمون ہے
وگرنہ انقلاب فرانس دنیا بھر کے انقلابات میں جانا مانا خونی انقلاب ہے۔اور تھکاوٹ کے باوجود اگر ایک نظر دوبارہ ڈال لیتیں تو ٹائپنگ کی غلطیاں باآسانی پکڑی جاتیں ، ٹاپنگ کی غلطیوں سے تحریر کا اثر اور قاری کی دلچسپی دونوں کم کر دیتا ہے۔ بہرحال آئندہ بھی ایسے ہی اچھے مضامین کی امید ہے کہ بندہ ڈکشنریوں میں سر کھپانے کی بجائے اردو میں باآسانی پڑھ لیتا ہے
۔
میری رائے میں انقلاب فرانس دراصل اس تصویر کی مکمل فلم کہی جا سکتی ہے جس میں ایک احتجاج کے دوران ایک خاتون نے کتبہ اٹھا رکھا ہے اور اس پر درج ہے "ایک دن آئے گا کہ غریب کے لئے کھانے کو کچھ نہیں ہو گا مگر امیر"
انقلاب فرانس میں خواتین کا کردار بھی انتہائی اہم رہا ہے۔ بلکہ بعض تو اس کے خونی ہونے کا الزام ہی ایک خاتون یعنی ملکہ فرانس اور ایک انقلابی خاتون (نام بھولتا ہوں) کو دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ملکہ فرانس نے جب محل کے باہر شور شرابے کی بابت پوچھا تو جواب ملا کہ لوگ ڈبل روٹی مانگتے ہیں اور وہ نہیں ملتی تو ملکہ نہ جواب دیا کہ انھیں کہو کہ ڈبل روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائیں (اگرچہ اس واقعہ کو مورخین درست نہیں مانتے مگر اناج پر بھاری ٹیکس کو اس احتجاج کی وجہ بیان کیا جاتا ہے ) ، بس جی پھر وہ کیک کھائے عوام نے کہ پوچھیں ۔ ایک اسٹیج تیار کیا گیا اور ادھر بندہ یا بندی لا سر ٹوکری میں دھڑ ادھر ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ لوگوں کے غصے کا یہ عالم تھا کہ محض نرم ہاتھ دیکھ کر اسے امراء میں شمار کیا جاتا اور پھر لے چلتے مقتل کو۔