دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت ضروری نہیں : چیئرمین اسلامی نظریہ کونسل

arifkarim

معطل
میرے خیال میں دبئی پولیس کا لڑکی کو گرفتار کرنا اسلامی قانون کے مطابق نہیں لگتا۔ اور امارات میں غالباً سارے قوانین اسلامی ہیں بھی نہیں۔
اس لڑکی کی داد رسی ہونی چاہئے تھی۔ بجائے اسکے کہ اسلامی قوانین کا مذاق اڑوایا جاتا۔

میں نے یہاں کسی اسلامی شرعی قانون کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ ایک مثال کیساتھ یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح ان شرعی قوانین کا استعمال کرکے نظام عدل کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اس لڑکی کو اسلامی قوانین کے ہی تحت گرفتار کیا گیا تھا:
Muslim jurists will only accept four male witnesses. These witnesses must declare that they have "seen the parties in the very act of carnal conjunction." Once an accusation of fornication and adultery has been made, the accuser himself or herself risks punishment if he or she does not furnish the necessary legal proofs. Witnesses are in the same situation. If a man were to break into a woman's dormitory and rape half a dozen women, he would risk nothing since there would be no male witnesses. Indeed the victim of a rape would hesitate before going in front of the law, since she would risk being condemned herself and have little chance of obtaining justice. "If the woman's words were sufficient in such cases," explains Judge Zharoor ul Haq of Pakistan, "then no man would be safe."

http://www.americanthinker.com/blog/2013/07/how_sharia_rapes_justice.html
 
تصویر کے اس رخ کو مت دیکھئے، وہ لڑکی بار میں کسی ایسے شخص سے دوستی کیوں کرتی ہے اور مدھوش کیوں ہوئی کہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیاجاسکے۔
تو پھر اسکو شراب نوشی کی سزا ملنی چاہئے تھی صرف، اسکا ریپ ہونے پر اسکی داد رسی ضروری تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بے شک اسلامی قوانین تا قیامت وہی رہیں گے جو آج سے 1400 سال نازل ہو چکے ہیں۔ البتہ انکو دور جدید میں لاگو کرتے وقت بہت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ابھی سال پہلے کا ہی واقعہ ہے کہ ایک نارویجن لڑکی دبئی میں اپنے کام کے سلسلہ میں ٹور پر گئی۔ وہاں کسی اور غیر ملکی نے اسکے ساتھ شراب کے نشے میں زبردستی زناکاری کا گناہ کیا۔ بیچاری کو ان 1400 سال پرانے اسلامی قوانین کا علم نہیں تھا۔ اسنے اس بدفعلی کیخلاف پولیس میں رپورٹ درج کرادی۔ جوابا دبئی کی پولیس نے اسکو عدل فراہم کرنے کی بجائے الٹا زناکاری کے الزام میں اندر کر دیا۔ یہ کیس یونہی ختم ہو جاتا اگر نارویجن میڈیا اس کیس کو نہ اچھالتا۔ نتیجتا دبئی کے حاکم اعلیٰ کو دبئی کی بین الاقوامی امیج بچانے کیلئے کیس میں موجود تمام فریقین کو عام معافی دینی پڑی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Prosecution_of_Marte_Dalelv#Pardon
اس کیس میں اسلامی قوانین کیا کہتے ہیں اور پولیس کیا کہتی ہے، یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔ جو کچھ بھی پولیس والوں نے کیا یہ ان کا ذاتی فعل ہے جس کے لیے انہیں اللہ کی عدالت میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔
 
میں نے یہاں کسی اسلامی شرعی قانون کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ ایک مثال کیساتھ یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح ان شرعی قوانین کا استعمال کرکے نظام عدل کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اس لڑکی کو اسلامی قوانین کے ہی تحت گرفتار کیا گیا تھا:
آپ نے یقینآ مذاق نہیں اڑایا لیکن دبئی پولیس کے کرتوت سے ضرور لوگوں کو موقع ملا اڑانے کا۔
 

arifkarim

معطل
تصویر کے اس رخ کو مت دیکھئے، وہ لڑکی بار میں کسی ایسے شخص سے دوستی کیوں کرتی ہے اور مدھوش کیوں ہوئی کہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیاجاسکے۔

نشہ اور مدہوشی کے علاوہ عام حالات میں ہونے والا زبردستی کا زنا (ریپ) کیلئے بھی یہی قوانین ہیں کہ جب تک وہ مظلوم عورت 4 مرد گواہ نہ لائے اسوقت تک ظالم ملزمان کو سزا نہیں مل سکتی۔
 
میں نے یہاں کسی اسلامی شرعی قانون کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ ایک مثال کیساتھ یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح ان شرعی قوانین کا استعمال کرکے نظام عدل کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اس لڑکی کو اسلامی قوانین کے ہی تحت گرفتار کیا گیا تھا:
ریپ کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے میں انشآاللہ تلاش کر کے پیش کروں گا۔
 

x boy

محفلین
تو پھر اسکو شراب نوشی کی سزا ملنی چاہئے تھی صرف، اسکا ریپ ہونے پر اسکی داد رسی ضروری تھی۔

اگر کوئی اپنے گرل فرینڈ کو لے جائے تو اس میں گورنمنٹ کا کیا قصور، جس معاشرے سے وہ آئی ہے وہاں کی معمولی باتیں ہیں،
یہاں کی پولیس تو ایک ایسے با اثر شخص کو موت کی سزا دے چکی ہے جو قریب ایک یا دو سال قبل پیش آیا تھا اور انصاف ملنے والا بھی پاکستانی پختون تھا اور اس کو گورنمنٹ میں جاب پر بھی رکھ لیا۔
 

arifkarim

معطل
لطیفہ دیکھئے کہ 18 سال سے کم عمر کو ووٹ دینے کا حق نہیں، گاڑی چلانے کا حق نہیں، بینک اکاونٹ خود سے نہیں کھول سکتے، ایک طرح سے ان کا ہر فعل مشروط ہوتا ہے، لیکن شادی جیسے اہم فیصلے پر ان کی رائے جائے بھاڑ میں، چاہیں تو پانچ سال کی عمر میں نکاح کرا دیں
بائی دی وے، اسلامی نکتہ نظر سے شادی اور نکاح میں کیا فرق ہے اور کیا اسلام ان دو امور کو الگ الگ شمار کرتا ہے؟ قرآن و حدیث سے حوالہ ہو تو بہتر ہے :)

یہ اسلئے کہ ووٹ دینا، گاڑی چلانا، بینک اکاؤنٹ کھولنا وغیرہ دور جدید میں ممکن ہوئے ہیں اور 1400 سال پہلے جب اسلامی شرعی قوانین بنے اسوقت یہ سب موجود ہی نہیں تھے یوں اسلامی قوانین ان پر کیسے لاگو ہو سکتے ہیں؟ البتہ شادی، نکاح وغیرہ تو دور اول سے ہوتا رہا ہے اسلئے یہ جاہل علماء دور جدید کے حالات کو دیکھے بغیر 1400 سال پرانے عرب کے سحراؤں کے قوانین ہر جدید مسلمان معاشرہ پر زبردستی لاگو کرنا چاہتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
دل درد مند کی عکاس ہے یہ "خبر "
عوام پاکستان کا سب سے بڑا " مسلہ " یہی شادی ہی تو ہے ۔۔ جس نے پاکستانی " پابند شرع " معاشزرے میں فتور پھیلا رکھا ہے ۔
جہاں ہر " دو " اصناف کی پہلی " شادی " کی تیاریاں کرتے عمریں گزر جائیں ۔ وہاں " دوسری شادی " کا مسلہ اس قدر اہم ہے ۔۔۔۔؟

ایسی مثال تو عام ہے کہ دوسری شادی کی اجازت اکثر " بیگمات " خود ہی دے دیتی ہیں کہ " کسی پیسے والی " کا دکھ بٹاؤ ۔ اسے گھر لاؤ ۔ اپنا گھر بناؤ ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کہاوت ہے نا کہ جیسے عوام ویسے حکمران، دراصل جیسا ایمان ہم چاہتے ہیں، ویسا ہی ایمان اور ویسا ہی دین ہمیں "علماء" کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے۔ یعنی ہائلی کسٹمائزڈ
اب علماء بنوری ٹاؤن والے لنک سے ایک اقتباس
اسلام نے بیویوں کی تعداد میں تحدید کردی ہے کہ کوئی بھی مسلمان بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، اس کے برعکس باندیوں کے رکھنے اور اس سے استمتاع کرنے کے سلسلے میں کوئی تحدید نہیں رکھی ہے، یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، جس کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے، یہ آزادی اسلام کی مصلحت پر مبنی ہے، ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قیدیوں کی تعداد ایک دو نہیں سینکڑوں اور ہزاروں میک ہوتی ہے، ان میں لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد بھی خاصی ہوتی ہے، اسلام انہیں یک لخت قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، بہ شکل مجبوری اسلام انہیں لوگوں میں بانٹ دیتا ہے، تاکہ ان کی پرورش وپرداخت بھی ہوتی رہے اور دشمن کا غرور بھی ٹوٹے، اب غور کیا جائے کہ لونڈیوں کے رکھنے یا اس سے تمتع حاصل کرنے کی تحدید کردی جاتی تو باقی لونڈیوں کا حال کیا ہوتا، وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی جذبات وخواہشات ہیں، ان کی تکمیل کے لئے وہ ادھر ادھر تاک جھانک کرتیں، اس سے معاشرہ میں مزید برائی پھیلتی، اس لئے اسلام نے معاشرہ کو پاک وصاف رکھنے کے لئے صرف ان کے مالکوں کو ہی حکم دیا کہ ان سے چاہو تو تمتع کرو، یا انہیں آزاد کرکے اپنے نکاح میں رکھ لو یا پھر ان کی شادی کسی دوسری جگہ کردو، اس طرح ان کی اچھے طریقے سے کفالت بھی ہوجائے گی اور برائی پھیلنے کا جز خدشہ ہے اس کا بھی انسداد ہوجائے گا۔
اب ذرا کوئی "صاحبِ ایمان" یہ تو واضح کرے کہ اسلام میں آزاد لڑکیوں اور عورتوں کو ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لونڈی بنانے کی تُک کیا ہے؟ کیا دشمن کا غرور توڑنے کے لئے ان کی خواتین ہی ملتی ہیں؟ کیا مردوں کی طرح جنگ لڑنے اور دشمن کا غرور توڑنے یا جہاد کا حکم باطل ہو چکا ہے؟
 

زیک

مسافر
کہاوت ہے نا کہ جیسے عوام ویسے حکمران، دراصل جیسا ایمان ہم چاہتے ہیں، ویسا ہی ایمان اور ویسا ہی دین ہمیں "علماء" کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے۔ یعنی ہائلی کسٹمائزڈ
اب علماء بنوری ٹاؤن والے لنک سے ایک اقتباس

اب ذرا کوئی "صاحبِ ایمان" یہ تو واضح کرے کہ اسلام میں آزاد لڑکیوں اور عورتوں کو ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لونڈی بنانے کی تُک کیا ہے؟ کیا دشمن کا غرور توڑنے کے لئے ان کی خواتین ہی ملتی ہیں؟ کیا مردوں کی طرح جنگ لڑنے اور دشمن کا غرور توڑنے یا جہاد کا حکم باطل ہو چکا ہے؟
اسی اقتباس میں اس حصہ کی نشاندہی ضروری ہے:

غور کیا جائے کہ لونڈیوں کے رکھنے یا اس سے تمتع حاصل کرنے کی تحدید کردی جاتی تو باقی لونڈیوں کا حال کیا ہوتا، وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی جذبات وخواہشات ہیں، ان کی تکمیل کے لئے وہ ادھر ادھر تاک جھانک کرتیں، اس سے معاشرہ میں مزید برائی پھیلتی، اس لئے اسلام نے معاشرہ کو پاک وصاف رکھنے کے لئے صرف ان کے مالکوں کو ہی حکم دیا کہ ان سے چاہو تو تمتع کرو
یہاں ایسے ظاہر ہو رہا ہے جیسے یہ تعلقات لونڈیوں کی مرضی سے ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ آزاد نہیں اور مالک کو انکار کرنے کا حق انہیں حاصل نہیں۔ یہ ہر طور زنا بالجبر ہے۔
 

زیک

مسافر
اگر کم عمری میں شادی اور دوسری شادی کی کھلی اجازت کی بات مغرب میں کسی نے کی ہوتی تو اسے اسلام دشمنی گردانا جاتا مگر یہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے۔ لگتا ہے یہی عین اسلام ہے!
 

قیصرانی

لائبریرین
اسی اقتباس میں اس حصہ کی نشاندہی ضروری ہے:


یہاں ایسے ظاہر ہو رہا ہے جیسے یہ تعلقات لونڈیوں کی مرضی سے ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ آزاد نہیں اور مالک کو انکار کرنے کا حق انہیں حاصل نہیں۔ یہ ہر طور زنا بالجبر ہے۔
مجھے اس بات پر شدید حیرت ہوتی ہے کہ نبی پاک ص نے ہر ایسے فعل کو ذاتی طور اپنا کر دکھایا ہے کہ یہ چیز جائز ہے۔ پھر ان کے ہاں لونڈیوں کی قطاریں کیوں نہیں دکھائی دیتیں؟
مندرجہ بالا اقتباس جس صفحے سے لیا گیا ہے، وہاں اور بھی کمال چیزیں لکھی ہیں:
اسلام نے دنیا کے رائج نظام سے ہٹ کر غلاموں کے متعلق اپنی ایک الگ راہ نکالی اور اس میں اتنی لچک اور وسعت پیدا کردی کہ نام کی تو غلامی رہ گئی، مگر ان کے سارے حقوق آزاد انسانوں کے برابر ہوگئے، وہ اپنے آقا کی ماتحتی میں بغیر کسی فکر اور خوف کے زندگی کے شب وروزگزارتے تھے اور اپنی خدمات سے معاشرہ کے لئے کار گر ثابت ہوتے
گویا کہ اسلام نے آزاد اور غلام میں کوئی فرق ہی نہ رہنے دیا۔
ام ولد
اگر باندی سے آقا نے مجامعت کی اور اسے حمل ٹھہر گیا، یہاں تک کہ اس نے صحیح سالم تندرست یا کم زور بچہ جنا یا اس کا اسقاط ہوگیا یا اس نے مردہ بچہ کو جنا تو وہ آقا کے انتقال کے بعد آزاد ہوجائے گی اور بچہ آقا کا ہی شمار کیا جائے گا اور اگر بچہ زندہ رہا تو اپنے والد کا وارث ہوگا، اب مالک نہ تو باندی کو فروخت کرسکتا ہع اور نہ ہبہ، خلفائے اربعہ کے عہد میں بھی اس پر بہ کثرت عمل ہوتا تھا
اوپر والا قطعہ ایک شاندار مثال ہے کہ جو چیز نبی پاک ص کے دور سے واضح نہیں، اسے خلفائے اربعہ کا نام دے کر حلال کر دیا :)
 

arifkarim

معطل
یہاں ایسے ظاہر ہو رہا ہے جیسے یہ تعلقات لونڈیوں کی مرضی سے ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ آزاد نہیں اور مالک کو انکار کرنے کا حق انہیں حاصل نہیں۔ یہ ہر طور زنا بالجبر ہے۔

یہ نام نہاد علما پچھلے 1400 سال سے بے بنیاد حالت جنگ میں ہیں۔ ذرا سوچئے اگر بھارت میں انکا شرعی نظام نافذ ہوتا اور 1971کی جنگ کے 90000 پاکستانی قیدیوں میں موجود خواتین کیساتھ لونڈیوں اور باندیوں جیسا سلوک کیا جاتا تو انکو کیسا لگتا؟
 

x boy

محفلین
1618447_282315455264641_456016489_n.jpg
 

آبی ٹوکول

محفلین
ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں مرد کی دوسری شادی کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے وجہ اسکی اس خطے کی قدیم تہذیبی روایات ہوسکتی ہیں وگرنہ عربوں میں تو یہ ایک نارمل بات ہے اور مزے کی بات یہ ہے خود پاکستان میں صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں کے بعض دیہاتوں میں رسما مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے اور اس میں اسکی پہلی بیویوں کی رضا مندی برضا ورغبت ہوتی ہے باقی واللہ اعلم
 

زیک

مسافر
مزید یہ کہ خواتین کی شرح مردوں کی نسبت زیادہ ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے خاص کر ایشیائی ممالک میں۔
پاکستان میں 15 سے 64 سال کے مردوں کی تعداد: 6 کروڑ 16 لاکھ
اسی عمر کی عورتوں کی تعداد: 5 کروڑ 76 لاکھ

لہذا پاکستان میں عورتوں کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت ہونی چاہیئے۔
 
Top