محترم آفتاب اقبال صاحب اپنے ٹی وی پروگرام میں عموماً غلط العام اور غلط العوام الفاظ کے حوالے سے بات کرتے رہتے ہیں۔ اور عام ناظرین میں ان کی بات کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ بعض اوقات بغیر حوالوں کے اور غلط بات بھی کر جایا کرتے ہیں۔ اور ایک ایسے فرد کی جانب سے غلط سبق پڑھایا جانا اردو کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔
یہ معاملہ بھی مجھے کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ البتہ اس پر اہلِ علم کی رائے درکار ہے، کہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔
آفتاب اقبال صاحب نے اپنے ایک پروگرام میں یہ محاورہ سنا کر دعویٰ کیا ہے کہ اس محاورہ میں لفظ کُتا نہیں بلکہ کَتا ہے، جس کا مطلب دھوبی کا لکڑی کا ڈنڈا ہے۔ اور کُتا کا استعمال اس محاورہ میں غلط العام بلکہ کاتب کی غلطی ہے۔
ایک فیس بک گروپ نے جب کسی نے یہ پوسٹ کی تو مجھے اطمینان نہ ہوا، اور کچھ تحقیق کی۔
نوراللغات کو کھنگالا تو یہاں بھی کُتا ہی ملا
فرہنگِ آصفیہ جو دیکھی تو اس میں ک پر حرکت نہیں تھی، البتہ مفہوم سے کُتا ہی معلوم ہوا
اردو لغت بورڈ کی
لغت کبیر میں بھی کُتا ہی ہے۔
اور اسی میں سند کے طور پر میر کا شعر لکھا ہے، اس سے بھی کُتا ہی معلوم ہوتا ہے۔
اب میں نہیں مان سکتا کہ مستند ترین لغات اور مستند ترین شاعر ایک ہی غلطی کے مرتکب ہوئے ہوں۔ اگر میں غلطی پر ہوں تو تصحیح کیجیے۔