معروف کالم نگار عامر خاکوانی لکھتے ہیں:
قندوز میں شہید ہونے والے ننھے بچوں کی تصاویر دیکھ کر دل لہو سے بھر جاتا ہے۔ ایک نہایت معصوم پیارے لڑکے کی تصویر تو آنکھ بھر کر دیکھی نہیں گئی۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ یہ ظلم عظیم ہے۔ جہاں نہتے معصوم شہری نشانہ بنیں، افسوس ہوتا ہے۔ کابل میں ہونے والے کسی خود کش دھماکے میں شہری ہلاک ہوں تو وہ لہو رنگ تصاویر بھی اداس کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ڈرون حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں نے تو ہم پاکستانیوں کو ذہنی مریض بنا دیا۔ قندوز پر ہونے والا حملہ اس اعتبار سے زیادہ شدید اور انتہائی شرمناک ہے کہ یہاں حملہ کرنے والوں کو علم تھا کہ چھوٹے بچے اور معصوم حفاظ کرام یقینی طور پرنشانہ بن رہے ہیں۔ بدبخت امریکیوں اور افغان فوجیوں نے یہ حملہ کر کے اپنی سنگ دلی کا مظاہرہ کیا۔ غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔ ہم اور کچھ نہ کر سکیں، کھل کر ظالموں پر نفیر تو بھیج سکتے ہیں۔
اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے اور مقتولین کے ورثا کو صبر دے۔ اولاد کی موت بہت بڑی آزمائش ہے۔ رحم کر، مولا رحم کر، اس خون سے رنگیں خطے پر اپنا خاص کرم فرما۔ آمین۔
پس نوشت :
امریکی حملے کے حمایت کرنے والے بعض حلقے عوامی لعن طعن سے بچنے کے لئے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس تقریب میں کئی طالبان کمانڈروں کو بطور مہمان خصوصی بلایا گیا تھا۔ بھائی طالبان اتنے احمق ہیں کہ وہ قندوز کی ایک پبلک تقریب میں مہمان بن کر پہنچ جائیں گے اور وہ بھی کوئٹہ شوریٰ کے اکٹھے آٹھ دس ارکان۔ امریکی کتوں کی طرح افغان طالبان کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کن ایام ہیں، امریکی اگر طالبان لیڈر شپ کو مارنے میں کامیاب ہوگئے تو مذاکرات میں ان کا پلہ بھاری ہوجائے گا۔ ایسے میں طالبان کمانڈر ایسی حماقت کیسے کر سکتے ہیں کہ ایک تقریب میں با جماعت پہنچ جائیں۔ جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں وہ گوریلا جنگ کے ابجد سے ہی واقف نہیں۔
براہ کرم مجھے کسی مغربی ویب سائٹ کا حوالہ نہ دیجئے گا، کہ ان کی ’’رپورٹنگ‘‘ ہماری آزمائی ہوئی، دیکھی بھالی ہے۔ نائن الیون کے بعد سے سترہ برس ہوگئے ، یہی رپورٹنگ ہی دیکھ رہے ہیں۔