قندوز کے مقتول حفاظ
آصف محمود
فلسطین میں لاشے گرنے کا دکھ ابھی صحیح طریقے سے محسوس بھی نہ ہوا تھا کہ
کشمیر خوں میں نہا گیا ۔ کشمیر کی تکلیف کا احساس ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ
قندوز میں ہمارے بچوں کو کاٹ کر پھینک دیا گیا۔
آنکھوں میں چمک اور سینوں میں قرآن کا نور لیے یہ کتنے پیارے وجود تھے ، قندوز کے ایک مدرسے میں لوتھڑوں کی صورت جو بکھر گئے۔ سمجھ نہیں آ رہی ان معصوم لاشوں کا ماتم کیا جائے یا اس قتل عام پر اختیار کی گئی مجرمانہ خاموشی پر۔ امریکہ سے کیا گلہ کہ اس کی تو تاریخ ہی خون میں بھیگی ہے ، سوال یہ ہے کہ وہ خواتین و حضرات کہاں ہیں جو حقوق انسانی تخلص کرتے ہیں اور روشن خیالی کے وہ مدہوش ملنگ کدھر گئے جو دھمال ڈال ڈال کر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا تو مذہب ہی انسانیت ہے؟ مسلمانوں کی معمولی معمولی غلطیوں پر غرانے والا یہ طبقہ اس وقت گونگا شیطان کیوں بن جاتا ہے جب مسلمانوں پر قیامت ٹوٹتی ہے۔ ان طلباء کی بات کریں تا کہا جاتا ہے یہ افغانستان کا مسئلہ ہے۔ بھئی اگر یہ سو سے زیادہ لاشے افغانستان کا مسئلہ ہے تو بامیان کے مجسموں کو کیوں روتے ہو وہ آپ کی نانی اماں کے شوہر کے مجسمے تو نہیں تھے۔
’لر او بر یو افغان‘ کے نعرے لگانے والے قوم پرست بھی خاموش ہیں۔ قوم کے نام پر ’لر‘ میں تو اودھم مچا دیا جاتا ہے لیکن جب بات ’ بر‘ کی آتی ہے تو چونکہ ساتھ ایک عدد امریکہ بھائی جان بھی نظر آ رہے ہوتے ہیں اس لیے قوم پرستی کا غبارہ ان دیکھے اندیشوں کا تصور کر کے وہیں پھٹ جاتا ہے۔ وہ کوئی چادر پوش ہو یا اس تکلف سے بے نیاز ، تمام بطل حریت کی زبان برفاب ہو جاتی ہے اور وہ ایک حرف مذمت بھی ادا نہیں کر پاتے۔
قندوز کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ یہ ایک تاریخ ہے۔یہ 1996ء کی بات ہے۔میڈیلین البرائٹ امریکہ کے ٹی وی پروگرام 60منٹ میں مدعو تھیں۔میزبان نے سوال کیا:
’’ عراق پر امریکی پابندیوں سے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے مر چکے ہیں،کیا اتنی بھاری قیمت دی جانی چاہیے؟‘
‘اعلیٰ مغربی تہذیب کی علمبردار عورت کا جواب تھا:’
’ جی ہاں یہ ایک مناسب قیمت ہے،دی جانی چاہیے۔‘‘
مدہوش ملنگوں کا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عالم مد ہوشی میں وہ صرف مجاوری کرتے ہیں حقائق سے انہیں تبخیر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ان ملنگوں کے رویے دیکھ کر کیتھرین گراہم یاد آ جاتی ہیں۔کیتھرین واشنگٹن پوسٹ کی مالک تھیں۔
1988میں انہوں نے سی آئی اے میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’ہم بڑی گندی اور خطرناک دنیا میں رہتے ہیں۔کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے۔‘‘( بحوالہ ولیم بلم، کلنگ ہوپ، صفحہ 121)
چنانچہ اب تلخ حقیقت یہ ہے کہ الا ماشا اللّٰہ دنیائے دانش کیتھرین کے فکری فرزندوں سے بھری پڑی ہے جو صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے ۔
آپ فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر اور سینیٹر راجر گراؤڈی کی کتاب’’
دی فاؤنڈنگ متھز آف اسرائیلی پالیسی‘‘ پڑھیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کہ کس طرح راجر نے جب عام لوگوں کو ان ’ کچھ چیزوں‘ کا بتانا چاہا تو مغربی میڈیا نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ہمارے ملنگ ڈگڈگی بجاتے ہیں کہ مغربی تہذیب آزادی رائے کی بڑی قائل ہے اور مسلمانوں کو ابھی تک بقائے باہمی کے آداب کا علم نہیں۔جھوٹ کے یہ لشکری اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ نام چامسکی جیسا آدمی چیخ اٹھتا ہے’’حقائق بہت کڑوے ہیں۔صرف یہی نہیں کہ تعلیم یافتہ اور معقول لوگوں کو سچائی سے دور کر دیا گیا ہے بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بد ترین حالات کہ ذمہ داری مظلوموں پر ڈال دی گئی ہے۔‘‘
دنیا کو قوانین کا درس دینے والے امریکہ نے بین الاقوامی قانون کو سب سے زیادہ پامال کیا ہے ۔بین الاقوامی قوانین اور ضابطے کبھی اس کی روہ میں حائل نہیں ہو سکے۔امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچی سن ریاست کے رہنما اصول کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں۔انٹر نیشنل لاء جائے جہنم میں۔مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے ماہرین کیا کہتے ہیں‘‘
( بحوالہ،بل ڈلن،یو ایس۔اے روگ سٹیٹ،27اکتوبر2002۔دی ٹراؤزر رولرز)
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا:
’’ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی مرد عورت اور بچے کو قتل نہ کیا جائے،تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے یا اسے غائب نہ کر دیا جائے اور امریکہ اس ظلم میں شریک نہ ہو‘‘( بحوالہ نام چامسکی ،روگ سٹیٹس۔۔۔باب10)
دنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت کر نے والا امریکہ ملالہ جیسے چند واقعات کی آڑ میں اپنی تہذیبی برتری ثابت کر کے خود کو انسان دوست قوت کے طور پر متعارف کراتا نظر آتا ہے تو رچرڈ ریویز یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا:
’’ہم امریکی اپنی رہنمائی کے حوالے سے بے ہودہ اور واہیات باتیں علی الاعلان کرتے ہیں‘‘
اسی سفاک رویے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ولیم بلم لکھتے ہیں:
’’بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کہ اس کی قیادت بے رحم ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسیٹسلشمنٹ میں صرف انہی کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم،بے شرم اورڈھیٹ ہوں‘‘
( بحوالہ ولیم بلم ،کلنگ ہوپس،یو ایس ملٹری اینڈ سی آی اے انٹر ونشنز سنس ورلڈ وار ٹو، کامن کیج پریس، صفحہ 83)
امریکہ نے ابھی تک’
’کنونشن آن دی رائٹس آف چائلڈ‘‘یعنی بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق نہیں کی۔دل چسپ بات یہ کہ اس کنونشن کے سات آرٹیکلز خود امریکہ نے لکھے تھے جن میں سے تین براہِ راست امریکی آئین میں سے لیے گئے اور خود صدر ریگن نے تجویز کیے تھے۔
( بحوالہ،نینسی ۔ای۔واکر، کیتھرین بروکس، لارنس ایس رائٹسمین، Children Rights in the United States: In Search of National Policy ، (ایس اے جی ای) 199، صفحہ 40 1-)
افغانستان کو اس نے امن کے نام پر برباد کردیا ۔ یہی نہیں بلکہ آدمی حیرت اور صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے جب وہ یہ خبر سنتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی مرنے والے معصوم شہریوں کے اعضاء کاٹ کر’’یادگار‘‘کے طور پر محفوظ کر لیتے ہیں اور فخر سے دوستوں کو دکھاتے ہیں ۔
جرمن روزنامے ’’درسپیگل(Der Speigal)اور امریکی میگزین’’رولنگ سٹون‘‘ (Rolling Stone)نے ایسی تصاویر بھی شائع کیں جن میں امریکی فوجی مقتول افغانوں کی لاشوں کے پاس فاتح کے طور پر کھڑے ہیں جن کے سر کاٹے جاچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان سروں کی یہ فوجی ٹرافیاں بناتے ہیں ۔جیسے شکاری کبھی ہرن شکار کرکے ٹرافیاں بناتے تھے۔
(بحواالہ، ایشین ٹریبون، یشین ٹریبون، US War Crimes In Afhanistan: Severed Human Heads Brandished25 اپریل 2011ء )
ایشین ٹریبیون(Asian Tribune)کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں تعنیات’’ففتھ سٹرائکربرگیڈ‘‘کے ’’تھرڈ پلاٹون‘‘کی’’براوو کمپنی‘‘کے ایک فوجی کارپورل جرمی مارلوک (Jermy Marlock)نے ایک پندرہ سالہ نہتے افغان لڑکے گل مدین کو قتل کرنے کے بعد اس کی انگلی یاد گار کے طور پر اپنے پاس محفوظ کرلی( بحوالہ ،ایشین ٹریبیون،25 اپریل2011)
ان تمام حقائق کے باوجود ملنگوں کا دعوی یہی ہے کہ مسلمانوں کو تہذیب نہیں آتی۔ وہ جاہل ہیں اور ان کا رویہ انسان دوست نہیں۔