دہشت گردی کا انمٹ نقش: قندوز میں دینی مدرسے کی تقریب دستار بندی پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری

جاسمن

لائبریرین
مجھے سمجھ نہیں آتی شاہد شاہ! کہ سیکورٹی فورسز بیچاریوں کے پاس یہ تو معلومات ہوتی ہیں کہ یہاں جدید وسائل سے لیس خطرناک طالبان موجود ہیں لیکن جدید وسائل سے محروم فورسز کو یہ آخر تک پتہ نہیں چلتا کہ معصوم بچے بھی یہاں ہیں۔
اور پتہ چل بھی جائے تو پھر کیا ہوا!کچھ پانے کے لئے کھونا بھی تو پڑتا ہے۔گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔ان بچوں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔کچھ طالبان بھی مارے گئے۔
اگر آئیندہ بھی اطلاع ملے کہ کہیں کسی کالونی میں کسی علاقے میں طالبان ہیں تو اس علاقے کو بھی تباہ کر دینا چاہیے۔بچے۔بوڑھے۔جوان۔عورتیں۔گھر۔مویشی۔کاروبار۔۔۔۔۔سب کچھ تباہ بھی ہوجائے تو کیا!
یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں۔
حشرات الارض ہیں۔
جو ان کے ملک میں گھسے ہوئے ہیں۔ان کا ایک ایک شخص قیمتی ہے۔وہ واقعی اشرف المخلوقات ہیں۔
ارے ان حشرات الارض طرح کے لوگوں کو آخر یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ مدرسوں میں بچے بھیجنا بند کریں۔بلکہ مدرسے ہی بند کر دیں۔آقاوں کو مجبورا بچے بھی مارنے پڑتے ہیں۔
شاہد شاہ!
مجھے سمجھ نہیں آتی۔ظلم کو ظلم کیوں نہیں کہتے؟
ظلم کے جواز کیوں تلاشتے ہیں؟
یہاں ہار جیت کے لئے بات ہورہی ہے؟
یہ بچے ہمارے بچے تھے۔
یہ ہماری اگلی نسل تھی۔
یہ قرآن کو سینے میں بسائے،ننھے منے پھول تھے۔جنت سے آئے اور جلد ہی واپس وہیں چلے گئے جہاں سے آئے تھے۔
ہماری دنیا ان کے قابل نہ تھی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 

الف نظامی

لائبریرین
30264356_1814185572002177_8402404190868996096_o.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
افغانستان کے شہر قندوز میں دینی مدرسے پر افغان فورسز کی بمباری سے معصوم حفاظ کی شہادت کے خلاف کراچی میں دینی مدرسوں کے حفاظ نے شارع فیصل پر قرآن پاک کی تلاوت کرکے انوکھا احتجاج کیا۔
مختلف دینی مدرسوں کے کم سن طلبہ ہفتے کی سہ پہر اچانک شارع فیصل پر کارساز کے قریب پہنچے اور عوامی مرکز سے کارساز تک فٹ پاتھ پر دریاں بچھا کر طویل قطار میں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی۔
بیشتر طلبہ نے اپنی پیشانی پر سرخ پٹیاں باندھ کر مختلف عبارتیں تحریر کر رکھی تھیں اور شہداء سے اظہار یکجہتی کے لیے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔
بعض طلبہ نے پلے کارڈ کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرچم بھی اٹھا رکھے تھے جن پر امریکا اور افغانستان فورسز کے خلاف نعرے درج تھے، طلبہ کی قرأت کے ساتھ تلاوت سے شارع فیصل پر سماں بندھ گیا۔کئی معصوم بچیاں بھی اس پُرامن اور انوکھے احتجاج میں شریک تھیں۔
خیال رہے کہ 3 اپریل کو افغانستان کے علاقے قندوز میں فضائی حملے کے نتیجے میں قندوزمیں تقریباً 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں بڑی تعداد حافظ قرآن بچوں کی تھی اور یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب مدرسے میں دستاربندی کی تقریب جاری تھی۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
افغانستان کے شہر قندوز میں دینی مدرسے پر افغان فورسز کی بمباری سے معصوم حفاظ کرام کی شہادت کے خلاف کراچی میں مدارس کے حفاظ نے شارع فیصل پر قرآن پاک کی تلاوت کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ طلبہ مدارس دینیہ کراچی نے ہفتے کو سانحہ قندوز کے خلاف شارع فیصل کارساز پر احتجاج کیا۔

بہت سے طلبہ نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ‘‘لکھنے کو الفاظ نہیں، سننے والوں میں ظرف نہیں’’ اور دیگر عبارتیں درج تھیں۔طلبہ نے عوامی مرکز سے کارساز تک فٹ پاتھ پر دریاں بچھا کر طویل قطار میں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کی۔ بیشتر طلبہ نے پیشانیوں پر سرخ پٹیاں باندھ کر مختلف عبارتیں تحریر کر رکھی تھیں۔ طلبہ کی تلاوت سے شارع فیصل پر سماں بندھ گیا۔ کئی بچیاں بھی اس منفرد و پرامن احتجاج میں شریک تھیں۔ یہ انوکھا احتجاج دیکھ کر لوگ گاڑیاں روکتے رہے ۔ طلبہ مغرب کی اذان سے پہلے پر امن طور پر منتشر ہوگئے ۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین

افغانستان کے شہر قندوز میں دینی مدرسے پر افغان فورسز کی بمباری سے معصوم حفاظ کرام کی شہادت کے خلاف کراچی میں مدارس کے حفاظ نے شارع فیصل پر قرآن پاک کی تلاوت کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ طلبہ مدارس دینیہ کراچی نے ہفتے کو سانحہ قندوز کے خلاف شارع فیصل کارساز پر احتجاج کیا۔

بہت سے طلبہ نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ‘‘لکھنے کو الفاظ نہیں، سننے والوں میں ظرف نہیں’’ اور دیگر عبارتیں درج تھیں۔طلبہ نے عوامی مرکز سے کارساز تک فٹ پاتھ پر دریاں بچھا کر طویل قطار میں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کی۔ بیشتر طلبہ نے پیشانیوں پر سرخ پٹیاں باندھ کر مختلف عبارتیں تحریر کر رکھی تھیں۔ طلبہ کی تلاوت سے شارع فیصل پر سماں بندھ گیا۔ کئی بچیاں بھی اس منفرد و پرامن احتجاج میں شریک تھیں۔ یہ انوکھا احتجاج دیکھ کر لوگ گاڑیاں روکتے رہے ۔ طلبہ مغرب کی اذان سے پہلے پر امن طور پر منتشر ہوگئے ۔
روایتی احتجاج کی بہ نسبت یہ طریقہ شائستہ بھی ہے اور پُراثر بھی۔ نہایت متاثرکن!
 

سین خے

محفلین
روایتی احتجاج کی بہ نسبت یہ طریقہ شائستہ بھی ہے اور پُراثر بھی۔ نہایت متاثرکن!

سو فیصد متفق! بہترین احتجاج ہے۔ بچوں نے اتنی سخت گرمی میں سڑک پر بیٹھ کر تلاوت کی۔ اللہ دنیا و آخرت میں بہترین جزائے خیر عطا فرمائے آمین
 

الف نظامی

لائبریرین
سو فیصد متفق! بہترین احتجاج ہے۔ بچوں نے اتنی سخت گرمی میں سڑک پر بیٹھ کر تلاوت کی۔ اللہ دنیا و آخرت میں بہترین جزائے خیر عطا فرمائے آمین

لیکن ٹاپک کلوز نہیں ہوا۔
دہشت گردی کا یہ انمٹ نقش نائن الیون اور اے پی ایس سے زیادہ گہرا اور واضح ہے اور اس کے اثرات بھی بہت گہرے ہیں۔
دم ہمہ دم علی علی
حیدریم قلندرم مستم
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ:
قندوز مدرسہ پر بمباری اور سیکڑوں معصوم طلبا اور علما ء کا قتل عام امریکہ کی کھلی دہشت گردی ہے
افغانستان کے صوبہ قندوز میں امریکی فوج نے مدرسے پر بمباری کی اور سو سے زائد معصوم حفاظ کرام بچوں کو شہید کردیا
امریکہ، بھارت اور اسرائیل مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے میں مصروف ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
گزشتہ ہفتہ افغانستان کے علاقہ قندوز میں ایک مدرسہ پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں ڈیڑھ سو سے افراد جن میں اکثریت بچوں کی تھی کو شہید کیا گیا۔ ابتدا میں میڈیا کے ذریعے کہا گیا کہ حملہ دہشتگردوں پر کیاگیا لیکن جب حقیقت کھلی کہ اس بربریت کا شکار معصوم بچے تھے جو قرآن پاک کاحفظ مکمل ہونے پر وہاں دستاربندی کے لیے جمع ہوے تھے تو میڈیا پر خاموشی طاری ہو گئی۔

شہادت پانے والے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو دل دہل گئے کہ اتنا بڑا ظلم لیکن دوسری طرف مجرمانہ خاموشی۔ عالمی میڈیا سے تو کوئی توقع رکھنا ہی فضول تھا، ہمارے لوکل میڈیا نے بھی اس ظلم و بربریت پر کوئی توجہ نہ دی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ویسے سب کو خبر تو مل گئی کہ فضائی حملہ میں معصوم حفاظ کرام شہید ہوئے لیکن نہ تو صدر پاکستان کی طرف سے اس سانحہ پر کوئی مذمتی بیان جاری ہوا، نہ ہی کوئی دوسرا حکومتی یا ریاستی ذمہ دار بولا۔

وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے جب اس ظلم پر کوئی بات نہ کی تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ ویسے تو دفتر خارجہ افغانستان میں کسی بھی دہشتگردی کے واقعہ پر فوری مذمتی بیان جاری کرتا ہے لیکن قندوز سانحہ پر کیوں خاموش ہے؟؟اس کے جواب میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کچھ رسمی مذمتی الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ ہم دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات پر بات نہیں کرتے۔ کیا خوب پالیسی ہے ہماری؟؟؟ اور کیسا امتیازی سلوک ساری دنیا قندوز سانحہ جیسے شہداء کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے؟؟ یعنی اگر دہشتگردی کسی فرد نے کی یا کسی پرائیویٹ گروہ نے تو پھر تو اس پر مذمت کی جائے گی اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی جائے گی۔ لیکن اگر دہشتگردی ریاست کی طرف سے کی جائے اور مرنے والوں کی تعداد چاہیے سینکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں تک بھی پہنچ جائے تو نہ کوئی مذمت، نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی افسوس اور نہ کوئی معافی اور یہی ہم افغانستان، عراق، شام، کشمیر، فلسطین،یمن اور دوسرے کئی اسلامی ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ انصاف نام کی کو ئی چیز نہیں، جب لگتا ہے کہ ضمیر مر چکے ہیں۔ 9/11 کے بعداس ریاستی دھشتگردی کو کھلی چھٹی دے دی گئی جس کے لیے شرط صرف ایک ہی رہی اور وہ یہ کہ ریاستی دہشتگردی کا نشانہ صرف مسلمانوں کو ہی ہونا چاہیے۔ مغرب سے یا اُن کے میڈیا سے کوئی کیا گلہ کرے، دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم مسلمان، ہماری حکومتیں اور ہمارا میڈیا بھی وہی کرتا ہے جو امریکا کی پالیسی ہے۔ہمارے ٹی وی چینلز کو ہی دیکھ لیجیے جنہوں نے پاکستانی قوم کو بھارتی فلمی اداکارہ سری دیوی کی موت پر دن رات کوریج کر کے گھنٹوں سوگ منایا اور ایک وقت تو یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ ہمارا میڈیا کہیں سری دیوی کو شہید کا درجہ ہی نہ دے دے۔ گزشتہ ہفتہ ایک اور بھارتی اداکار سلمان خان کو پانچ سال سزا ملنے پر ہمارے چینلز نے اسے پاکستانیوں کا بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا لیکن افسوس کہ انہی چینلز کو قندوز مدرسے میں شہید کیے جانے والے معصوم بچوں کے نہ توچہرے نظر آئے نہ ہی اُنہیں ان بچوں کے والدین پر جو گزری اُس کی فکر تھی۔ سوشل میڈیا اور ٹیوٹر پر بھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے اور دوسرے وہ سیکولرز اور لبرلز جو فرانس حملہ پر 12 افراد کی ہلاکت پر کئی روز افسوس کا اظہار کرتے رہے، کی اکثریت کے پاس بھی ان ڈیڑھ سو سے زائد حفاظ کرام کی شہادت پر افسوس اور اس ظلم کی مذمت کے لیے کچھ بھی کہنے کا وقت نہیں تھا۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ ان معصوم بچوں کا آخر قصور کیا تھا؟ یہ بچے تو حافظ قرآن تھے جو ایک بہت بڑی سعادت کی بات تھی لیکن ایسے معصوموں کی شہادت پر ماسوائے پاکستان کے مذہبی ر ہنماوں کے کسی صف اول کے سیاسی رہنما کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس معاملہ پر بات کرے اور ان انسان دشمن عمل کی مذمت کرے۔ کیا داڑھی والوں اور مدرسے میں پڑھنے والوں کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں؟؟ اُنہیں جو چاہے مار دے!!! ظلم ظلم ہے چاہے اس کا شکار کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ قندوز سانحہ ریاستی دہشتگردی کا ایک سنگین واقعہ ہے۔ اس ظلم کو اجاگر کرنے اور اس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ وہی میڈیا جو ہمیں رلاتا بھی ہے اور ہنساتا بھی ہے ، وہی میڈیاجس کا اب یہ دائرہ اختیار بنا دیا گیا ہے کہ کس کو ظالم اور کس کو مظلوم بنا کر دکھائے۔ یہ میڈیا ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس واقعہ پر ہمیں افسردہ کرے، کہاں رلائے اور کس واقعہ کو چاہے وہ کتنا ہی بڑا سانحہ ہو اُسے کوئی اہمیت نہ دے۔ افغانستان پر حملہ کرنا مقصود تھا تو اس کا راستہ میڈیا ہی کے ذریعے ہموار کیا گیا۔ عراق کو تباہ و برباد کرنا تھا تو مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹ میڈیا ہی کے ذریعے بیچا گیا۔ لیبیا پر حملہ کرنا تھا تو کرنل قدافی کو ولن کے طور پر میڈیا ہی کے ذریعے پیش کیا گیا۔
میری درخواست مسلمان ممالک کے میڈیا سے ہے کہ مہربانی کر کے ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ مغرب اور مغربی میڈیا کی نقالی میں ہم بھی کہیں معصوم مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ تو نہیں رنگ رہے۔
 
Top