احمد بھائی دوسرے مصرعے کے آخری حرف میں ٹائپو ہو گئی ہے۔
شہر کے یہ باشندے نفرتوں کو بو کر بھی انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کیبھول کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے(مرغوب حسین طاہر)سراب
شہر کے یہ باشندے نفرتوں کو بو کر بھی انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کیبھول کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا، رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے(مرغوب حسین طاہر)سراب
شنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
احمد فراز
ہم نوا
سُنو بارش ! کبھی خود سے بھی کوئی بڑھ کے دیکھا ہے؟جواب آیا، اِن آنکھوں کی مگر برسات گہری تھی(فاخرہ بتول)بارش