فرخ منظور
لائبریرین
پھر دیکھئے اندازِ گلفشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مِرے آگے
گلفشانی
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
(غالب)
پھر دیکھئے اندازِ گلفشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مِرے آگے
گلفشانی
وقت كرتا ہے ہر سوال كو حل
زیست مكتب ہے امتحان نہیں
سوال
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
(غالب)
یہ شکست کا جہنّم کہیں پھر بھڑک نہ اُٹھے
میرے عشق کے کھنڈر پر، نہ کریں وہ گلفشانی
(احمد ندیم قاسمی)
کھنڈر
کھدائی کو کھنڈر کوئی نہیں ہے
اب اِس مٹی میں زر کوئی نہیں ہے
خیالوں میں یہ کس کی دستکیں ہیں
اگر بیرونِ در کوئی نہیں کوئی نہیں ہے
صابر ظفر
مٹی
اٹھے ہم خستہ دل آشفتہ سر بے اختیار اٹھے
بہار آئی قدم پھر دشت کو دیوانہ وار اٹھے
سرور عالم راز سرور
دشت
اِک سرابِ سیمیا میں رہ گئے
لوگ جو بِیم و رجا میں رہ گئے
کِس شبِ نغمہ کی ہیں یہ یادگار!
چند نوحے جو ہَوا میں رہ گئے
امجد اسلام امجد
یادگار