دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
پاؤں سے جو بندھا ہے وہ چکر اُتار دے
آوارگی کے شوق کو گھر پر اُتار دے
کب تک کسی کی یاد کو دل سے لگائے گا
یونہی چڑھی ہوئی ہے یہ سر پر، اُتار دے
اک عمر کے سفر سے بدن ہے نڈھال سا
یہ وہ تھکن نہیں ہے کہ سو کر اُتار دے

نڈھال
 
پاؤں سے جو بندھا ہے وہ چکر اُتار دے
آوارگی کے شوق کو گھر پر اُتار دے
کب تک کسی کی یاد کو دل سے لگائے گا
یونہی چڑھی ہوئی ہے یہ سر پر، اُتار دے
اک عمر کے سفر سے بدن ہے نڈھال سا
یہ وہ تھکن نہیں ہے کہ سو کر اُتار دے

نڈھال
فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے
یہ شام ہے کہ کوئی فرش پائمال سا ہے
تیرے دیار میں کیا تیز دھوپ تھی لیکن
گھنے درخت بھی کچھ کم نہ تھے خیال سا ہے
رئیس فروغ

خیال
 
دل نے پھر یاد کیا برق سی لہرائی ہے!
آرزو کا رنگ بھر کے دل کا افسانہ کہو
۔۔۔۔آنکھوں آنکھوں میں مجھے چپکے سے دِیوانہ کہو
ایسا افسانہ کہ جس میں پیار کا پیغام ہو
۔۔۔۔نام ہو میرا بھی شامل۔۔۔۔ تم پہ بھی الزام ہو
میرے خوابوں کی شمع مجھ کو پروانہ کہو
آرزو کا رنگ بھر کے دل کا افسانہ کہو

کہو
 
آخری تدوین:
بڑھ گیا منزلِ مقصود سے بھی آگے صالؔح
بیخودی تجھ کو کہاں کھینچ کے لے آئی ہے
اِک بار پھر کہو ذرا ۔۔۔۔،۔۔۔۔، اِک بار پھر کہو ذرا
کہ میری ساری کائنات تمھاری اِک نگاہ پر نثار ہے

ساری
 
دِل ہی تو ہے!
بات اتنی سی ہے۔ کہانی میں
ہم بھی مارے گئے جوانی میں
روتے بیتی ہے جو بِتائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ بھولی سی۔ یاد آئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے غمِ دل تیری دہائی ہے
میؔر۔۔ اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے


میں
 
فِردوسِ بریں
ہرچہرہ یہاں چاند تو ،ہر ذرہ ستارہ
یہ وادیٔ کشمیر ہے جنت کا نظارہ
میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا ۔، جو ،غور ،سے ،تری ،تصویر ،بن ، گئی


راکھ
 
دُوریاں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیرمیں۔، شعلہ ہے نہ چنگاری ہے


ڈھیر
 
دُوریاں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیرمیں۔، شعلہ ہے نہ چنگاری ہے


ڈھیر
دُوریاں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیرمیں۔، شعلہ ہے نہ چنگاری ہ

دُوریاں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیرمیں۔، شعلہ ہے نہ چنگاری ہے


ڈھیر
 
راکھ کے ڈھیر پر کیا شعلہ بیانی کرتے
اک قصے کی۔۔۔ بھلا کتنی کہانی کرتے
عرفان ستار

کہانی
۔۔کہانی
نِربل سے لڑائی بلوان کی
یہ کہانی ہے دیے کی اور طوفان کی
اِک رات کاری کاری
تھیں دِشائیں اندھیاری
مندمند پَون تھا چل رہا
اندھیارے کو مٹانے
جگ میں جوت جگانے
اِک چھوٹا سا دیا تھا کہیں جل رہا
اپنی دُھن میں مگن
اُس کے تن میں اگن
اُس کی لَو میں لگن بھگوان کی
یہ کہانی ہے دیے کی اور طوفان کی
کہیں دُور تھا طوفان
دیے سے تھا بلوان
سارے جگ کو مسلنے مچل رہا
جھاڑ ہو یا پہاڑ دے وہ پل میں اکھاڑ
سوچ سوچ کے زمیں پہ تھا اچھل رہا
اِک ننھا سا دیا اُس نے حملہ کیا
اب دیکھو لیلا وِدھی کے ودھان کی
یہ کہانی ہے دیے کی اور طوفان کی
دنیا نے ساتھ چھوڑا
ممتا نے مکھ موڑا
اب دیے پہ یہ دکھ بڑھنے لگا
پر ہمت نہ ہار من میں مرنا وِچار
ہتھیا چار کی ہوا سے لڑنے لگا
سر اٹھانا یا جھکانا
یا بھلائی میں مرجانا
گھڑی آئی اس کے بھی امتحان کی
یہ کہانی ہے دیے کی اور طوفان کی
پھر ایسی گھڑی آئی
گھنگھور گھٹا چھائی
اب دیے کا بھی دل لگا کانپنے
بڑے زور سے طوفان
آیا بھرتا اڑان
اس چھوٹے سے دیے کا بل ماپنے
تب دیا دکھیارا وہ بیچارہ بے سہارا
چلا داؤ پہ لگانے بازی پران کی
یہ کہانی ہے دیے کی اور طوفان کی
لڑتے لڑتے وہ تھکا
پھر بھی بجھ نہ سکا
اُس کی جوت میں تھا بل رے سچائی کا
چاہے تھا وہ کمزور
پر ٹوٹی نہیں ڈور
اُس نے بیڑا تھا اٹھایا رے بھلائی کا
ہوا نہیں وہ نراش
چلیں جب تک سانس
اُسے آس تھی پربھو کے وردھان کی
یہ کہانی ہے دیےکی اور طوفان کی
سرپٹک پٹک پگ جھٹک جھٹک
نہ ہٹاپایا دیے کو اپنی آن سے
بار بار وار کرانت میں ہار کر
طوفان بھاگا رے میدان سے
ہتھیا چار سے ابھر
جلی جوت امر
رہی امر نشانی بلیدان کی
یہ کہانی ہے دیے کی اور طوفان کی
نربل سے لڑائی بلوان کی

یہ کہانی تھی دیے کی اور طوفان کی
نشانی














































































۔۔
 
آخری تدوین:
دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں
پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا
خواجہ محمد وزیر

جانب
احساسات کی بستی میں جب ہر جانب سناٹا تھا
میں آوازوں کے جنگل میں تب جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا
جن راہوں سے اپنے دل کا ہر قصہ منسوب رہا
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے ان راہوں کا قصہ کیا تھا

یاد
 

صاد الف

محفلین
احساسات کی بستی میں جب ہر جانب سناٹا تھا
میں آوازوں کے جنگل میں تب جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا
جن راہوں سے اپنے دل کا ہر قصہ منسوب رہا
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے ان راہوں کا قصہ کیا تھا

یاد
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
منیر نیازی

دن
 
آنکھ میں بوند بھر جو پانی ہے
پیار کی ۔،اِک یہی نشانی ہے
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
منیر نیازی
دن بدلے مہینوں میں ،مہینے بن گئے آخرسال
نہ آیا اُس کو میرا خیال ، نہ آیا اُس کو میرا خیال

آیا
 
Top