گُلِ یاسمیں
لائبریرین
پاؤں سے جو بندھا ہے وہ چکر اُتار دے
آوارگی کے شوق کو گھر پر اُتار دے
کب تک کسی کی یاد کو دل سے لگائے گا
یونہی چڑھی ہوئی ہے یہ سر پر، اُتار دے
اک عمر کے سفر سے بدن ہے نڈھال سا
یہ وہ تھکن نہیں ہے کہ سو کر اُتار دے
نڈھال
پاؤں سے جو بندھا ہے وہ چکر اُتار دے
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تُو
اے نرگسِ مستانہ ، بس اتنی شکایت ہے ، بس اتنی شکایت ہے!
برسوں کے بعد دیکھا اِک شخص دل رُباسا
فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہےپاؤں سے جو بندھا ہے وہ چکر اُتار دے
آوارگی کے شوق کو گھر پر اُتار دے
کب تک کسی کی یاد کو دل سے لگائے گا
یونہی چڑھی ہوئی ہے یہ سر پر، اُتار دے
اک عمر کے سفر سے بدن ہے نڈھال سا
یہ وہ تھکن نہیں ہے کہ سو کر اُتار دے
نڈھال
تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسہ نہ کرودل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
احمد فراز
بھروسہ
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہیبرسوں کے بعد دیکھا اِک شخص دل رُباسا
اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلا سا
نہیں
دُوریاںجانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
راکھ کے ڈھیرمیں۔، شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
ڈھیر
دُوریاںجانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
راکھ کے ڈھیرمیں۔، شعلہ ہے نہ چنگاری ہ
دُوریاںجانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
راکھ کے ڈھیرمیں۔، شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
ڈھیر
راکھ کے ڈھیر پر کیا شعلہ بیانی کرتے
اک قصے کی۔۔۔ بھلا کتنی کہانی کرتے
عرفان ستار
کہانی
دیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیںاب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے
حسرت
احساسات کی بستی میں جب ہر جانب سناٹا تھادیکھنا حسرت دیدار اسے کہتے ہیں
پھر گیا منہ تری جانب دم مردن اپنا
خواجہ محمد وزیر
جانب
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگیاحساسات کی بستی میں جب ہر جانب سناٹا تھا
میں آوازوں کے جنگل میں تب جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا
جن راہوں سے اپنے دل کا ہر قصہ منسوب رہا
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے ان راہوں کا قصہ کیا تھا
یاد
آنکھ میں بوند بھر جو پانی ہے
دن بدلے مہینوں میں ،مہینے بن گئے آخرسالمحبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
منیر نیازی