گُلِ یاسمیں
لائبریرین
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی
جل
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گےجب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی
جل
جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
میری تباہیوں میں تیرا ہاتھ ہے مگر
لڑکیاں ماؤں جیسے مقدر کیوں رکھتی ہیںمیری تباہیوں میں تیرا ہاتھ ہے مگر
میں سب سے کہہ رہا ہوں مقدر کی بات ہے
مقدر
رہ رہ کے کوندتی ہیں اندھیرے میں بجلیاںمنبر میں بھیس بدل بیٹھے کچھ تاجر اور لٹیرے ہیں
اس قوم کی قسمت میں فیصل کب تک ایسے اندھیرے ہیں
اندھیرے
نہ وہ بجلیاں نہ ہی بارشیں نہ ہی دشمنوں کی وہ سازشیںرہ رہ کے کوندتی ہیں اندھیرے میں بجلیاں
تم یاد کر رہے ہو کہ یاد آ رہے ہو تم
بجلیاں
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کونہ وہ بجلیاں نہ ہی بارشیں نہ ہی دشمنوں کی وہ سازشیں
بھلا کیا سبب بتا ذرا جو تو آج بھی نہیں آ سکا
آج
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہےہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
ساحر لدھیانوی
رونا
دو قدم چل کے دکھا دو تو قیامت کا مزاسیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا
سیف الدین سیف
قیامت
بات کھوتے جو التجا کرتے
یہ مدرسہ تیرا میکدہ نہیں ساقیلیکن آپ کے دیئے گئے شعر میں لفظ ناشتہ تو ہے ہی نہیں۔
منہ دھو دھا کر ناشتہ کھاؤ
بستہ لے کر مدرسے جاؤ
حفیظ جالندھری
مدرسہ
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیںیہ مدرسہ تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں
انساں