دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

نہ زمین روک پائی نہ رکا ہوں آسماں سے
تری جستجو میں گزرا میں حدود لا مکاں سے

جستجو
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
پروین شاکر

چاند
 

سیما علی

لائبریرین
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
پروین شاکر

چاند

چاند نکلا ہے بہ انداز دگر آج کی شام
بارش نور ہے تا حد نظر آج کی شام
ارمان اکبر آبادی

بارش
 
جو آنا چاہو تو ہزار راستے،نہ آنا چاہوتو عذر لاکھوں
مزاج برہم ، طویل رستہ ،برستی بارش ،خراب موسم


موسم
موسم بھی حسیں دیکھے گلشن بھی جواں دیکھا
لیکن جو سماں اب ہے پہلے وہ کہاں دیکھا

اِس لڑی کے قابلِ احترام شرکاء عیدالاضحی ٰ کی مبارکباد قبول فرمائیں۔آج 17جون 2024ء بروزپیر موسم ابرآلودہے مگر گرمی کا جوش بدستورہےاور اس پر بھی عید کی خوشیاں بہر سُودیکھی جاسکتی ہیں اور قربانی کا جذبہ عروج پر ہے،عید مبارک!​

گلشن
 
آخری تدوین:
پوچھے ہے کیا وجود ۔و ۔عدم اہل ِشوق کا
آپ اپنی آگ کے خس،و خاشاک ہو گئے


شوق
قابلِ توجہ:

اُردُو گفتگواور بات چیت کا ایک انداز آئے ہے ، جائے ہے ، پوچھے ہے وغیرہ بھی رہاہے ۔پھر یہ متروک ہوتا چلاگیا اور اب اِس کا بالکل رواج نہیں رہا مگر چند بزرگ جو ابھی حیات ہیں ، اُن کے منہ سے ایسا سنا ہے اور سن کر دل تھام لیا ہے کہ جو تہذیب کتابوں میں دفن ،فنا کی منزلیں سر کررہی ہے اُس میں زندگی کی تابانی اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔
 
پوچھے ہے کیا وجود ۔و ۔عدم اہل ِشوق کا
آپ اپنی آگ کے خس،و خاشاک ہو گئے


شوق
قابلِ توجہ:

اُردُو گفتگواور بات چیت کا ایک انداز آئے ہے ، جائے ہے ، پوچھے ہے وغیرہ بھی رہاہے ۔پھر یہ متروک ہوتا چلاگیا اور اب اِس کا بالکل رواج نہیں رہا مگر چند بزرگ جو ابھی حیات ہیں ، اُن کے منہ سے ایسا سنا ہے اور سن کر دل تھام لیا ہے کہ جو تہذیب کتابوں میں دفن ،فنا کی منزلیں سر کررہی ہے اُس میں زندگی کی تابانی اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

زمانہ
 
یارب! زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہو!
غالب نے خوب نکتہ بیان کیا ہے ۔آدمی آدمی کو کھائے جاتا ہے ۔ اِس کا کوئی اور نہیں خود اِِس کااپنا بھائی دشمن ہے ۔اگر خوب غورکریں تو اِس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے کہ دیکھیں آدمی دل میں رکھی کد کے باوجود اپنے جیسے آدمی سے کتنی بھلائی کرتا ہے اور اِس راستے(کدورت) کو اپنے رب تک پہنچنے کے لیے کس طوراستعمال کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کرتا ہے کہ نہیں کرتا ہے۔
بات جس پر ہمیں خوب سوچنا چاہیے یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر چھپی بعض منفی قوتوں کو ٹیون اپ کرکے اِن سے مثبت کارہاے نوع بہ نوع انجام دینے ہیں ۔ یہ بات ہماری اختیار میں ایسے ہے جیسے بعض دیگر امور۔ گو اِس میں ہمارا اپنانفس ،اناا ور اپنی ذات آڑے آتی ہے اور من مانیوں پر کاربند رہنے کی تلقین کرتی ہے مگر اِس آواز کی بجائے رب کے احکامات کو فوقیت دینا یہ ہے کامیابی ۔ اِس کامیابی کےلیے ایک اندرونی جنگ سے ضرور گزرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔مگر یہ کش مکش، آزمائش اور امتحان اور جنگ بس ایک زندگی تک محدود ہے ،موت پر یہ سلسلہ ختم شد ہے۔۔۔۔
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہ ہوناانسان پر خدا کاعظیم کرم ہے اور بجائے اِس کے کہ زمانہ آپ کو مٹائے آپ خود اپنی ہستی، انا اور ایگو کو ملیا میٹ کردیں اسلام کی سچی تعلیمات کے سامنے ، اپنے رب کے پاکیزہ احکامات کے حضور اور ایک اعلیٰ و ارفعٰ وعمدہ زندگی کے لیے :مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔۔۔۔۔
حرف
 
وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جُنوں
خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو۔۔ کہوں

وہ کیا بات ہے جسے کہنے کے لیے اقبال کو نفسِ جبریل درکار ہے۔ہمارا دماغ ہر ہر پل کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہے ۔ اگر یہ سوچے کہ وہ کیا بات ہے جسے کہنے کے لیے اقبال کو نفسِ جبریل درکاہے تو۔۔۔۔شاید گتھی سلجھ جائے۔
کہوں
 
آخری تدوین:
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے ۔کیا ۔بُرا۔ تھا۔ مرنا۔ اگر۔ ایک۔ بار ۔۔ہوتا

ایک بار۔۔۔(خالی ایک اور صرف بار بھی چلے گادونوں ہوں تو آپ کے ذوقِ مطالعہ کی کیا بات ہے اور تینوں ہوں تو پھر آپ کے ذوقِ مطالعہ پلس جستجو اور تلاش اور تحقیق و تدقیق کے کیا ہی کہنے یعنی پہلے ایک پھر بار پھر ایک بار)البتہ باربار اِس مشق کی مشقت اُٹھانے کی زحمت نہیں دی جائے گی۔
 

سیما علی

لائبریرین
وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جُنوں
خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو۔۔ کہوں

وہ کیا بات ہے جسے کہنے کے لیے اقبال کو نفسِ جبریل درکار ہے۔ہمارا دماغ ہر ہر پل کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہے ۔ اگر یہ سوچے کہ وہ کیا بات ہے جسے کہنے کے لیے اقبال کو نفسِ جبریل درکاہے تو۔۔۔۔شاید گتھی سلجھ جائے۔
کہوں
میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں


گلشن
 

سیما علی

لائبریرین
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے ۔کیا ۔بُرا۔ تھا۔ مرنا۔ اگر۔ ایک۔ بار ۔۔ہوتا

ایک بار۔۔۔(خالی ایک اور صرف بار بھی چلے گادونوں ہوں تو آپ کے ذوقِ مطالعہ کی کیا بات ہے اور تینوں ہوں تو پھر آپ کے ذوقِ مطالعہ پلس جستجو اور تلاش اور تحقیق و تدقیق کے کیا ہی کہنے یعنی پہلے ایک پھر بار پھر ایک بار)البتہ باربار اِس مشق کی مشقت اُٹھانے کی زحمت نہیں دی جائے گی۔
بھیا لفظ
ہم نے دے دیا۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ولی دکنی ، واہ ولی دکنی !
ربّ ِ کریم کے حضور آپ کی بخشش و مغفرت کا بصد خلوصِ دل خواستگار ہوں۔اللہ تعالیٰ رب العزت آپ کو اپنی امان میں رکھے اور آپ کے درجات بلند فرمائے ۔آپ اُردُوزبان و ادب کی جو خدمت انجام دے گئے ، وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔اِس ضمن میں آپ کے اشعار ہمارے دلوں میں محفوظ اور لبوں پر جاری ہیں۔تاریخی اعتبار سے گو آپ ہمارے زمانے سے دورتھےاور لسانی اعتبار سے گویاجہانِ دگر میں آبادتھےمگر فنی اعتبار سے اُردو غزل کے بِناکار ، مربی اور پروردگار ہونے کا سہرا آپ ہی کے سر جاتا ہے۔آپ ہی نے پہلے پہل اُردُو غزل کو حسن کی رعنائیوں اور جمالیات کی پُر کیف سرشاریوں سے متعارف کراکے اظہارکی ایک صاف و پاکیزہ شاہ راہ فراہم کی جس پر یہ آج تک بطریقِ احسن گامزن ہے۔بیشک قُلی قطب شاہ اُردُو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں مگراُردُو غزل کی روایت اپنی زینت اور آرائش کے لیے ہمیشہ آپ کی ہی مشکور رہے گی:​
تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں ۔اسُوں کہوں گا
جادو۔اہیں تیرے نین غزالاں ۔اسُوں کہوں گا
جلتا ہوں شب وروز تیرے غم میں اے ۔ساجن
یہ ۔اسوز ترا ۔امشعلِ سوزاں۔ا سُوں۔ا کہوں۔ا گا
سوز
 
۔۔۔ کہتے ہیں دردمند تؔرقی کا حال دیکھ
۔۔۔۔۔۔۔یارب کبھی کسی پہ کسی کا نہ آئے دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(آغامحمد تقی خان تؔرقی)

کبھی
 
Top