دین کی خدمت یامسلک کی خدمت

ابن جمال

محفلین
دین کی خدمت یامسلک کی خدمت
اس وقت انٹرنیٹ پر بے شمار سائٹس ہین اورانٹرنیٹ کی ترقی کے بعد سے اب اس پر اسلامی چھاپ والی سائٹس میں بھی روز افزوں اضافہ ہے۔یوں توہرایک اسلامی نام رکھنے والے ویب سائٹس کے ذمہ داروں کا دعویٰ بلکہ اصرار ہوتاہے کہ وہ دین کی خدمت کررہے ہیں اسلام کی خدمت کررہے ہیں اوراسی جذبے سے سرشار ہوکر لوگوں تک دین حق کی تعلیمات پہنچاناچاہتے ہیں اوراسی مقصد کیلئے انہوں نے یہ سائٹ شروع کیاہے۔دعویٰ کالب لباب اورخلاصہ یہی ہوتاہے۔ایسے دعویٰ کرنے والے سائٹس عمومی طورپر اپنانام بھی ایساہی رکھتے ہیں جس سے ان کاقرآن وحدیث سے خاص تعلق اورشغف ظاہرہو۔مثلاکتاب وسنت ،راہ سنت،راہ نجات،صراط مستقیم ،الحق المبین وغیرہ وغیرہ۔
ان سائٹس پر اگرکوئی شخص یہ مقصد لے کرپہنچے کہ وہاں ہمیں اسلام کی صحیح اورکھڑی تعلیمات ملیں گی اورہمیں دورحاضرکے بارے میں اسلام کی علمی اورعملی رہنمائی ملے گی تو وہ غلطی پر ہے۔ان سائٹس پر پرچار اوراشتہار تویہی ہے کہ وہ دین کی خدمت کررہے ہیں مگر اصلاًوہ اپنے مسلک کی خدمت کررہے اوراسی کے فروغ کیلئے یہ سائٹس بھی تیار کی ہیں۔ہرسائٹس کسی نہ کسی مکتب فکر کی جانب سے چلایاجاتاہے چاہے وہ دیوبندی مکتب فکرہو،بریلوی مکتب فکرہو،اہل حدیث مکتب فکر ہو۔اس سے صرف تبلیغی جماعت والے مستثنی ہیں کیونکہ ان کا نیٹ ورک خود ہی بہت مضبوط ہے۔
اس وقت میں نے چارویب سائٹ کاانتخاب کیاہے دو دیوبندی مسلک والوں کے اوردو اہل حدیث حضرات کے ۔
الحق المبین
اس سائٹ کا ربط یہ ہے۔http://www.haqulmubeen.com/Ahlehaq/
نام دیکھئے کتناشاندار ہے۔لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ یہاں بھی صرف مسلکی گروپ بندی کو فروغ دیاجارہاہے۔چنانچہ اس میںباقاعدہ رد مودودیت،ردوآغاخانیت،ردغیرمقلد اورردفلاں وفلاں پر کتابیںموجود ہیں ۔اس کااندازہ اس سے لگاسکتے ہیں کہ اس پر اصلاحی کتابوں کے ضمن میں صرف نو کتابیں ہیں جب کہ غیرمقلدیت پر 77کتابیں ہیں۔اب اگراسے مسلک کوبڑھاوادینے والی اوراختلافات پیداکرنے والے سائٹ نہ کہاجائے توکیاکہاجائے۔
حیرت کی بات تویہ ہے تقریباًکتاب لکھنے والے سبھی عالم حضرات ہیں دین کا علم سبھی نے حاصل کیاہے اورمشہور حدیث الدین النصیحۃ دین خیرخواہی کانام ہے پڑھ رکھاہے۔اس کی لمبی چوڑی تشریحیں رٹ رکھی ہیں لیکن جب اختلافی مسائل پر لکھنے آتے ہیں تومعلوم پڑتاہے کہ مقصد یہ نہیں ہے کہ پیار سے محبت سے سامنے والے کو سمجھابجھاکر دین کی صحیح اوردرست بات بتائی جائے بلکہ اس کو نیچادکھاناہے اس پر اپنی علمی برتری اورفوقیت ثابت کرنی ہے اس کو یہ دکھاناہے کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں تم اگرایک لکھ لفظ لکھوگے توبدلے میں دس لفظ لکھے جائیں گے۔اب ایسی کتابوں اورایسے عالموں کے بارے میں کیاکہاجائے۔
راہ سنت :اس کا ربط یہ ہے http://www.rahesunnat.com/
یہ سابقہ سائٹ سے کچھ بہتر ہے۔اس میں احادیث کی کتابیں بھی کچھ زیادہ ہیں اورسلیقے سے ہیں تاہم آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں دفاع اکابرین پر12،مروجہ بدعات ورسومات پر 14،مختلف فیہ مسائل پر7،علم الفقہ پر 9،کتابیں ہیں یعنی وہ کتابیں جن کا تعلق کسی نہ کسی حدتک ایسے مسائل سے ہے جس میں دوسرے مکتب فکر سے ہمارااختلاف ہے تواس پر کتابیں زیادہ تعداد میں ہیں۔اس کے بالمقابل اصلاح معاشرہ پر صرف ایک کتاب،اسلامی نظام معیشت پر صرف ایک کتاب ہے۔
اب آیئے جائزہ لیتے ہیں اہل حدیث حضرات کی دوسائٹس کا۔
کتاب وسنت ڈاٹ کام۔اس کا ربط یہ ہےhttp://www.kitabosunnat.com/
یہ ویب سائٹ بقیہ دوسائٹوں سے تنظیمی طورپر بہتر ہے اورکتابیں بھی شاید تھوڑی سی زیادہ ہیں۔سائٹ کا نام بہت خوبصورت ہے اورمقاصد بھی گھماپھراکر وہی بیان کئے گئے ہیں کہ دین اسلام کی سربلندی اوراس کی صحیح تعلیمات کو ہرایک تک پہنچانا۔لیکن عملی حال یہاں بھی یہی ہے کہ مقصد یہ نہیں کہ بے عمل مسلمان کو کام کا مسلمان بنایاجائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ مقلدوں کو کس طرح غیرمقلدبنایاجائے ۔یہی حال مقلدحضرات کی سائٹوں کا بھی ہے کہ وہ بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح غیرمقلدوں کو تقلید کے دائرہ میں لایاجائے۔بجائے اس کے کہ مسلکی اختلافات سے بالاترہوکر دین کی تعلیمات عام لوگوں تک پہنچائی جائے۔اس سائٹ پر ایک عنوان ہے تقابل ادیان۔اس کے تحت حنفیوں،دیوبندیوں،بریلویوں،تبلیغی جماعت والے،صوفیوںاورشیعہ حضرات کی خوب خبرلی گئی ہے۔اسی میں ایک باب ہے اہل حدیث۔اس سے براہ کرم یہ مت سمجھئے گاکہ انہوں نے فراخدلی دکھاتے ہوئے مقلدین نے جوکچھ غیرمقلدین کے بارے میں لکھاہے اس کی کتابوں کوبھی یہاں شامل رکھاہے۔یہ درحقیقت ان کی جانب سے غیرمقلدین کی برائت یااپنی جماعت کی فضیلت میں لکھی گئی کتابیں ہیں۔اس موضوع پر لکھی گئی کتابیں تقریباستر سے زائد ہیں جب کہ بالمقابل اصلاح معاشرہ یامعاشرے میں ایسی رائج برائیاں جن کی برے ہونے پر سب کااتفاق ہے اس پر کتابیں کافی کم ہیں یادورحاضر کاایک اہم مسئلہ اسلامی بینکنگ کا ہے۔اس پرکتابیں شاید ایک دوہیں ۔
بات صرف اتنی ہی حدتک محدود نہیں ہے نماز پڑھناہرمسلمان پر فرض ہے اورنہ پڑھنے والےکیلئے احادیث میں شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔لیکن ان سائٹس پر آپ کونماز کی اہمیت والی کتابیں کم ملیں گی اورزیادہ کتابیں اس طرز کی ملیں گی کہ رسول خداکی نماز نعوذ باللہ حنفی طریقہ کے مطابق یاغیرمقلدین کے مطابق ہوتی تھی۔یہی حال دین کے دوسرے احکام کابھی ہے اس میں زیادہ تران احکامات کی اہمیت سے زیادہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ احکام اگرفلاں مکتب فکر کے مطابق ہوتوسنت نبوی کے مطابق ہے ورنہ نہیں۔
صراط مستقیم اس کاربط یہ ہے۔http://www.sirat-e-mustaqim.net
یہ بھی غیرمقلدین حضرات کی سائٹ ہے اوراس پر بھی کتابوں میں بیشتر کتابیں وہی ہیں جن سے ان کابعض مسائل میں دوسرے مکاتب فکرسے اختلاف ہے۔کمتر کتابیں وہ ہیں جن کاتعلق خالصتامعاشرہ میں رائج برائیوں کو دور کرنے یاان کی قباحت وشناعت کوواضح کرنے کی جانب ہو۔بلکہ زیادہ توجہ اس جانب دی گئی کہ ہے کہ کس طرح حنفیوں اورمقلدوں کے لتے لئے جاسکتے ہیں۔اورکتابوں کے عنوان بھی ایسے شاندار تجویز کئے گئے ہیں کہ اگر وہ مبنی برحقیقت ہوں توپھروہ سیدھے کافر ہیں۔
ایک کتاب کاعنوان ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے احناف کااختلاف۔اگر یہ بات درست ہے توپھرتمام احناف کافر ہوئے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی جانتے بوجھتے اوریہ جان کر کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے مخالفت کرنا کفر ہے۔لیکن پھرحیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اسی معاشرہ میں حنفیوں اوراہل حدیث حضرات کے رشتہ داریاں بھی خوب چل رہی ہیں۔کافروں سے رشتہ داریاں !یہ کیامعمہ ہے؟
عرض یہ ہے کہ آج ہم میں مسلکی اختلافات نے اس قدر گھر کرلیاہے کہ دین کی خدمت بھی ہم مسلکی اختلافات کے نام پر کرتے ہیں۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ کل قیامت کے اللہ تبارک وتعالی قطعاًیہ سوال نہیں کریں گے کہ نماز میں رفع یدین کیاتھایانہیں،آمین بالجہر کہی تھی یانہیں،قراء ۃفاتحہ خلف الامام ہواتھایانہیں بلکہ سوال ہوگاکہ نمازپڑھی تھی یانہیں پڑھی تھی۔ یہ سوال نہیں ہوگاکہ فجر کی نماز غلس میں پڑھی تھی یاسفر میں بلکہ فجر کی نماز پڑھی تھی یانہیں اس کا سوال ہوگا؟اسی طرح دین کے جتنے بھی شعبے اورارکان ہیں اس میں اس رکن کے بارے میں سوال ہوگا اس میں ائمہ کرام کے اختلافات کے بارے میں سوال نہیں ہوگا۔لیکن آج ہم نے اپنے اختلافات کو دین بنارکھاہے اوراصل دین کو حاشیہ پر رکھ دیاہے۔ہم اس پر تولڑمرتے ہیں کہ تقلید یاعدم تقلید میں کون زیادہ بہترہے لیکن اس کے بارے میں ایک باربھی اپنی تنہائی میں نہیں سوچتے کہ کل جب اللہ سوال کرے گاکہ معاشرے میں گناہ بڑھ رہاتھاتوتم نے اپنی ذمہ داری کس حد تک پوری کی اس وقت ہم کون سے اختلافات کا سہارالیں گے۔اس وقت جناب باری تعالی میں ہماراکیاعذرہوگا۔آج جب کہ چندفروعی مسائل کی وجہ سے امت میں اورمعاشرے میں انتشار وافتراق ہے کل جب اللہ سوال کریں گے کہ یہ فروعی مسائل زیادہ اہمیت والے تھے یاامت کااتحاد واتفاق توخداکی بارگارمیں ہمارے پاس کیاجواب ہوگاکبھی ہم نے سوچاہے؟آئیے ذراسوچیں!
 

dxbgraphics

محفلین
یہ حقیقت ہے کہ ہر کسی نہ کسی مسلک کی پیروی کرتا ہے لیکن کیا آپ نے کبھی یہ مسالک جاننے کی کوشش کی ہے ۔ چاروں مسالک کے امام کی تعلیمات پر غور کیا ہے۔ کیا وہ غلط تعلیمات چھوڑ کر گئے ہیں یا انہوں نے ایک دوسرے کو غلط کہا ہے۔ باقی رہی بات ہمارے لوگوں کی تو یقینا آپ بھی کسی نہ کسی مسلک کی پیروی کرتے ہونگے۔اگر ہم مسلمان بن کر سب سوچتے تو آج کسی مزار پر غیر شرعی کام نہ ہوتے۔ نہ تبلیغی جماعت کی ضرورت تھی۔ نہ پیری مریدی کی ضرورت تھی۔ نہ ہی اہل حدیث ہونے کاکوئی دعوہ کرتا۔ چاروں مسالک میں سے کسی بھی امام نے دوسرے کو غلط کہا ہے ۔ بلکہ الٹا ہر امام نے دوسرے امام کا احترام کیا ہے اور عزت دی ہے۔

آپ کی نظر میں دین کی خدمت کی کیا تشریح ہے۔ جس میں مسلک کی خدمت کا جانبدارانہ الزام نہ لگ سکے۔

شکریہ
مع السلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
جزاک اللہ ابن جمال۔ درست لکھا ہے آپ نے۔ سب نے اپنے اپنے فرقے کی دکان کھول رکھی ہے اور ایک دوسرے کو نیچے دکھانے میں مصروف ہیں۔ ابھی یہاں بھی آپ کی خبر لینے پہنچ جائیں گے سب۔
 

ابن جمال

محفلین
یہ حقیقت ہے کہ ہر کسی نہ کسی مسلک کی پیروی کرتا ہے لیکن کیا آپ نے کبھی یہ مسالک جاننے کی کوشش کی ہے ۔ چاروں مسالک کے امام کی تعلیمات پر غور کیا ہے۔ کیا وہ غلط تعلیمات چھوڑ کر گئے ہیں یا انہوں نے ایک دوسرے کو غلط کہا ہے۔ باقی رہی بات ہمارے لوگوں کی تو یقینا آپ بھی کسی نہ کسی مسلک کی پیروی کرتے ہونگے۔اگر ہم مسلمان بن کر سب سوچتے تو آج کسی مزار پر غیر شرعی کام نہ ہوتے۔ نہ تبلیغی جماعت کی ضرورت تھی۔ نہ پیری مریدی کی ضرورت تھی۔ نہ ہی اہل حدیث ہونے کاکوئی دعوہ کرتا۔ چاروں مسالک میں سے کسی بھی امام نے دوسرے کو غلط کہا ہے ۔ بلکہ الٹا ہر امام نے دوسرے امام کا احترام کیا ہے اور عزت دی ہے۔

آپ کی نظر میں دین کی خدمت کی کیا تشریح ہے۔ جس میں مسلک کی خدمت کا جانبدارانہ الزام نہ لگ سکے۔

شکریہ
مع السلام
حضرت آئمہ کرام کے جوچارمسالک ہیں اس پر توبات ہی نہیں کی گئی ہے۔یہاں توبات صرف دومختلف مکتب فکر کے لوگوں کی اوران کے سائٹس کی رکھی گئی ہے کہ اس میں کس طرح اختلافیات پر کتابیں زیادہ ہیں اوروہ مسائل جن پر سب کااتفاق ہے اس پرکتابیں کم ہیں بلکہ نہیں کے برابر ہیں۔کیاآپ کو نہیں معلوم کہ آمین بالجہر والسر پراتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ پوراایک کتب خانہ باآسانی تیار ہوسکتاہے تقلید وعدم تقلید پر اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ اس پر بھی ایک کتب خانہ تیار ہوسکتاہے قرات فاتحہ خلف الامام پر اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ اس پرایک کتب خانہ تیار ہوسکتاہے۔جب کہ ہمارے معاشرے میں مختلف النوع کی برائیاں موجود ہیں ان کے برے ہونے میں کسی کابھی اختلاف نہیں لیکن دیکھ لیجئے ان مسائل پر لکھنے والے بہت کم بلکہ نہ کے برابر ہیں۔جب کہ حالت یہ ہے کہ یہ تمام مسائل صرف افضل اورغیرافضل کی بحث تک محدود ہیں۔کیااس کو دین کی خدمت کہیں گے۔آخر اس کتاب کی طباعت واشاعت کیلئے بھی توکسی ’مخیر‘کی جیب ڈھیلی کی گئی ہوگی۔کیااسی مخیر اس جانب مائل نہیں کیاجاسکتاہے کہ وہ اپنی یہ خیرات کسی بیوہ غریب خاتون کو دے دے ،غریب لڑکی کی شادی کرادے۔کسی بے روزگارنوجوان کو روزگارسے آراستہ کرادے۔لیکن بات صرف مسلک کی کہاں رہ گئی ہے۔بات اپنی انااورآن کی ہوگئی ہے۔
ورنہ ہم نے تواپنی کم علمی کے باوجود سناتھاکہ حضرت عبداللہ بن مبارک حج کے ارادے سے چلنے کے باوجود پوری نقد رقم جو کئی لاکھ درہم یادینارپر مشتمل تھی ان غریب بچیوں کو دے دیتے ہیں جن کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہوتا اوروہ ایک مراہوابطخ کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔کیاعالم حضرات جوایسی کتابوں پر بے دردی سے روپے ضائع کرتے ہیں انہیں عبداللہ بن مبارک کایہ عمل یاد نہیں یاملک میں کوئی غریب اوربھوکاننگانہیں؟
 
یہاں‌میں کسی کی وکالت نہیں کر رہا پر خود سے غور کرتا ہوں تو کچھ اسباب سمجھ میں آتے ہیں۔

- بھئی جب ہر مسلک کا ماننے والا اپنے مسلک کو ہی عین دین اسلام سمجھتا ہے تو وہ اپنی سائٹ کو دین کی خدمت کا نام کیوں نہ دے۔
- سائٹ مینٹینرس بہر کیف سو فیصد غیر جانبدار نہیں ہو سکتے یہ انسانی فطرت ہے۔
- کتابوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ عموماً کاپی رائٹ وغیرہ کے مسائل آڑے آتے ہونگے جبکہ "اپنی" کتابوں کو آزادی سے استعمال کر سکتے ہوں گے۔ یعنی اجازت نامے تک رسائی کا مسئلہ ہوتا ہوگا۔

میرے خیال میں ایسی کتابوں کا مناسب ذخیرہ برائے ریفرینس و ریسرچ تب زیادہ بہتر انداز میں مرتب کیا جا سکتا ہے جب اس میں کئی مسالک کے افراد اشتراک اور تعاون باہمی کی بنیاد پر کام کریں۔
 

dxbgraphics

محفلین
حضرت آئمہ کرام کے جوچارمسالک ہیں اس پر توبات ہی نہیں کی گئی ہے۔یہاں توبات صرف دومختلف مکتب فکر کے لوگوں کی اوران کے سائٹس کی رکھی گئی ہے کہ اس میں کس طرح اختلافیات پر کتابیں زیادہ ہیں اوروہ مسائل جن پر سب کااتفاق ہے اس پرکتابیں کم ہیں بلکہ نہیں کے برابر ہیں۔کیاآپ کو نہیں معلوم کہ آمین بالجہر والسر پراتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ پوراایک کتب خانہ باآسانی تیار ہوسکتاہے تقلید وعدم تقلید پر اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ اس پر بھی ایک کتب خانہ تیار ہوسکتاہے قرات فاتحہ خلف الامام پر اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ اس پرایک کتب خانہ تیار ہوسکتاہے۔جب کہ ہمارے معاشرے میں مختلف النوع کی برائیاں موجود ہیں ان کے برے ہونے میں کسی کابھی اختلاف نہیں لیکن دیکھ لیجئے ان مسائل پر لکھنے والے بہت کم بلکہ نہ کے برابر ہیں۔جب کہ حالت یہ ہے کہ یہ تمام مسائل صرف افضل اورغیرافضل کی بحث تک محدود ہیں۔کیااس کو دین کی خدمت کہیں گے۔آخر اس کتاب کی طباعت واشاعت کیلئے بھی توکسی ’مخیر‘کی جیب ڈھیلی کی گئی ہوگی۔کیااسی مخیر اس جانب مائل نہیں کیاجاسکتاہے کہ وہ اپنی یہ خیرات کسی بیوہ غریب خاتون کو دے دے ،غریب لڑکی کی شادی کرادے۔کسی بے روزگارنوجوان کو روزگارسے آراستہ کرادے۔لیکن بات صرف مسلک کی کہاں رہ گئی ہے۔بات اپنی انااورآن کی ہوگئی ہے۔
ورنہ ہم نے تواپنی کم علمی کے باوجود سناتھاکہ حضرت عبداللہ بن مبارک حج کے ارادے سے چلنے کے باوجود پوری نقد رقم جو کئی لاکھ درہم یادینارپر مشتمل تھی ان غریب بچیوں کو دے دیتے ہیں جن کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہوتا اوروہ ایک مراہوابطخ کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔کیاعالم حضرات جوایسی کتابوں پر بے دردی سے روپے ضائع کرتے ہیں انہیں عبداللہ بن مبارک کایہ عمل یاد نہیں یاملک میں کوئی غریب اوربھوکاننگانہیں؟

جناب سیدھی سی بات ہے ۔۔۔۔
آپ کی نظر میں دین کی خدمت کیسے کی جاسکتی ہے۔
اور جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ میں ٹھیک ہوں تو ٹھیک ہے لیکن میں ہی ٹھیک ہوں غلط ہے۔ اگر تو آپ کا یہ جملہ مان لیا جائے تو اختلاف کس بات کا ۔۔۔۔۔
اور آپ کا یہ تھریڈ شروع کرنا ہی "میں ہی ٹھیک ہوں‌" کی عکاسی کرتا ہے

مع السلام
 

S. H. Naqvi

محفلین
ابن جمال بھائی ماشاءاللہ آپ نے بہت خوبصورت مگر کڑوی باتیں کی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے آپ کا قصور بنتا ہی نہیں کیونکہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور اکثر اوقات مشکل سےہی ہضم ہوتا ہے۔:)
اگر تمام مکاتب فکر ایک دوسرے کے خلاف لکھنا چھوڑ دیں اور سب مل کر معاشرےکو سدھارنے اور عمومی برائیوں کو ختم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں تو خدا کی قسم معاشرہ جنت کا نمونہ بن جائے مگر کیا کیا جائے کہ کچھ لوگوں نے تو صرف اپنے پیٹ کی خاطر عوام کو انہی معروضات میں الجھایا ہوا ہے اور کچھ سوچنے ہی نہیں دیتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام فرقے ایک فرقہ بن جائیں کیونکہ یہ امر تو ناممکنات میں سے ہی مگر وہی ابن جمال بھائی والی بات کہ اپنے اصولوں کو اپنے لیے رکھیں اور خود کو بے شک حق پر سمجھیں مگر کم ازکم اس بات پر تو اکھٹے ہو جائیں نا کہ جو ان میں مشترکہ ہے اور جس میں معاشرے کو سدھارنے اور ایک فلاحی مملکت پیدا کرنے کے اسباب ہیں۔ جب قرآن دوسروں کےلیے یہ کہہ رہا ہے: کہدو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں تسلیم کی گئ ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کارساز نہ سمجھے۔ پھر اگر یہ لوگ اس بات کو نہ مانیں تو ان سے کہدو کہ تم گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ سورۃ: 3 آیہ: 64 رکوع: 7
تو جب اللہ کا پیغام اتنا واضح ہے تو کیا ہم مسلمان اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرقوں کی مشترکہ باتوں پر جمح ہو کر معاشرے کے لیے کوئی فلاحی کام نہیں کرسکتے؟؟؟؟؟
میرا تو ذاتی خیال یہ ہے کہ جو ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب پر یقین رکھتا ہو اور مذہب کی بنیادی عبادات و افعال کو سمجھتا اور ان پر عمل کرتا ہو تو یہ اس کےلیے کافی ہے اور باقی جہاں تک فرقے کی بات ہے تو ہم سب کر کے بھی اپنے آپ پر سے فرقے کا لیبل اتار نہیں‌سکتے کیونکہ ہم جو بھی عمل کریں گے تو کسی نہ کسی فرقے سےمماثلت تو رکھے گا، مثلاً نماز بھی پڑھیں تو کسی بھی طریقے سے پڑھیں تو وہ طریقہ کسی نہ فرقے کے طریقے سے مماثلت تو رکھے گا اور دیکھنے والا ہمارے عمل سے ہمیں اسی فرقے کا سمجھ لے گا۔ مطلب یہ کہ آج کے دورمیں یہ بہت مشکل ہے کہ ہم تمام فرقوں سے برات کا اظہار کریں تو اس کا حل یہی ہےکہ بے شک فرقے کو تھامے رہیں اور اپنے فرقے کو حق بھی سمجھیں مگر " حق ہی" نہ سمجھیں اور ایکدوسرےکے ساتھ مشترکہ عقائد پہ ساتھ چلیں اور معاشرے اور دین کی فلاح کو مقدم رکھیں تو انشاءاللہ سب بہتر ہو سکتا ہے اور آج کل جو کہ مسلمانوں کی پستی کو دور چل رہا ہے اور ہر جگہ مسلمان کو کچلا جا رہا ہے، مسلا جا رہا ہے تو اس چیز کا مقابلہ کرنے کا یہی حل کیونکہ اگر کوئی ہندو کشمیر میں کسی مسلمان کو شہید کرتا ہے، کوئی عیسائی یا یہودی فلسطین میں اور کوئی امریکہ وزیرستان میں کوئی ڈروں حملہ کرتا ہےتو سب مارنےسے پہلےیہ نہیں پوچھتے کہ تم میں سے بریلوی کون ہے، وہابی کون ہے، مقلد کون ہے یا غیر مقلد کون ہے؟؟؟؟؟؟؟  
 

ابن جمال

محفلین
جناب سیدھی سی بات ہے ۔۔۔۔
آپ کی نظر میں دین کی خدمت کیسے کی جاسکتی ہے۔


http://www.scholaris.com/islam/learning/PDF/BU-30-31_Unity_of_Muslim_Ummah.pdf
مفتی محمد شفیع صاحب کی یہ کتاب وحدت امت کے نام سے ہے۔براہ کرام پڑھ لیں آپ کو یہ بھی معلوم ہوجائے گاکہ دین کی خدمت کس چیز کانام ہے اورموجودہ دور میں جودین کی خدمت کی جارہی ہے کیاوہ واقعتآدین کی خدمت ہے۔
والسلام
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم !
اس معاملے کو اگر ایک الگ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو کچھ تلخ حقائق بھی سامنے آتے ہیں۔

دَور حاضر اگر اشتہارات کا دَور ہے تو خود انٹرنیٹ پر اس رحجان کی ترقی ، ترویج اور مقبولیت ، اظہار کی محتاج نہیں۔ ایڈسنسن ، ایڈورڈز ، ایڈبرائٹس اس کی کچھ سادہ سی مثالیں ہیں۔
اب ایسے میں کچھ لوگ مذہبی کتب کی اشاعت یا مشتہری کے لیے قرآن و حدیث ، قرآن و سنت ، کتاب و سنت وغیرہ وغیرہ کے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں تو یہ معاملہ قابل درگزر اس لیے ہونا چاہئے کہ ۔۔۔۔ کسی کتاب کا نام قرآن یا صحیح بخاری رکھ دینے سے وہ بذات خود قرآن یا صحیح بخاری نہیں بن جاتی۔ آج کا باشعور قاری چند صفحات کے مطالعے کے بعد ہی حقیقت جان لیتا ہے کہ اسے کتاب پڑھنی / خریدنی ہے یا آگے بڑھ جانا ہے؟

عوام یا معاشرے کی اصلاح ایک علیحدہ امر ہے اور دین سے متعلق مباحث ، جزئی یا فروعی تفصیل ، تحقیق و تنقید پر مبنی کتب کی اشاعت اور ان کا فروغ ایک قطعاً مختلف بات ہے۔ ایک معاملے پر عمل کیلیے زور دینے کا مطلب یہ نہ ہونا چاہئے کہ دوسرے معاملے کو یکسر رد یا ختم کر دیا جائے۔
مغرب کے مقابلے میں ہمارے معاشرے میں خواندگی کی شرح نہایت کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ابتدائی سطح کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے لیکن کیا اس کے لیے ہم جامعات یا وہ ادارے بند کر دیں جہاں تحقیق و تنقید اور تجربات و جمعِ اعداد و شمار ہوتے ہیں؟
اگر صرف قرآن و سنت ہی کی بات ہے تو پھر بقول کچھ احباب کے ، صرف دو کتابیں کافی تھیں ایک قرآن اور دوسرے احادیث کا ایک جامع مجموعہ !
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ 1400 سال سے دین کی تفصیل و تشریح مسلسل بیان کی جا رہی ہے چاہے وہ کتبِ احادیث کی شکل میں ہو یا کتبِ فقہ یا کتبِ اصول یا کتب اسماء و رجال یا کتب لغات ۔۔۔ کیا یہ سب کارِ عبث ہے؟؟

حدیثِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق تہتر فرقوں میں امت مسلمہ بٹ جائے گی۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس نبوی پیشین گوئی کا ہم نہ انکار کر سکتے ہیں اور نہ اسے روک ہی سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان کی شناخت کیسے ہو؟ ظاہر ہے کہ یہ سب دجال کی طرح اپنے اپنے ماتھے پر لیبل لگا کر نہیں آئیں گے۔ پھر کوئی ناجیہ فرقے تک کیسے پہنچے اور بغیر اسے شناخت کئے کیسے ناجیہ فرقہ کی اصلی تعلیمات پر عمل پیرا ہو؟
یقینی بات ہے کہ یہ شناخت ان افعال و اعمال و اقوال کے ذریعے ہی ہوگی جو ان طبقات / مسالک / فرقوں کی خصوصیات میں شمار ہوں گی اور جن کا علم ہمیں براہ راست ، بالراست یا پھر ان کے میڈیا کے ذریعہ ہوگا۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ فرقہ بندی یا مسلک بندی پر روک لگا دینی چاہئے یا فرقوں / مسالک کو اپنی اپنی تعلیمات کی ترویج یا اس کے فروغ سے باز رکھنا چاہئے مگر زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ اور ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ایسی کوشش کرے بھی تو اسے ایک نئے فرقے کا نام دے دیا جاتا ہے اور "غیرمقلدین کا مسلک" کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی مسلک اپنی تعلیمات کو فروغ نہ دے اور اس بات پر بھی زور رہے کہ ہم کسی نہ کسی مسلک سے جڑے رہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں کہلائے گا؟

اصلاح معاشرہ یا عوام تک بنیادی دینی علم کی ترسیل اچھی چیز ہے اور اس عمل کو اولیت بھی دیا جانا چاہئے مگر ۔۔۔۔۔
بات پھر وہیں آ کر اٹکتی ہے کہ :
کون گارنٹی دے گا کہ اصلاح معاشرہ / بنیادی دینی علوم کی فراہمی کی جو مہم فلاں فلاں فرد یا جماعت چلا رہی ہے ۔۔۔ وہ سو فیصد اور خالصتاً قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی ہے؟
ہم ایک ایسے دَور میں آ چکے ہیں جہاں فرقوں کی اکثریت غالب ہو چکی ہے اور اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں۔
اور اس بات کا مشاہدہ صرف دینی ویب سائیٹس کے معاملے میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اشتہاری مسابقت کا سامنا ہے۔ بازار میں صرف ایک ٹوتھ پیسٹ لینے جائیں تو دسیوں برانڈ نظر آ جائیں گے۔ اب اگر کوئی اٹھ کر کہہ دے کہ ۔۔۔۔ یار، بازار خراب ہو چکا ہے ، کوئی بھی غریب معصوم عوام کا خیال نہیں کر رہا بلکہ ہر کوئی اپنا برانڈ اپنی کمپنی چمکانے کے چکر میں لگا ہے ۔۔۔۔ ، لہذا بازا جانا ہی چھوڑ دینا چاہئے ! تو ذرا بتائیے کہ سننے والے کا کیا جواب رہے گا؟؟

آخری بات امت کے انتشار وافتراق اور اتفاق و اتحاد کی رہ جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ انتشار وافتراق کا سبب کیا یہ ویب سائیٹس یا بقول دیگر "فرقوں کی دکانیں" ہیں یا امت مسلمہ کا مجموعی کردار؟؟
ماں کی گود سے نکل کر مدرسہ جانے ، اساتذہ اور ساتھیوں سے ربط و ضبط بڑھانے ، کالج و جامعہ تک پہنچنے ، شادی رچانے اور اولاد پیدا کرنے تک وہ کون سے امور ہیں جو ایک مسلمان کو کردار کا غازی یا اقبال کا شاہین بناتے ہیں؟ اگر صرف اور صرف یہ کتابیں وجہ نہیں ہیں تو پھر ان بچاری کتب پر انتشار وافتراق الزام کیوں ؟؟
کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ۔۔۔۔
بس مسلماں کو اک بہانہ چاہئے شکایت کا !!

آخر میں ذاتی طور پر میں یہ افسوس بھی ظاہر کرنا چاہوں گا کہ انٹرنیٹ پر اردو دینی کتب کو مہیا کرنے اور عام لوگوں کو مطالعے اور تحقیق و تنقید کی جانب راغب کرنے کے رحجانات کو فروغ دینے پر بھی ہمارے بعض مخلص ساتھی نادانستگی میں پابندی لگانے کی باتیں کرنے لگے ہیں ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔
ایسے انفرادی رحجانات کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے !!
ورنہ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اردو میں ہے کیا؟ یہی شعر و شاعری ، ادب ، مزاح پھکڑپن ، رقص قوالی ، غزل نظم زلفِ پریشاں پیچ و خم چاہِ زخن وغیرہ وغیرہ !!
 

طالوت

محفلین
ان تمام مراسلات پر شکریوں سے اندازہ پوتا پے کہ ہم اس بات پر کس قدر متفق ہیں مگر صرف محفل پر ہی نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔
وسلام
 
ہر کام اعتدال میں رہے تو حسن اور خوبی کا باعث بنتا ہے ورنہ بدنمائی اور بدمزگی کا موجب ہوتا ہے۔ دینی نقطہء نظر سے اختلاف وغیرہ کا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن بدقسمتی سے اسی اختلاف کو اپنا محور و مرکز بنا لینا اور مخالف کے حوالے اپنی شناخت کا خوگر ہونا یعنی اندھیروں کے ذریعے ہی نور کا ادراک کرنا ایک عام سا طرز عمل بن چکا ہے۔ گویا 'ترا وجود ہے لازم مری غزل کیلئے' والا معاملہ زیادہ نظر آتا ہے۔
اسلام میں صرف سبحان اللہ ہی نہیں ہے۔ ۔ الحمدللہ بھی ہے۔
اعوذ باللہ ہی نہیں ہے۔ ۔ ۔ بسم اللہ بھی ہے۔
استغفراللہ ہی نہیں ہے۔ ۔ ۔ اتوب الیہ بھی ہے۔
مغضوب علیھم اور ضالین ہی نہیں‌ہیں ۔ ۔ ۔انعمت علیھم بھی ہیں۔
تضادات و امتیازات کی کثرت ہی نہیں ہے۔ ۔ ۔بلکہ وحدت و یگانگت بھی ہے۔
 

کعنان

محفلین
دین کی خدمت یامسلک کی خدمت

اس وقت میں نے چارویب سائٹ کاانتخاب کیاہے دو دیوبندی مسلک والوں کے اوردو اہل حدیث حضرات کے ۔
الحق المبین
اس سائٹ کا ربط یہ ہے۔http://www.haqulmubeen.com/ahlehaq/

اب آیئے جائزہ لیتے ہیں اہل حدیث حضرات کی دوسائٹس کا۔
کتاب وسنت ڈاٹ کام۔اس کا ربط یہ ہےhttp://www.kitabosunnat.com/

السلام علیکم بھائی

بہت شکریہ اتنی مفید معلومات پہنچانے پر جس سے میرا ایک شک ایک کتاب پر کنفرم ہو گیا کیونکہ وہاں سے اس پر کوئی حوالہ نہیں ملا تھا۔

ان دو ویب سائٹس کو تو میں‌ نے چیک کیا ہوا ھے باقی کا بھی وزٹ کریں گے۔

اس میں جو کتاب و سنت سائٹ ھے اس پر تو میں نے ایک بیچنے والی کتاب پر اعشائیہ دیا ہوا تھا جسے پڑھ کر میں‌ نے وہاں اپنے کمنٹس چھوڑے تھے کہ بھائی صاحب یہ جو آپ نے کتاب پر اعشائیہ دیا ہوا ھے یہ عبارت آپ نے دین کی کس کتاب سے لی اس کا حوالہ درکار ھے کیونکہ یہ عبارت دین کی کسی بھی کتاب سے نہیں لگ رہی جو یہاں پر بڑے اعلی درجہ سے پیش کیا جا رہا ھے، اس پر خاص طویل مضمون میں نے لکھا تھا، پھر دو دن بعد مفتی اعظم کا جواب آیا تھا کہ‌‌ آپ اس کتاب کو ایک بار پڑھ کر تو دیکھیں، پھر میں نے انہیں لکھا کہ جناب میں نے آپ سے حوالہ مانگا تھا مشورہ نہیں ، کتاب تو میں تب پڑھوں کہ مجھے فرنٹ پیج پر کچھ نظر آتا ہو کہ کہ ۔۔۔۔۔؟‌‌‌ اور بھائ جو آپ نے اس پر لکھا ھے کہ گھما پھڑآ کر اسی جگہ آ جاتے ہیں تو اس میں‌ کوئی شک نہیں‌‌ گمانے والی عبارت کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ھے جیسے کوئی پروفیشنل گیم کرنے والے ہوتے ہیں۔
اس ویب سائٹ‌ کے ریگولر ممبر کو شائد میری اس کتاب پر کنورزیشن نظر آ جائے کبھی۔

والسلام
 

عباد1

محفلین
ابن جمال صاحب کسی بھی چیز پر تنقید کرنا بے حد آسان ہے۔ اور ویسے بھی آپ نے ایسا موضوع چنا ہے کہ اس پر کچھ بھی لکھ دیتے آپ کو دس پندرہ ’’شکریے‘‘ راہ چلتے ہی ہاتھ لگ جاتے۔ خیر مین مقصد کی طرف آتے ہیں تو جناب تنقید سے پہلے تو تنقید کرنے والے کا معیار بھی دیکھنا چاہیے۔ اب یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی چار آنے کی سائنس پڑھ کر آئن اسٹائن کو گا لیاں دینا شروع کر دے تو برائے مہربانی پہلے اپنا تعارف کرائیں کہ آپ خود کتنے پانی میں ہیں جو آپ نے ان ویب سائٹس کو بلیک لسٹ کرنے کی سعی کر ڈالی۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے ہمارے سامنے ان ویب سائٹس کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی کوشش کی تو ساتھ میں چند قابل اعتبار ویب سائٹس بھی بتا دیتے تو ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ آپ نے یہ تنقید دین کی خدمت سمجھ کر کی ہے یا مسلک کی۔ جب آپ اپنی پسند کی کچھ ویب سائٹس دیں گے تو ہمیں بھی آپ کے بارے میں اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا۔
اور آخری بات یہ کہ آپ نے نشانہ انھی ویب سائٹس کو بنایا جہاں فقط توحید کی دعوت دی گئی تھی نا کہ بدعات کی۔ افسوس کی بات ہے کہ ان ویب سائٹس پر ’’ہاتھ کے ہاتھ استخارہ کرائیں‘‘ کے اشتہار بھی نہیں۔ اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں چند اچھی ویب سائٹس کے لنک مہیا کریں :confused:
 
السلام علیکم
جناب ابن جمال بھائی سب سے پہلے میں آپ کو دعا دوں گا جزاک اللہ ، واقعی آپ نے درست تجزیہ کیا ہے ، گو یہ بات بھی ہے کہ مختلف مکتبہ فکر کے حضرات اپنے اپنے نکتہ فکر وضاحت کرنے یا اس کا مدافعت کرنے کا حق رکھتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہے کیونکہ جب دعویٰ کیا جائے تو ثبوت و دلیل بھی دینا ضروری امر ہے ساتھ ہی ساتھ مدافعت بھی ۔ لیکن ان کاموں کو مقصد اصلی بنالینا ، یہ کوئی کمال نہیں ، کمال تو اس بات کی ترویج ہے جو بنیادی ہے یعنی دین و اسلام یا کتاب و سنّت ، مگر نکتہ فکر اسمیں ایسا کھلا ہوا ہے جیسے آٹے میں نمک اس لئیے تمام کے تمام مکتبہ فکر کے احباب کی کاوشیں اسمیں خلط ملط ہو ہی جاتیں ہیں ، اب ایک نماز کا ذکر لے لیں ایک دیوبندی مکتبہ فکر کا وسیع القلب عالم بھی بنا کہیں نہ کہیں اپنے نکتہ فکر میں الجھے بنا اسمیں آگے بڑھ نہیں سکتا ، اسی طرح دوسرے بھی ہیں ۔ یا کسی اور مکتبہ فکر نے اپنی کسی دلیل کو ایسے ہی کسی موضوع میں ظاہر کیا اور دوسروں پر کچھ تنقید تو جواب کا آنا لازمی ہے۔
یہ ساری باتیں تو ہوئیں آپ کے تجزئیے پر اپنے تاثر کی اب آئیے اپنے اوپر یعنی عوام الناس ، اسکا کیا مزاج ہے ، اصلاحی کتب جن میں مسالک ٹکراو نہیں ان کیا حثر ہے ، الیکٹرنک میڈیا تو جدید ہے ۔ کتابیں تو پہلے چل رہیں ہیں۔ اب دیکھیں جناب عبداللہ حیدر صاحب کا دھاگا جس بہت ہی کم مسلکی اختلاف ہر بات ہے اور جہاں ہے وہاں کسی کی جانب سے دلایل نہیں دیے گئے جو قراٰن و حدیث سے قریب تر لگا اسکی جانب ، دیگر لوگوں کے نکتہ فکر کی طرف اشارہ کرکے خود بھی اشارہ کر دیا گیا دعویٰ نہیں کہ یہی عین ثواب ہے۔ اب اس دھاگے کا کیا حثر ہے۔ اسمیں بھی انکو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اسکو کسی مکتبہ فکر کے زیر لائیں یا یہ کہ یہ نیا مسلک ہے ۔ اختلاف تو بہت جگہ ہے مگر ہم ہی یہ چاہتے ہیں کہ انھیں اختلافی نکات کو پیسا جائے ، سیدھی بات اگر سننا ہے تو ان علماء کی ضرورت ہی ہم کو کیا ہے ہم کو چٹخارے دار بات چاہئے جو کبھی پرانی نہیں لگتی ، عبداللہ کے دھاگے سے کچھ نیچے جائیں تو برسوں پرانا متعہ کے موضوع کا دھاگا ملے گا۔ جو آج بھی تازہ ہے۔ اسکی پوسٹ گن لیجیے کتنی ہیں اس سے انداز لگے گا کہ اصلاحی موضوع کی ضرورت ہم کو کتنی ہے اور اختلافی موضوع کی کتنی، عوام جس پیج پر کلک کرے گی تو سائیٹیں انھیں پیج کو بڑھائیں گی بس بات یہ ہے انحطاط پذیر دنیا ہے جو کم زیادہ آ رہا اسکی حوصلہ افزائی زیادہ ضروری ہے مفتی محمد شفیع صاحب سے مولانا ذکریا صاحب نے ایک مرتبہ کہا کہ حضرت اب تو لوگوں کو پکڑ کر بیعت کرنے کا وقت ہے، نہ کے آنے والوں کو دحتکارنے کا ۔ تو بھائی اسمیں جو روشن پہلو ہے اس سے روشناس کرانا زیادہ اچھا ہے بجاے اس سے متنفر کرنے کے، میرے ذاتی خیال سے آپ نے جن پہلوں پر سوال اٹھائے ہیں وہ بلکل درست ہیں ، لیکن اگر اسمیں آپ اس انداز کو اختیار کرلیتے کہ ان جگہوں پر جاکر اختلافی و مسلکی ترویج کے موضوعات سے بچ کر اصلاحی بھولوں کو چن لیجے تو شائید زیادہ مفید ہوتا ، آپ نے اس تحریر کے ذریعے ان اختلافی مضامین کو دیکھنے والوں کی تعداد بڑھائی ہے نہ کہ اصلاح کے خواہش مندوں کی ، نیز آپ کا دھاگا فورم پر اسی قسم کے مضامین کے جیسا اضافہ ہے جن مسلکی ترویج والے مضامین پر آپ نے اشارہ کیا ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
ایک شکریہ میری طرف سے بھی قبول فرمائیں۔ویسے ہم نے سن رکھاتھا۔’’انظرالی ماقال ولاتنظرالی من قال‘‘لیکن اب اس کے برعکس ہماراعمل ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ پہلے اپنی شناخت کیجئے کہ دیوبندی ہیں بریلوی ہیں یااہل حدیث ہیں پھراس کے بعد آپ کی بات مانی جائے گی۔
 

مدرس

محفلین
ایک شکریہ میری طرف سے بھی قبول فرمائیں۔ویسے ہم نے سن رکھاتھا۔’’انظرالی ماقال ولاتنظرالی من قال‘‘لیکن اب اس کے برعکس ہماراعمل ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ پہلے اپنی شناخت کیجئے کہ دیوبندی ہیں بریلوی ہیں یااہل حدیث ہیں پھراس کے بعد آپ کی بات مانی جائے گی۔

اپنی شناخت بھی کرادیں‌
 
Top