آپی کو جتنے اشعار غالب کے یاد ہیں، مجھ کو شک ہے کہ غالب نے اتنے کہے بھی نہیں ہوں گے۔
آپا جی کچھ عرصہ پہلے ہم نے آپ کو ذاتی پیغام میں شرح غالب کی بابت توجہ دلائی تھی کہ دیوان تو آگیا اب ہم سے کوڑھ مغزوں کے لیے ایک آدھی شرح کا بھی برقیانا ازحد او ازبس ضروری ہے۔!
اگر نہیں تو بس دیکھ لیجئے ہم آپ کا سر کھائیں گے واسطے تشریح کے یا پھر ہمارے اساتذہ کے پینل کے لوگ اس کی زد میں آئیں گے۔
اساتذہ کے پینل کی بابت ہم کہیں اور کچھ عرض کر چکے ہیں دھاگہ خو ڈھونڈئیے۔
محسن بھیا ، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا، کہ میں فرہنگ غالب پر کام شروع کر رہی ہوں تو وہ کام شروع ہو چکا ہے۔ 10 غزلوں کی فرہنگ لکھ چکی ہوں۔ نمونہ برائے تنقید و تبصرہ اور برائے مشورہ حاضر ہے۔
الف
1۔
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاؤکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
فرہنگ
نقش: تصویر
پیرہن: لباس
شوخی: شرارت، دل لگی
کاغذی پیرہن: کاغذی لباس جو زمانۂ قدیم میں فریادی پہنتے تھے۔(نوائے سروش)
پیکرِ تصویر: لفظی معنی ہیں، تصویر کا بدن، یہاں تصویر کا خاکہ مراد ہے
کاو کاو: کاوش، سخت محنت، رنج
سخت جانی ہائے: سخت جانی کی جمع، حد درجہ جفا کشی
جو: نہر
جوئے شیر: دودھ کی نہر، روایت کے مطابق وہ نہر جو فرہاد نے بے ستون پہاڑ کر بنائی تھی تاکہ شیرین کے باغ تک پانی پہنچ جائے (نوائے سروش)
شوق: یہاں اس سے مراد ہے محبوب کے ہاتھوں قتل ہونے کی خواہش
آگہی: آگاہی، شعور، باخبری
شمشیر: تلوار
دمِ شمشیر: شمشیر کی دھار
شنیدن: سننا
عنقا: ایک خیالی پرندہ، ناپید
بسکہ: چونکہ
آتش زیر پا: جس کے پاؤں کے نیچے آگ ہو، بے قرار، مضطرب
مو: بال
موئے آتش دیدہ: بال جسے آگ نے چھوا ہو۔ ایسا بال بل کھا کر حلقے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
2۔
جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسدؔ، غمخوارِ جانِ دردمند آیا
فرہنگ
جراحت: زخم
الماس: ہیرا
ارمغان/ ہدیہ: تحفہ، سوغات
3۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسود تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا
فرہنگ
جز: سوائے
قیس: لیلٰی کا عاشق، مجنون
بروئے کار آنا: نمایاں ہونا
حَسود: بہت حسد کرنے والا
حُسود: حاسد کی جمع
آشفتگی: پریشانی
سویدا: دل کا سیاہ نقطہ
دود: دھواں
زیاں: نقصان
سود: نفع
ہنوز: اب تک
ننگِ وجود: ہستی کے لیے باعثِ شرم
تیشہ: پتھر توڑنے کا آلہ
کوہ کن: پہاڑ کو کھودنے والا، فرہاد کا لقب
سر گشتہ: جس کا سر پھر گیا ہو، حیران، پریشان
خمار: خمار غلط معنوں میں نشے کے لیے سمجھا جاتا ہے مگر خمار در اصل نشہ اترنے کی کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت میں بے لطفی اور اعضا شکنی سی طاری ہوتی ہے
رسوم و قیود: رسم و رواج
4۔
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
فرہنگ
مدعا پایا: مطلب سمجھ میں آگیا
دشت: صحرا
پرکاری: عیاری، مکر
بے خودی: سرشاری، مستی
تغافل: بے پروائی کا سلوک کرنا
جرأت آزما: ہمت کا امتحان کرنے والا