ایک تو ہمارے ذہن میں سوال یہ اٹھا کہ کیا چھوٹے دھمکیاں نہیں دیتے؟
دوسرا آپ نے فرہنگ غالب یہیں پر اچانک رکھ چھوڑی میرا خیال ہے کہ نمونہ تھا؟
اب ہم آتے ہیں اپنے تاثرات کی جانب بحوالہ دیوان غالب نسخہ برقیتیہ۔ اتارنے کے بعد جو ہم نے دیکھا تو پہلی ہی غزل میں چند اشعار سرخ تھے ہمیں گمان گزرا کہ غالبا غالب نے وفات سے پہلے تاکید کردی ہوگی کہ میاں فلاں فلاں اشعار و غزلیات بچوں کے پڑھنے کی ہرگز نہیں، انہیں قطعی نہ شائع کیا جائے، یہ محض بالغوں کے واسطے ہیں اس واسطے یہاں بھی سرخ کر چھوڑے ہیں کہ صاحب اپنی ذمہ داری پڑھیے! پڑھنے پر ہم کو یہ اشعار سمجھ بھی نہ آئے تو گویا دل سے مسرت کے زمزمے پھوٹ نکلے اس مستند دلیل پر کہ ہم ابھی بچے ہیں، معصوم ہیں کہ دیوان غالب سے تو یار لوگ فال بھی نکالا کرتے ہیں سو ہمیں بھی سند معصومیت مل گئی۔
تاہم غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اوپر کچھ اعداد لکھے ہوئے ہیں۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ ہائیں؟ ایں چہ چکر است؟ دیوان غالب میں ریاضی؟ پھر ہم کو یاد آیا کہ علمی کتابوں میں وہ جو دستور ہے کہ بات سیدھے سبھاؤ یا بین السطور ہرگز نہیں لکھ دیا کرتے کچھ چھپ چھپا کر حاشیوں پر بھی درج کی جاتی ہے تاکہ قاری کی علمی پیاس کا امتحان بھی ہو اور قاری محسوس بھی کرے کہ وہ واقعی بہت عالم فاضل شخصیت ہے حالانکہ اس تکلف کی قطعا ضرورت ہمارے لحاظ سے نہ تھی کہ ہم ہمہ وقت خود کو ہمہ جہت شخصیت سمجھتے ہیں سو اس حاشیہ آرائی کا محض تکلف کیا گیا۔
بہرطور جو ہم حاشیوں کی طرف متوجہ ہوئے تو بہت باریکی میں لکھا تھا کہ یہ اشعارفلاں ریاست کے فلان الدولہ کے ذاتی کتب خانے سے فلاں سن میں برآمد ہوئے تاہم اس پر اختلاف ہے کہ غالب کے ہیں یا نہیں بایں ہمہ اس پر علما میں کافی سر پھٹول بھی ہو چکی ہے تاہم کوئی تصفیہ طے نہیں پایا سو ہم کو تو محض ٹائپ ہی کرنا ہے ہمارا کیا جاتا ہے کیے دیتے ہیں و علی ہذا القیاس۔
اس قسم کے حاشیوں کو پڑھنے کے بعد خواہش ہوئی کہ اس دیوان کو نستعلیق میں ہونا چاہئے سو اس پر نستعلیق جو لگایا نوری والا تو دیوان کم عاشق کا گریبان زیادہ ہو گیا کہ ہرچند کہیں ہے کہیں نہیں ہے۔ سو ہم کو خیال ہوا کہ محفل پر جو منصوبہ چل رہا ہے اس میں دو گھنٹے مزید دیے جائیں سو ہم ہفتے کے روز بھی حاضر ہوئے اس خوف سے کہ غالب تو زندہ نہیں مگر ان کی بھتیجی تو ماشااللہ زندہ سلامت ہے ہم سے باز پرس کرنے کو کہ میاں کے کام کے ہو؟
تاہم اس تحریر کی وجہ تسمیہ دیوان غالب ہرگز نہیں بلکہ ہمارے ایک رکن خرم شہزاد خرم کی ایک بے ساختہ غزل ہے جس کا مطلع ہم کو آتے جاتے کھاتے پیتے یاد آتا رہتا ہے
زندگی امتحان ہے خرم۔۔۔
ویسے دیوان غالب کی حواشی میں بیان کردہ احوال پڑھ کر ہم کو بھی خیال آيا کہ ہم اس مصرعے کو کچھ یوں تبدیل کریں:
زندگی امتحان ہے محسن۔۔۔
اور اس کے بعد شور مچا دیں کہ دیکھئے صاحب ہماری غزل خرم صاحب کے ذاتی کتب خانے سے برآمد ہو رہی ہے ایں چہ ظلم است! خرم صاحب بے شک نواب الدولہ نہ سہی تاہم اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہم تو غالب کی سطح کے آدمی ہیں، اس قسم کا واقعہ اور وہ بھی ہماری زندگی میں پیش آنا کچھ عجب نہیں بلکہ عین قرین قیاس ہے۔ تاہم یہ خرم صاحب کی خوش قسمتی کہ جو بے ساختگی
زندگی امتحان ہے خرم۔۔۔
میں موجود ہے، وہ ہم کو
زندگی امتحان ہے محسن ۔۔۔
میں محسوس نہ ہوئی اور ہم اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہے وگرنہ اسلام آباد کی چیز راولپنڈی کے کسی ذاتی کتب خانے سے نکل آنا کچھ عجب نہیں جب کہ اس سے پہلے فوج کا چمکتا اسلحہ لال مسجد سے برآمد بھی ہو چکا ہو۔ ویسے زندگی امتحان ہے محسن موزوں نہ بیٹھنے پر ہم خوش بھی ہیں کہ شاید زندگی محض خرم صاحب کا ہی امتحان ہے، ہم بری الذمہ ہیں کہ
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔۔۔
اردو کی تمام مشہور و معروف غزلیات پر یار لوگوں نے گرہیں لگائی ہیں، ہم خرم صاحب کے کلام پر کچھ طبع آزمائی کرتے ہیں:
زندگی امتحان ہے خرم
مشکل میں جان ہے خرم
تیز رفتاری کا یہ انجام ہوا
ہاتھ میں چلان ہے خرم
غالب کی بھتیجی ہیں وہ
گویا غالب پٹھان ہے خرم
استعفی کیوں نہیں دیتا وہ
بہت سخت جان ہے خرم
منصفی کس سے چاہو گے؟
یہ پاکستان ہے خرم!
ہمارا خیال ہےکہ پانچ اشعار ہو گئے ہیں غزل کے واسطے اسے تسلسل اور ترنم سے پڑھئے بہت لطف رہے گا۔ دوسری غزل جو ہمارے تخیل و تصور میں تیر کی طرح ترازو ہے، وہ جناب وارث صاحب کی غزل ہے
عشق میں بھاگنا حلال نہیں
شاعری فقط قیل و قال نہیں
سو اس پر ہم گرہ بعد میں لگائیں گے، ابھی ہم کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے سوتے اپنے حلق کی طرح خشک ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں، ہم پانی پی کر آتے ہیں!
ویسے قادری صاحب کی بھی ایک غزل ہے وہ ہم کلام رہا دیر تک ایک لطف نا تمام رہا۔۔۔۔ دیر تک!
دوسرا آپ نے فرہنگ غالب یہیں پر اچانک رکھ چھوڑی میرا خیال ہے کہ نمونہ تھا؟
ایک تو ہمارے ذہن میں سوال یہ اٹھا کہ کیا چھوٹے دھمکیاں نہیں دیتے؟
دوسرا آپ نے فرہنگ غالب یہیں پر اچانک رکھ چھوڑی میرا خیال ہے کہ نمونہ تھا؟
اب ہم آتے ہیں اپنے تاثرات کی جانب بحوالہ دیوان غالب نسخہ برقیتیہ۔ اتارنے کے بعد جو ہم نے دیکھا تو پہلی ہی غزل میں چند اشعار سرخ تھے ہمیں گمان گزرا کہ غالبا غالب نے وفات سے پہلے تاکید کردی ہوگی کہ میاں فلاں فلاں اشعار و غزلیات بچوں کے پڑھنے کی ہرگز نہیں، انہیں قطعی نہ شائع کیا جائے، یہ محض بالغوں کے واسطے ہیں اس واسطے یہاں بھی سرخ کر چھوڑے ہیں کہ صاحب اپنی ذمہ داری پڑھیے! پڑھنے پر ہم کو یہ اشعار سمجھ بھی نہ آئے تو گویا دل سے مسرت کے زمزمے پھوٹ نکلے اس مستند دلیل پر کہ ہم ابھی بچے ہیں، معصوم ہیں کہ دیوان غالب سے تو یار لوگ فال بھی نکالا کرتے ہیں سو ہمیں بھی سند معصومیت مل گئی۔
تاہم غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اوپر کچھ اعداد لکھے ہوئے ہیں۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ ہائیں؟ ایں چہ چکر است؟ دیوان غالب میں ریاضی؟ پھر ہم کو یاد آیا کہ علمی کتابوں میں وہ جو دستور ہے کہ بات سیدھے سبھاؤ یا بین السطور ہرگز نہیں لکھ دیا کرتے کچھ چھپ چھپا کر حاشیوں پر بھی درج کی جاتی ہے تاکہ قاری کی علمی پیاس کا امتحان بھی ہو اور قاری محسوس بھی کرے کہ وہ واقعی بہت عالم فاضل شخصیت ہے حالانکہ اس تکلف کی قطعا ضرورت ہمارے لحاظ سے نہ تھی کہ ہم ہمہ وقت خود کو ہمہ جہت شخصیت سمجھتے ہیں سو اس حاشیہ آرائی کا محض تکلف کیا گیا۔
بہرطور جو ہم حاشیوں کی طرف متوجہ ہوئے تو بہت باریکی میں لکھا تھا کہ یہ اشعارفلاں ریاست کے فلان الدولہ کے ذاتی کتب خانے سے فلاں سن میں برآمد ہوئے تاہم اس پر اختلاف ہے کہ غالب کے ہیں یا نہیں بایں ہمہ اس پر علما میں کافی سر پھٹول بھی ہو چکی ہے تاہم کوئی تصفیہ طے نہیں پایا سو ہم کو تو محض ٹائپ ہی کرنا ہے ہمارا کیا جاتا ہے کیے دیتے ہیں و علی ہذا القیاس۔
اس قسم کے حاشیوں کو پڑھنے کے بعد خواہش ہوئی کہ اس دیوان کو نستعلیق میں ہونا چاہئے سو اس پر نستعلیق جو لگایا نوری والا تو دیوان کم عاشق کا گریبان زیادہ ہو گیا کہ ہرچند کہیں ہے کہیں نہیں ہے۔ سو ہم کو خیال ہوا کہ محفل پر جو منصوبہ چل رہا ہے اس میں دو گھنٹے مزید دیے جائیں سو ہم ہفتے کے روز بھی حاضر ہوئے اس خوف سے کہ غالب تو زندہ نہیں مگر ان کی بھتیجی تو ماشااللہ زندہ سلامت ہے ہم سے باز پرس کرنے کو کہ میاں کے کام کے ہو؟
تاہم اس تحریر کی وجہ تسمیہ دیوان غالب ہرگز نہیں بلکہ ہمارے ایک رکن خرم شہزاد خرم کی ایک بے ساختہ غزل ہے جس کا مطلع ہم کو آتے جاتے کھاتے پیتے یاد آتا رہتا ہے
زندگی امتحان ہے خرم۔۔۔
ویسے دیوان غالب کی حواشی میں بیان کردہ احوال پڑھ کر ہم کو بھی خیال آيا کہ ہم اس مصرعے کو کچھ یوں تبدیل کریں:
زندگی امتحان ہے محسن۔۔۔
اور اس کے بعد شور مچا دیں کہ دیکھئے صاحب ہماری غزل خرم صاحب کے ذاتی کتب خانے سے برآمد ہو رہی ہے ایں چہ ظلم است! خرم صاحب بے شک نواب الدولہ نہ سہی تاہم اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہم تو غالب کی سطح کے آدمی ہیں، اس قسم کا واقعہ اور وہ بھی ہماری زندگی میں پیش آنا کچھ عجب نہیں بلکہ عین قرین قیاس ہے۔ تاہم یہ خرم صاحب کی خوش قسمتی کہ جو بے ساختگی
زندگی امتحان ہے خرم۔۔۔
میں موجود ہے، وہ ہم کو
زندگی امتحان ہے محسن ۔۔۔
میں محسوس نہ ہوئی اور ہم اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہے وگرنہ اسلام آباد کی چیز راولپنڈی کے کسی ذاتی کتب خانے سے نکل آنا کچھ عجب نہیں جب کہ اس سے پہلے فوج کا چمکتا اسلحہ لال مسجد سے برآمد بھی ہو چکا ہو۔ ویسے زندگی امتحان ہے محسن موزوں نہ بیٹھنے پر ہم خوش بھی ہیں کہ شاید زندگی محض خرم صاحب کا ہی امتحان ہے، ہم بری الذمہ ہیں کہ
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔۔۔
اردو کی تمام مشہور و معروف غزلیات پر یار لوگوں نے گرہیں لگائی ہیں، ہم خرم صاحب کے کلام پر کچھ طبع آزمائی کرتے ہیں:
زندگی امتحان ہے خرم
مشکل میں جان ہے خرم
تیز رفتاری کا یہ انجام ہوا
ہاتھ میں چلان ہے خرم
غالب کی بھتیجی ہیں وہ
گویا غالب پٹھان ہے خرم
استعفی کیوں نہیں دیتا وہ
بہت سخت جان ہے خرم
منصفی کس سے چاہو گے؟
یہ پاکستان ہے خرم!
ہمارا خیال ہےکہ پانچ اشعار ہو گئے ہیں غزل کے واسطے اسے تسلسل اور ترنم سے پڑھئے بہت لطف رہے گا۔ دوسری غزل جو ہمارے تخیل و تصور میں تیر کی طرح ترازو ہے، وہ جناب وارث صاحب کی غزل ہے
عشق میں بھاگنا حلال نہیں
شاعری فقط قیل و قال نہیں
سو اس پر ہم گرہ بعد میں لگائیں گے، ابھی ہم کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے سوتے اپنے حلق کی طرح خشک ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں، ہم پانی پی کر آتے ہیں!
ویسے قادری صاحب کی بھی ایک غزل ہے وہ ہم کلام رہا دیر تک ایک لطف نا تمام رہا۔۔۔۔ دیر تک!
ساری کمپنی کے طرف سے بہت بہتتتتت شکریاجویریہ اینڈ کمپنی کو ہماری طرف سے مبارک باد !
جویریہ جی اس کارِعظیم پر جویریہ کی طرف سے ڈھیر ساری دادوتحسین قبول کیجیئے
غالب کی بھتیجی ہیں وہ
گویا غالب پٹھان ہے خرم
بہت خوب
اس طرزِ تحریر کا جواب نہیں !
بہت شکریہ جیا صاحبہ! ذرہ نوازی ہے جناب کی وگر نہ آپ کو تو پتہ ہے بندہ کسی قابل نہیں تاج برطانیہ کے آگے۔
ساری کمپنی کے طرف سے بہت بہتتتتت شکریا
جویریہ مسعود اس لطف خاص کے لیے جویریہ رفیق کی ممنون و شکر گزار ہے
پٹھان تو ہم ہیں جی۔ غالب بیچارے تو مغل تھے۔ فرماتے ہیں
مغل بچے بھی خوب ہوتے ہیں
جس پہ مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں
حالانکہ مغل نہ تھے وہ در اصل ترک تھے ۔ آبا و اجداد ترکستان سے آئے تھے اور ترکی زبان بولتے تھے، وہی جو فارسی بانوں کے یاروں کی زبان ہے۔۔۔ زبان یار من ترکی و من ترکی نہ می دانم۔۔۔۔۔۔ آبا و جداداد سپاہ پیشہ تھے
مزے کی بات یہ ہے کہ اردو شاعری کے وجہ سے ہم غالب کو جانتے ہیں اور اسی غالب کی اردو شاعری کے بدولت ہم یہاں داد سمیٹ رہے ہیں، اسے اردو شاعری پر بالکل فخر نہ تھا۔
سو پشت سے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
علمی شخصیت بننے سے اتنا ڈر؟؟؟؟؟ ویسے آپ نے علمی شخصیت کے الفاظ پر جتنا زور دیا ہے اس نے ہمیں علمی شخصیات کے بارے میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہےجیہ جی قیمتی معلومات فراہم کرنے شکریہ۔
ڈر ہے کہ آپ کو پڑھ پڑھ کر کہیں ہم بھی کوئی "علمی شخصیت" نہ بن جائیں
نہیں اس کے لیے حاشیے پڑھنا بہت ضروری ہے جیسے کہ ہم نے پڑھے۔
تاج برطانیہ کی غزلیات بہت ہیں کہیں تو بھجوائیں؟
ابھی ہم سوچ رہے ہیں کہ صاحب غزل ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں جن کی غزل کا ستیاناس کر ڈالا ہم نے۔