شمشاد
لائبریرین
آج دل بیقرار ہے کیا ہے
درد ہے انتظار ہے کیا ہے
جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے کیا ہے
یہ جو کھٹکے ہے دل مین کانٹا سا
مژہ ہے نوکِ خار ہے کیا ہے
چشم بد دور تیری آنکھون مین
نشہ ہے یا خمار ہے کیا ہے
میرے ہی نام سے خدا جانے
ننگ ہے اسکو عار ہے کیا ہے
جسنے مرا ہے دام دلپہ مرے
خط ہے یا زلف یار ہے کیا ہے
کیون گریبان تیرا آج حسن
اس طرح تار تار ہے کیا ہے
دریا مین ڈوب جاوے کہ یا چاہ مین پڑے
اے عشق پر نکوئی تری راہ مین پڑے
مت پوچھ جورِ غم سے دلِ ناتوانکا حال
بجلی تو دیکھی ہو گی کبھی کاہ مین پڑے
اِکدم بھی دیکھ سکتا نہین ہمکو اُسکے پاس
خاک اس فلک کے دیدہ بدخواہ مین پڑے
جو دوستی کے نام سے رکھتا ہو دشمنی
دیوانہ ہو جو اُسکی کوئی چاہ مین پڑے
آ جا کہین شتاب کہ مانندِ نقش پا
تکتے ہین راہ تیری سرِ راہ مین پڑے
جلوے دو چند ہووین شبِ ماہ کے ابھی
اُس ماہرو کا عکس اگر ماہ مین پڑے
سُلگے ہے نیم سوختہ جیسے دھوین کے ساتھ
جلتے ہین یون ہم اپنی حسن آہ مین پڑے