شمشاد
لائبریرین
تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے
ورنہ اِس آدمی سے کیا خاک ہو سکے ہے
تو ہی سمجھ سمجھکر کر دے معاف ہمکو
تیرا حساب ہمسے کب پاک ہو سکے ہے
خطرا نہین کسی کا جو چاہہے کر سکے ہے
تجھسا کوئی جہان مین بیباک ہو سکے ہے
رونے کو میرے جلدی ٹک دیکھ کھول آنکھین
ابتک ہے چشم میری نمناک ہو سکے ہے
لاکھون کا دل جلایا لاکھون کا جی کھپایا
تجھسے کوئی زیادہ سفاک ہو سکے ہے
وہ جلد و ستیون کے جاتے رہے زمانے
اب ہاتھ سے گریبان کب چاک ہو سکے ہے
جو کچھ شراب مین ہیہن کیفیتین نشے کی
تجھمین مزا یہ کوئی تریاک ہو سکے ہے
اُس ماہرو کو باہم کر دے حسن سے اِک شب
گردش سے تیری اتنا افلاک ہو سکے ہے