دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

محبت میں تری جب مجھکو عالم نے ملامت کی
دل و جان نے تب آپس مین مبارک اور سلامت کی

قیامت جسکو کہتے ہین یہ اک مدت کا تھا مصرع
یہ میرے مصرعِ موزون نے اس قد کی قیامت کی

کیا قمری نے نالہ اور کھینچی آہ بلبل نے
چلی کچھ بات جب گلشن مین میرے سر و قامت کی

جب اپنا کام تیرے عشق مین تدبیر سے گذرا
چلی آنکھون سے میری سیل تب اشکِ ندامت کی

سخن کا یہ بزرگون کی تتبع بسکہ کرتا ہے
نکلتی ہے حسن کی بات مین اِک بو قدامت کی​
 

شمشاد

لائبریرین

وہ نہین ہم جو ڈر ہی جاوینگے
دل مین جو ہے سو کر ہی جاوینگے

تجھسے جسدم جدا ہوئے امی جان
پھر یہ سُنیو کہ مر ہی جاوینگے

دید پھر پھر جہان کی کر لین
آخرش تو گذر ہی جاوینگے

جی تو لگتا نہین جہان دل ہے
ہم بھی ابتو اُدھر ہی جاوینگے

بیخر جس طرح سے آئے ہین
اُس طرح بیخر ہی جاوینگے

تجھکو غیرون سے کام ہے تو رہ
ہم بھی اب اپنے گھر ہی جاوینگے

دل کو لکھ پڑھ کے دیجیو تو حسن
ورنہ دلبر مُکر ہی جاوینگے​
 

شمشاد

لائبریرین

نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے

کون کہتا ہے کون سُنتا ہے
اپنی گفت و شنید کر لیجے

ابکے بچھڑے ملو گے پھر کہ نہین
کچھ تو وعدہ وعید کر لیجے

اپنے گیسو دراز کے مجھکو
سِلسلہ مین مُرید کر لیجے

ہے مثل ایک ناہ صد آسان
یاس ہی کو امید کر لیجے

ہان عدم مین کہان ہے عشق بتان
اسکو یان سے خرید کر لیجے

وصل تب ہو اُدھر جب اِیدھر سے
پہلے قطع و بُرید کر لیجے

قتل کیا بیگنہ کا مشکل ہے
چاہیے جب شہید کر لیجے

اُسکی اُلفت مین روتے روتے حسن
یہ سیہ مو سپید کر لیجے​
 

شمشاد

لائبریرین

دل جنھون نے کہین لگائے تھے
کیا اُنھون نے مزے اُٹھائے تھے

مثل آئینہ کیا عدم سے ہم
تیرا مُنھ دیکھنے کو آئے تھے

اب جہان خار و خس پڑے ہین کبھی
ہمنے یان آشیان بنائے تھے

ہو کے مشتاق تیری جھڑکی کے
آپ اپنا پیام لائے تھے

تیرے خط نے بھی ایک عالم کو
ہند کے سے سمین دکھائے تھے

جسکا جی تھا اُسے دیا پھر کیا
کچھ ہم اپنی گرہ سے لائے تھے

اپنا سمجھے تھے آپ کو سو غلط
خوب دیکھا تو ہم پرائے تھے

لیکے رخصت حسن کئی دم کی
سیر کو یان کی ہم بھی آئے تھے​
 

شمشاد

لائبریرین

کیون رنگ سرخ تیرا اب زرد ہو گیا ہے
تو ہی مگر ہمارا ہمدرد ہو گیا ہے

وے دن گئے کہ دل مین رہتا تھا درد اپنے
اب دل نہین سراپا اک درد ہو گیا ہے

اتنا تو فرق مجھمین اور دل مین ہے کہ تجھ بن
مین خاک ہو گیا ہون وہ گرد ہو گیا ہے

ہے چاک چاک سینہ کیونکر چھپے تو دل مین
یہ تو مکان سارا بے پرد ہو گیا ہے

کس طرح شیخ چھیڑے اب دخت رز کو آ کر
اس طرف سے بچارا نامرد ہو گیا ہے

یان کیا نہ تھا جو وان کی رکھے حسن توقع
دونون جہان سے اپنا دل سرد ہو گیا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

دیکھنے بیٹھا جو وہ مہ اپنے گھر کی چاندنی
جبتلک بیٹھا رہا تب تک نہ سر کی چاندنی

نور باقی ہے نہ آنکھون مین نہ دل مین روشنی
تیرے بن کیا جا کے دیکھین بحر و بر کی چاندنی

ایک شب تو پھر بھی آ جا آنکھین بس ہو گئین سفید
کب تلک دیکھا کرین اُجڑے نگر کی چاندنی

ملگجے کپڑون مین یون ہے جلوہ گر اُسکا بدن
دھوپ جیسے شام کی ہوا اور سحر کی چاندنی

شعلہ دل کا تصرف ہے کس عاشق کی یہ
ورنہ کب بھاتی تھی تجھکو بام و در کی چاندنی

تھی سمین شب کی وہ تیرے چاند سے مکھڑے تلک
اب کہان کی روشنی پیارے کدھر کی چاندنی

سیج پھولون کی بچھی ہو ماہرو بیٹھا ہو پاس
دیکھنا تب لطف دیوے یکدگر کی چاندنی

یاد آتا ہے کس موسم کا اس جا لوٹنا
جب نظر پڑتی ہے مجھکو تیرے گھر کی چاندنی

سیکڑون عالم دکھاتی ہے حسن دلبر کے ساتھ
ٹھنڈی ٹھنڈی باد اور پچھلے پہر کی چاندنی​
 

شمشاد

لائبریرین

صید کو دل کے جال رکھوائے
بارے تمنے بھی بال رکھوائے

اُسکے پتون نے کج ادائی کی
مہ کے سر پر ہلال رکھوائے

ہر طرف ہو گئے تھے وصل مین گم
ہجر نے پھر بحال رکھوائے

لعل و گوہر کا گنج ہے یہ دل
مین یہان اپنے مال رکھوائے

نذر کو تیری ہمنے آنکھون مین
گوہر بیمثال رکھوائے

رشک سے شب کا دل ہوا پرزے
اُسنے جب مُنھ پہ خال رکھوائے

کھینچ مست تیر آہ دل سے حسن
اُسنی ہے دیکھ بھال رکھوائے​
 

شمشاد

لائبریرین

نہ خیالِ دل نہ فکرِ جان ہے
رات دن اُسی کا دھیان ہے

تو ملے تنہا تو مین تجھسے کہون
دل مین جو جو کچھ مرے ارمان ہے

آج بارے وہ ملا ہمسے صنم
اپنے اُس اللہ کا احسان ہے

حسن کیا ہے اور کیا ہے عشق یہ
عقل اپنی اس جگھ حیران ہے

بے ادائی ہے ترے جانے مین اور
تیرے آنے مین سراپا آن ہےہ

یون تو رونے کو سبھی روتے ہین پر
میرے ہی رونے پہ کُچھ طوفان ہے

اُسکی اِس ظاہر پہ تو مت جائیو
ہے تو وہ انسان پر شیطان ہے

مین سمجھتا ہون حسن اُس شوخ کو
ایک پکا ہے وہ کیا نادان ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

بس ہے اتنا ہی تیرا پیار مجھے
او حسن کہکے تو پکار مجھے

عندلیب بہار کوبان ہون
نہین در کار لالہ زار مجھے

لئے جاتی ہے ہوش سے ہر دم
تیری یہ چسم پر خمار مجھے

گل ہزارون کو آہ جسنے دیے
دل دیا اُسنے داغدار مجھے

بیقراری پر اپنی مرتا ہو ن
کیون ہے آتا نہین قرار مجھے

سوچتا کچھ تو آج دل مین گیا
دیکھ روتے وہ زار زار مجھے

سخت دشمن ہے یہ کہ تجھسے جدا
لیے پھرتا ہے روزگار مجھے

عین گلشن مین ہون پہ چون تصویر
نظر آتی نہین بہار مجھے

رونے اور جلنے ہی کو ڈھالہ ہے
یدِ قدرت نے شمع وار مجھے

عشق بازی مین مین دل نہ ہار حسن
کاش اُسکے عوض تو ہار مجھے​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوتا گران بتون مین وفادار ایک بھی
کرتا مین دلدہی مین نہ تکرار ایک بھی

گو خوبیان ہین سب پہ تغافل تو ہے غضب
کافی ہے جی کے لینے کو آزار ایک بھی

ہوتا اگر تو عہد مین یوسف کے اے عزیز
کرتا نہ مُنھ اُدھر کو خریدار ایک بھی

ہے کلیہ کہ حسن کو ہرگر نہین وفا
دیکھا مین باوفا نہ طرحدار ایک بھی

سو سو خیال دل مین گذرتے ہین روز و شب
وعدہ اگر کرے ہے وہ دلدار ایک بھی

آئے تھے دام مین تو کئی پر سب اُڑ گئے
میرے سوا رہا نہ گرفتار ایک بھی

تقصیر وار مین ہی ترا ہون خدا کرے
ایسا نہو لے کوئی گنہگار ایک بھی

سو باتین آپ جھوٹی بنا وے تو کچھ نہین
مانے نہ سچ ہمارے وہ عیار ایک بھی

گر لاکھ بات مجھکو کہے وہ تو ہمنشین
دیجو نہ تو جواب خبردار ایک بھی

کیا جانیے کہ کسکی مرادین بر آئیان
خواہش ہوئی نہ اپنی تو زنہار ایک بھی

جیتے ہی جی تلک تنہین دلسوزیان حسن
لایا چراغ گور پر اب یار ایک بھی​
 

شمشاد

لائبریرین

جو چاہے آپ کو تو اُسے کیا نہ چاہیے
انصاف کر تو چاہیے یہ یا نچاہیے

ہنستے ہنستے کوئی طرح ہو جائے
جس مین کچھ تاؤ پیچ تو کھائے

تیرے قدمون سے وہ لگے ظالم
جو ککئی اپنے سر سے ہاتھ اُٹھائے

میرا جلنا ہے گر مراد تری
تو صنم اپنے تو خدا سے پائے

روگ جی کا ہوا یہ دل نہ ہوا
کب تلک کوئی رنج اسکا اُٹھائے

دل کو پامال کر رکھا ہے مرے
کیون نہ جوتی دکھا کے تو اترائے

کیا کرون تیرا پانؤن ہے درمیان
ورنہ پاپوش تیری مجھ تک آئے

جی سے کہتا ہے تو یہ ہے جوتی
کیا ہو گر تیرے دشمنون پر جائے

باغ مین جا کے اے حسن تنہا
کیا کوئی ہونہال کیا پھل پائے

سیر لالے کی یار بن یون ہے
جس طرح سے جلے کو کوئی جلائے​
 

شمشاد

لائبریرین

تو کسی سے اگر ملا نکرے
اسقدر دل مرا کڑا نکرے

گر الگ سب سے تو رہا نکرے
ایک سے ایک پھر ملا نکرے

کیون ندیکھے تجھے کوئی اے ماہ
کیا کرے اپنا سوجھنا نکرے

آئینہ مین تو دیکھ اپنا مُنھ
تجھسے کیونکر کوئی صفا نکرے

بس جو میرا ہو یہ منادی دون
بیوفا سے کوئی وفا نکرے

کیون مین اس طرح رات دن روؤن
تو کسی سے اگر ہنسا نکرے

نقش پا اپنے تو مٹاتا چل
تا کوئی اسپہ ٹوٹکا نکرے

اپنی اس ہستی و عدم مین رہ
کیا کرے کوئی اور کیا نکرے

دید تک دل بتون کی ہے مختار
پر کہین اور چوچلا نکرے

عشق مین کوبیان سہی ہین پر
روز و شب دل اگر جلا نکرے

حق ادا کا تری ادا ہو تب
بے ادائی کی جب ادا نکرے

مُنھ کو باندھے رہے کوئی کب تک
کیا کرے کچھ اگر کہا نکرے

کچھ تمہاری تو بات اسمین نہین
کوئی قسمت کا بھی گلا نکرے

مین کہا دل مین درد ہے میرے
ہنس کے کہنے لگا خدا نکرے

پھر جو کچھ جی مین آ گئی تو کہا
مجھکو پیٹے اگر دوا نکرے

کل کسی نے کہا حسن سے تو
آشنائی کرے ویا نکرے

ہنس کے کہنے لگا کہ ایسے سے
آشنائی مری بلا نکرے​
 

شمشاد

لائبریرین

مین یہ کہتا نہین کوئی بتِ دلخواہ ملے
دل مین جو بستا ہے میرے مرے اللہ ملے

ماہِ عید و مہ ذی الحج سے نہین مجھکو حصول
وہ مہینہ نظر آ جائے کہ وہ ماہ ملے

مدعا ظاہری و باطنی اپنا ہے یہی
چشمِ بیدار ملے اور دل آگاہ ملے

ہمتو بدخواہ تھے اب ذکر ہمارا ہے عبث
بارے یہ اور جو ہین یہ تو ہوا خواہ ملے

اے خوشا روز کہ ہو گرد مرے خیلِ بتان
وے کہین یانسے نکل مین کہون گر راہ ملے

تو مری چاہ سے بیزار ہے جتنا اے شوخ
اُتنی ہے چاہ ہے مجھکو کہ تری چاہ ملے

اتفاق اپنی یہ قسمت کا ہے سبحان اللہ
تھی خبر کسکو کہ یون مجھسے وہ ناگاہ ملے

ہجر کی شب جو ہمیشہ ہو سو ایسی ہو دراز
وصل کی رات کبھی ہوئے تو کوتاہ ملے

چاہیے ہمسے ملے آپ ہے تو اے مہ حسن
کاہ سے برق ملے برق سے یاکاہ ملے

مین یہ کہتا نہین مجھکو نہ ملے آہ و فغان
ٹک اثر دار ملے مجھکو اگر آہ ملے

اپنی قسمت کی بھی بس مین نے قسم کھائی ہے
یار کیا کیا مجھے دنیا مین حسن واہ ملے​
 

شمشاد

لائبریرین

کیا چھیڑ کے پوچھے ہے کہ گھر تیرا یہین ہے
کہنے کو تو گھر یان ہے پہ جی اپنا وہین ہے

شب چوری سے مین نے یہ کہا جاؤن ٹک اُس پاس
دیکھون تو کہ ملنے کا بھی کچھ داؤن کہین ہے

آہٹ سے مری چونک کے پوچھا کہ یہ ہے کون
چپکے سے کہا مین کہ جسے نیند نہین ہے

ابرو مین دیا زلف مین بھولا ہون حسن مین
پڑتا ہے مجھے دھیان کہ دل میرا کہین ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

وہ دلبری کا اُسکی جو کچھ حال ہے سو ہے
اور اپنی دلدہی کا جو احوال ہے سو ہے

مت پوچھ اُسکی زلف کی اُلجھیڑیکا بیان
یہ میری جان کے لیے جنجال ہے سو ہے

نیکی بدی کا کوئی کسی کے نہین شریک
جو اپنا اپنا نامہ اعمال ہے سو ہے

پس جائے کوئی ہو یا کہ ہو پامال اُسکو کیا
اس گردش فلک کی جو کچھ چال ہے سو ہے

وے ہی علم مین آہون کے ویسی ہی فوج اشک
ابتک غم و الم کا جو اقبال ہے سو ہے

ایسا تو وہ نہین جو مرا چارہ ساز ہو
پھر فائدہ کہے سے جو کچھ حال ہے سو ہے

شکوہ مجھے تو سوزنِ مژگان سے کچھ نہین
دل خار خارِ آہ سے غربال ہے سو ہے

نقشِ قدم کی طرح حسن اُسکی راہ مین
اپنا یہ دل سدا سے جو پامال ہے سو ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

صورت نہ ہمنے دیکھی حرم کی نہ دیر کی
بیٹھے ہی بیٹھے دل مین دو عالم کی سیر کی

مرنا مجھے قبول ہے اُسکے فراق مین
ملنا نہین قبول وساطت سےغیر کی

ثابت جو عشق مین ہین نہین اُنکو خوف مرگ
حالت سُنی تو ہوویگی تمنے نصیر کی

خانہ خراب ہو تری اس دوستی کا یار
دی جسنے دل مین سب کے جگھ میرے بیر کی

بیطرح ابکی بگڑی ہے اُس بت سے اے حسن
باقی نکچھ رہی تھی خدا ہی نے خیر کی​
 

شمشاد

لائبریرین

مین کس طرح کہون انسان سے خطا کہ نہووے
کریم تو ہے یہ بندا ہےہ از کجا کہ نہووے

گر اُسکے بزم مین جاتا ہے دل تو آتا ہون مین بھی
ولے رقیت کو تو پہلے دیکھ آ کہ نہووے

رکھے ہے لطف عجب نو خطون کے عشق مین رونا
اُٹھے نہ خط کبھی یاران سے سبزہ تا کہ نہووے

نہین یہ ہونے کی ہرگز کہ مین نہون ترے ہمرہ
اگرچہ ہے یہی تیرا تو مدعا کہ نہووے

یہ کیا خیال مین گذرے ہے جسپہ روز ہے غصہ
سنین تو ہم بھی وہ کیا بات ہے بتا کہ نہووے

زبان کاٹیے اُسکی یہ کون کہتا ہے تمسے
مثال شمع مرے سر پر اب جفا کہ نہووے

چراغ سانپ کے آگے کہین سنا بھی ہے جلتے
تو روز ہجر کو زلفِ سیہ دکھا کہ نہووے

جگر کے زخم سے ہرگز اُٹھائی جاے نہ لذت
نمک جراحت دلپر ہمارے تا کہ نہووے

حسن سر شک ندامت سے روز حشر خجالت
تو اپنے نامہ اعمال کو دکھا کہ نہووے​
 

شمشاد

لائبریرین

کہنے کی ہین یہ باتین کس بن نہین گذرتی
پر ایک جان تو ہے جس بن نہین گذرتی

کُچھ ہو نہو ولے ہو تیرا خیال ہر دم
اس بن نہین گذرتی اس بن نہین گذرتی​
 

شمشاد

لائبریرین

کس دل سے کوئی خفا ہو تجھسے
کس طرح بھلا برا ہو تجھسے

بیگانہ ہو سب سے پھر وہ آخر
جو کوئی کہ آشنا ہو تجھسے

مہرؔ و کرمؔ و وفاؔ تو معلوم
ہان کہیے جو کچھ جفا ہو تجھسے

ہو کیون نہ جہان سے اُسکا دل سرد
جسکا کہ جگر جلا ہو تجھسے

اس بیمزہ گی مین تو جو آ جائے
کیا کیا نہ ابھی مزا ہو تجھسے

ملجائے حسن کہین ترا یار
تا گم یہ ترا جدا ہو تجھسے​
 

شمشاد

لائبریرین

دیکھ دروازے سے مجھکو وہ پریروہٹ گئی
دیکھتے ہی اُسکے میری جان بس چٹ پٹ گئی

تم اِدھر دھوتے رہے مُنھ ہم اُدھر روتے رہے
روتے دھوتے دو گھڑی بارے مزے سے کٹ گئی

گرد کلفت بسکہ چھائی دل سے تا آنکھوں تلک
نہر تھی جاری جو آنکھون کی مرے سو پٹ گئی

جیؔ ادا نے زلفؔ نے دل ہوشؔ غمزون نے لیا
جنس ہستی اپنی سب غارت مین آ کر بٹ گئی

پردے ہی پردے مین دل کو خاک کر ڈالا مرے
اِس ادا سے وہ پری مُنھ پر لیئے گھونگھٹ گئی

زلف گر چھدری ہوئی تیرے تو مت کھا پیچ و تاب
کیا ہوا از بس اُٹھانے بوجھ دلکے لٹ گئی

کل جو میرا خوش نگھ گذرا چمن سے اے حسن
موندلی بادام نے آنکھ اور نرگس کٹ گئی​
 
Top