شمشاد
لائبریرین
جہاں ثابت قدم رکھنا وہان سر سے گذر جانا
مزا ہے استقامت سے مثالِ شمع مر جانا
نکل اے جان اب دلسے کہ صاحب خانہ آتا ہے
ترا تو جی ہی اوٹھنے کو نہین کیا یہ بھی گھر جانا
مزا رکھتا ہے مستی مین بہکنا شوخ کا ہر دم
ادھر کچھ بات کرنا و وہین پھر اودھر مُکر جانا
کوئی دم کے ہین مہمان اس چمن مین ایکدم آخر
مثالِ نکہتِ گُل شام جانا یا سحر جانا
نہین مجلس مین بار اُسکی خبر کرنے سے بھی ہوتی
گئے وَے دن جو ملتا تھا ہمین وان بیخبر جانا
تجھے تو ضد ہے کہنے سے مرے مین تو نہین کہتا
یہ دل کہتا ہے یون جانا کہ ایکدم بیٹھ کر جانا
یہی گر خوف ہے تو زندگی کیونکر حسن ہو گی
کہ جب کچھ بات کہنا روبرو اُسکے تو ڈر جانا