شمشاد
لائبریرین
میرے آتے ہی تمھین سیر کو جانا کیا تھا
گو نہ ملتے تو نہ ملتے یہ بہانا کیا تھا
ہوش مین ہوش نہین جبسے سنا ہے مطرب
پھر تو اُنَائیو اُسکو وہ ترانا کیا تھا
تم تو کہتے تھے کہ مین تجھسے نہ بولونگا کبھی
پھر بھلا پیار یہ آنکھون مین جتانا کیا تھا
کون کہتا ہے پھرا زلف کی زنجیر سے دل
مین نہ باور کرون ایسا وہ دوانا کیا تھا
مورد قہر و ستم مین تو ترا تھا ہی بھلا
غصہ ہو ہو کے مرے دل کو ستانا کیا تھا
زیست گر خواب تھی تو خواب عدم سے مجھکو
خواب کے واسطے اے شوخ جگانا کیا تھا
ابتدا حسن کی وہ اُسکی نئی تیری وہ چاہ
ہائے کیا دن تھے حسن اور وہ زمانا کیا تھا