دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

میرے آتے ہی تمھین سیر کو جانا کیا تھا
گو نہ ملتے تو نہ ملتے یہ بہانا کیا تھا

ہوش مین ہوش نہین جبسے سنا ہے مطرب
پھر تو اُنَائیو اُسکو وہ ترانا کیا تھا

تم تو کہتے تھے کہ مین تجھسے نہ بولونگا کبھی
پھر بھلا پیار یہ آنکھون مین جتانا کیا تھا

کون کہتا ہے پھرا زلف کی زنجیر سے دل
مین نہ باور کرون ایسا وہ دوانا کیا تھا

مورد قہر و ستم مین تو ترا تھا ہی بھلا
غصہ ہو ہو کے مرے دل کو ستانا کیا تھا

زیست گر خواب تھی تو خواب عدم سے مجھکو
خواب کے واسطے اے شوخ جگانا کیا تھا

ابتدا حسن کی وہ اُسکی نئی تیری وہ چاہ
ہائے کیا دن تھے حسن اور وہ زمانا کیا تھا​
 

شمشاد

لائبریرین

دور سے باغ جہان دکھلا کے دیوانا کیا
متصل جانے نپایا مین کہ ویرانا کیا

ایک مجلس کے ہین حسن و عشق اسمین عیب کیا
شمع گر تجھکو کیا تو ہمکو پروانا کیا

دیکھتے ہی مئے کو ساغر کا نہ کھینچا انتظار
مارے جلدی کے مین اپنا ہاتھ پیمانا کیا

طرفہ تر ہے یہ کہ اپنا بھی نجانا اور یونہین
اپنا اپنا کہکے مجھکو سب سے بیگانا کیا

ہاتھ آیا بس اُسی کے کچھ شبِ راحت کا لطف
جسنے اپنا ہاتھ تیری زلف کا شانا کیا

کچھ بہک کر نشے مین بولون تو ہون معذور مین
مجھکو مستی نے تری آنکھون کی مستانا کیا

ایک بھی مانی نہ میری بات تو نے تو کبھی
مین ہی ایسا تھا کہ تیری سیکڑون مانا کیا

بیوفائی نے یہ کسکی تجھکو سمجھایا حسن
اندنون کیون تو نے کم اُس طرف کا جانا کیا​
 

شمشاد

لائبریرین

جاتا تھا اُسکی کھوج مین مین بیخبر چلا
بارے اُسی نے ٹوک کے پوچھا کدھر چلا

گذری تمام شب مجھے کس پیچ و تاب مین
مذکور زلف کا جو کسی بات پر چلا

جس اشتیاق سے کہ مین آتا ہون تیرے یان
کیا ہو جو آوے تو بھی یونھین میرے گھر چلا

غیروں میں اُسنے مُنھ تو چھپایا تھا مجھکو دیکھ
پر مین بھی اُسکی چھیڑ سے مُنھہ ڈھانپ کر چلا

کس مین رکھونگا اب می حسرت کو مین بھلا
شیشہ تو دل کا کون جگر ہی سے بھر چلا

لکھنے کی یان نہ تاب نہ پڑھنے کا وان دماغ
کہدینگے کچھ زبانی اگر نامہ بر چلا

کچھ رات غیر کی جو کہین نکلی اُس سے بات
سُن سُن کے مین خفا ہو وہین روٹھ کر چلا

غصہ مین دیکھ مجھکو لگا کہنے اور لو
اِکبات بس کہی نہ کہی یہ تو مر چلا

دِلی سے تازہ آئی تھی یہ میر کی غزل
کسکا یہ شعر ہوش سے بیہوش کر چلا

یہ چھیڑ دیکھ ہنس کے رخِ زرد پر مرے
کہتا ہے میرؔ رنگ تو کچھ اب نکھر چلا

اب کوئی آوے یا کہ نہ آوے حسن کو کیا
بیچارہ اپنی جان سے آپ ہی گذر چلا​
 

شمشاد

لائبریرین

انصاف تیرے مُنھ سے سچ ہے کلام تیرا
نالایقون کو لائق کرتا ہے کام تیرا

گر ہین بُرے تو تیرے اور ہین بھلے تو تیرے
نیکی بدی مین اپنی شامل ہے نام تیرا

جی چاہتا ہے جیسا آنکھون مین خوشنما ہے
کرنا سلام میرا لینا سلام تیرا

گو زلف و رخ سے تیرے ہون دور پر نہین ٹم
آنکھون ہی مین تصور ہے صبح و شام تیرا

کچھ ایک حاضرون پر تیری نہین نوازش
نزدیک و دور سب پر ہے لطف عام تیرا

سو بات سوجھتی ہے دم مین حسن تجھے تو
لیجائے کون اُس تک ہر دم پیام تیرا​
 

شمشاد

لائبریرین

تماشا کر نگاہِ لطف سے اکبار نرگس کا
کہ تا اہلِ چمن مین گرم ہو بازار نرگس کا

کسی کی چشم یاد آویگی اے ہمدم تو رؤونگا
نہ لیجو نام تو آگے مرے زنہار نرگس کا

خدا جانے لہو آنکھونسے کس کس کے بہاویگا
تیرا نیمہ گلابی اور یہ تیرا ہار نرگس کا

وہ کیفیت جو تھی آنکھون مین تیری سوندیکھی کچھ
نظارا گو کیا گلشن مین سو سو بار نرگس کا

تری آنکھونکا عاشق ہون ترے رُخ کا ہون دیوانہ
نہ سودائی ہون مین گل کا نہ مین بیمار نرگس کا

دیا ہے وعدہ دیدار کسنے آج گلشن مین
کسے دیکھے ہے جھک جھک دیدہ بیدار نرگس کا

مجھے اُسوقت یاد آتی ہے صحبت خوش نگاہونکی
دھرا دیکھے ہون جب دستہ سر بازار نرگس کا

ندکھلا آنکھ بیمارون کو گلشن کے خدا سے ڈر
بڑھا مت رشک سے اپنے صنم آزار نرگس کا

رہے محروم ہم جبسے حسن دیدار سے اُسکے
رکھا منظور تب سے دیکھنا ناچار نرگس کا​
 

شمشاد

لائبریرین

مطلب کچھ اور عشق سے تھا کام کچھ ہوا
آغاز اسکا کچھ ہوا انجام کچھ ہوا

ہے بیقراری آج تو دلکو خوشی کے ساتھ
شاید کہ اُسکے ملنے کا پیغام کچھ ہوا

بندا بتونکا کسکے کہے سے ہوا یہ دل
حق کی طرف سے کیا اسے الہام کچھ ہوا

دو تین دن سے آہ نظر اُسکی وہ نہین
شاید خفا وہ مجھسے گل اندام کچھ ہوا

پوچھا حسن سے ایک نے کیون ابتو وصل ہے
بارے کہو تو دلکو تو آرام کچھ ہوا

ہنسکر لگا وہ کہنے کہ مت پوچھ اے عزیز
ک نام کو تو وصل کا یان نام کچھ ہوا

پر ایکدم بھی بیٹھے نہ ہم ملکے بے ہراس
گر صبح کچھ ہوا تو خلل شام کچھ ہوا​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوا نہ غم تجھے کچھ میری جانگدازیکا
صنم مین کشتہ ہون تیری بھی بے نیازیکا

پڑی ہے دلکی بھی کرنی خوش آمدان روز دن
زمانہ ابتو رہا ہے زمانہ سازیکا

کہان لگایا ہے دل جا کے اُس ستمگر سے
غرض دوانا ہون اپنی بھی جان بازیکا

کیا ہے خاک نے حیرت زدون کی چاک جگر
جہان پڑا ہے قدم تیرے ترک تازیکا

کھلی ہی رہتی ہے چشمِ حباب دریا مین
ہوا ہے جبسے تجھے شوق آب بازیکا

مین اپنے یون ہین بھلا ہون نہ لائیو تشریف
خیال کیجیو مت میری دلنوازیکا

مثال خاک حسن رہ یہان بقول میرؔ
رکھے ہے دل مین اگر قصد سرفرازیکا​
 

شمشاد

لائبریرین

قاصد یہی کہتا ہے شب وہ نہین آنیکا
کاہیکو رہونگا مین جب وہ نہین آنیکا

دل لیکے مرا مجھکو دیتا ہے تسلی یون
روتا ہے تو کیون دلکو اب وہ نہین آنیکا

بیخود رہونگا جبتک تب تک تو وہ آویگا
جب آپ مین آؤنگا تب وہ نہین آنیکا

غیرون کی طرح ہمسے کس طرح خوش آمد ہو
جو ڈھب ہے اُنھین ہمکو وہ ڈھب نہین آنیکا

گو مین نے کہا اُسکو غیرون مین نہ ایا کر
کہنے سے حسن میرے وہ کب نہین آنیکا​
 

شمشاد

لائبریرین

یہ جو کچھ قیل و قال ہے اپنا
وہم ہے اور خیال ہے اپنا

حال دشمن کا یہ نہو یارب
اُسکے جو غم سے حال ہے اپنا

یاس کوئی مگر ہوئی تازہ
آج پھر دل نڈھال ہے اپنا

آج وہ گل جو مل گیا ہے تو بس
اس گھڑی دل نہال ہے اپنا

پوچھ مت کچھ کمال ہمسے حسن
بیکمالی کمال ہے اپنا​
 

شمشاد

لائبریرین

آشنا بیوفا نہین ہوتا
بیوفا آشنا نہین ہوتا

تو خفا مجھسے ہو تو ہو لیکن
مین تو تجھسے خفا نہین ہوتا

گو بھلے سب ہین اور مین ہون بُرا
کیا بھلون مین بُرا نہین ہوتا

لذتِ وصل سے تو بالاتر
کوئی جگ مین مزا نہین ہوتا

دل جدا گر ہوا حسن تو کیا
وہ تو دل سے جُدا نہین ہوتا​
 

شمشاد

لائبریرین

تیرہ بختی کو اپنی کھو نہ سکا
اس سیاہی کا داغ دھو نہ سکا

تو رہا دل مین دل رہا تجھ مین
تسپہ تیرا ملاپ ہو نہ سکا

ہنسنا اور بولنا تو ایک طرف
سامنے اُسکے مین تو رو نہ سکا

وہ رہا سامنے مرے تو کیا
مین ان آنکھونسے دیکھ تو نہ سکا

بخت خفتہ کے ہاتھ سے میں حسن
چین سے ایک رات سو نہ سکا​
 

شمشاد

لائبریرین

پڑا تھا کیا عدم مین آتشِ غم سے تیری پالا
کہ مین نکلا لیے دلکو برنگِ غنچہ لالا

جلا ہون بسکہ مین آنکھونسے راہِ عشق مین اُسکی
بجاے اشک ہر نوکِ مزہ پر ہے مری چھالا

بھلی ہے مجلسِ دنیا مین سچ پوچھو تو بیہوشی
کہ متوالا وہی اس بزم مین ہے جو ہے مت والا

پھرو تم کیون نہ اب ہنستے ہوے ہر اِک کے رونے پر
کسی تاثیر والیکا نہین تمنے سنا نالا

وفائے وعدہ خوبانِ خوشرو کا بھروسا کیا
بھرا ہے زر سے اور خالی ہے زر سے گل کا یہ پیالا

ذرا انصاف سے تو دیکھو زاہد دیکھکر اُسکو
بھلا ہو گا کہان جنت مین یہ آتش کا پرکالا

ہزارون پل مین انسو موتیون کی طرح گرتے ہین
نظر جبسے پڑا ہے مجھکو رستے مین وہ دُر والا

نہ پوچھا تو نے اتنا بھی حسن کو اس طرف آ کر
کہ یان جو بیچتا تھا دل گیا کیدھر وہ دل والا​
 

شمشاد

لائبریرین

یہ مت کہنا کہ میرا دیکھنا کن کو نہ ملتا تھا
اُسی عالم کے اِک ہم ہین نہ اب جنکو نہ ملتا تھا

لگے کیون دیدہ و دانستہ تجھسے چشم و دل میرے
خدائی مین صنم کیا دوسرا انکو نہ ملتا تھا

عبث اکبار کیون ملکر حسن کے سر بلا ڈالی
اُسے معلوم ہے اور وہ اسی دنکو نہ ملتا تھا​
 

شمشاد

لائبریرین

اُسکے بالون مین جب پُھلیل پڑا
آتشِ دلپہ اور تیل پڑا

گنجفہ باز چرخ کے ہاتھون
رنگ بازیکا کچھ کمیل پڑا

سوکت ہو گئے تمام یکلُوبند
اور ہی بازیونکا کھیل پڑا

دلبری مین حسن وہ ہے نو سِکھ
پاپڑ اُسکے لئے تو بیل پڑا​
 

شمشاد

لائبریرین

جسنے ملنے پہ تمھارے دو جہان چھوڑ دیا
تمنے ملنا بھی اب اُس دل سے بتان چھوڑ دیا

دل ہی دل مین تجھے اب یاد کیا کرتے ہین
نام لینا ترا اب ہمنے میان چھوڑ دیا

جس سے اب چاہون ملون تمکو پریکھا ہے عبث
تمتو کہتے ہو کہ چھوڑا تجھے ہان چھوڑ دیا

مین نے پایا نہ اُسے شہر مین نَی صحرا مین
تو نے لیجا کے مرے دلکو کہان چھوڑ دیا

ریجھ گر ہے یہی اُلٹی تو بھلا آج سے لے
مین نے الفت کا تری نام و نشان چھوڑ دیا

چھوڑ دے کوئی کسیکے لئے جس طرح سے کچھ
ہمنے مَنت مین تری کون و مکان چھوڑ دیا

وہ گئے دن جو کسی کی ہمین سُدھ رہتی تھی
ابتو سب ذکر فلان ابنِ فلان چھوڑ دیا

تیرے دلسے تو مجھے بات یہ لگتی ہے بعید
تو نے کس دلسے حسن کو مریجان چھوڑ دیا​
 

شمشاد

لائبریرین

سر سبز ذکر کب ہو مجنون کی آفتونکا
درجہ بڑا ہے اُس سے میری مصیبتونکا

دونوں طرف سے دلکا لگنا بلائے جان ہے
ہر گز نہ کوئی پنپا مارا ان الفتونکا

قسمت کا اپنی شکوہ کرتے ہین دل جلے ہم
مذکور کچھ نہین ہے تیری شکایتونکا

آنکھون مین بھر کے آنسو دیکھون ہونمین فلک کو
کرتا ہے ذکر کوئی جب اپنی صحبتونکا

تھوڑا ستم کیا ہے تو نے بہت سمجھکر
احسانمند ہون مین تیری مروتونکا

ورنہ سزا تھی اسکی وہ چند اس سے زیادہ
دعویٰ کیا تھا مین نے تیری محبتونکا

پہلے پہلکا دلکے لگنا تو یاد ہو گا
کیا تھا حسن زمانہ وہ عیش و عشرتونکا​
 

شمشاد

لائبریرین

صبا کے ہاتھ سے خط گلغدار کا پہونچا
خزان رسیدونکو مژدہ بہار کا پہونچا

عجب لکھا تھا اُنھونکا جنھین جواب لکھا
ہمین تو ایک بھی پرزہ نہ یار کا پہونچا

مثال نامہ بہت جی مین اُسنے بل کھائے
خط اُسکو جب مرے احوال زار کا پہونچا

خرام ناز کو اُسکی صبا بعجز و نیاز
سلام شوق مرے انتظار کا پہونچا

لکھا نہ اُسنے جو نامہ تو بس ہوا معلوم
کہ وعدہ اپنے دلِ بیقرار کا پہونچا

صبا گلی سے تری گرد راہ کو لائی
ہمارے آنکھون کو سرمہ غبار کا پہونچا

ہماری دلی کا یہ دل انار تحفہ ہے
یہ تحفہ اُسکو صبا اس دیار کا پہونچا

کسی نے بات کہی اور رو دیا اسنے
یہ حال اب دل زار و نزار کا پہونچا

حسن کو زیر قدم اپنے جو رکھا تو نے
دماغ عرش پہ اُس خاکسار کا پہونچا​
 

شمشاد

لائبریرین

تُو نے بھی عشق کا خیال کیا
مجھپر احسان یہ کمال کیا

سر اُٹھانے دیا نہ دوران نے
اس طرح مجھکو پائمال کیا

سرخرو کیون نہون کہ جب تو نے
مُنھ تماچون سے میرا لال کیا

مین نے دیوانگی سے اپنی غرض
نام مجنونکا پھر بحال کیا

اشک گلگون بھر آئے آنکھون مین
یاد تیرا جہان جمال کیا

عشق مین تیرے اے صنم ہمنے
اپنا قربان جان و مال کیا

مجھکو دیتا ہے کیون جوابِ تلخ
حق نے تجھکوشِکر مقال کیا

کل کسی نے کہا حسن نے میان
تیری خاطر یہ اپنا حال کیا
رکھ کے ماتھے پہ ہاتھ کہنے لگا
میرے جی نے مجھے نہال کیا​
 

شمشاد

لائبریرین

عشق نے پہلے یہ شگون کیا
دل ہی دل مین جگر کو خون کیا

میری دیوانگی ہی بہتر تھی
تو نے کیا عقل اور فنون کیا

جب مین دل اپنا دیچکا اُسکو
تب سبھون نے کہا زبون کیا

مرکز کن ستون ہے اُسکا
چرخ کو کسنے بے ستون کیا

آج رندون سے تو نے نُچوا کر
شیخ داڑھی کو اپنی اون کیا

سچ جو پوچھو تو آج میر حسن
ایک تمپر نہین جنون کیا

اُسنے خلعت پہن کے عباسی
کتنے ہی سیدونکا خون کیا​
 

شمشاد

لائبریرین

ہجر کا رونا اُسے آنکھون سے دکھلاتا رہا
بوند سا دن وصل کا پل مارنے جاتا رہا

غیر سے وہ گرم سرگوشی رہا کل دیر تک
مین پڑا زانو بدلتا اور گھبراتا رہا

وہ جو کچھ اُسنے سُنا تھا گرچہ وہ بگڑا ولے
جب تلک کہتا رہا کچھ کچھ تو شرماتا رہا

تھا وہ کل غیرونپہ غصے مجھسے نادانی ہوئی
مین کھسک آیا اِدھر اودھر وہ جھنجھلاتا رہا

پوچھتا کیا ہے کہ گذری رات کیونکر مجھ بغیر
شعر کچھ پڑھتا رہا کچھ سر کو ٹکراتا رہا

ایکتو غیرونکی گرمی دیکھ مین جلتا رہا
تسپہ تو اُنکی حمایت لیکے بھڑکاتا رہا

ایک تن من ہون اگر دو دل تو نکلے کام کچھ
یانتو اپنے تاؤ مین ہر ایک بل کھاتا رہا

جی اگر اُس سے لگا یا رشک سے دل جل گیا
دل اگر اُسکو دیا جی ہاتھ سے جاتا رہا

مارے ضد کے شیخیون مین آ کے اپنی اے حسن
جو نہ مجھسے ہو سکا وہ کام فرماتا رہا​
 
Top