اور رہی بات روٹھنے کی، تو ایک زمانہ مجھے سے روٹھا رہتا ہے، کبھی بیوی تو کبھی بچے، کبھی والدہ تو کبھی بھائی، کبھی دوست تو کبھی اکھٹے کام کرنے والے ساتھی، اب ایک بندہ بھلا کس کس کو منائے۔ ہاں مگر میری بیٹی فاطمہ، روٹھ جائے تو منانا ہی پڑتا ہے۔
بیٹیاں تو شہزادیاں ہوتیں ہیں۔۔۔
یٹیاں
( چند اشعار کہ پڑھتے ہی دل میں اتر جائیں )
" ان کو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں۔
ان سے قائم ہے تقدس بھی ہمارے گھر کا
صبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں۔
اپنی خدمت سے اُتر جاتی ہیں دل میں سب کے
ہر نئی نسل کو تہذیب یہ سکھلاتی ہیں۔
لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بٹیاں اپنی برے وقت میں کام آتی ہیں۔
اپنی سسرال کا ہر زخم چھپا لیتی ہیں
سامنے ماں کے جب آتی ہیں تو مسکاتی ہیں۔
بٹیاں ہوتی ہیں پُرنور چراغوں کی طرح
روشنی کرتی ہیں جس گھر میں چلی جاتی ہیں۔
بٹیوں کی ہے زمانے میں انوکھی خوشبو
یہ وہ کلیاں ہیں جو صحرا کو بھی مہکاتی ہیں۔
ایک بیٹی ہو تو کھل اُٹھتا ہے گھر کا آنگن
گھر وہی رہتا ہے پر رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔
فاطمہ زہرا کی تعظیم کو اُٹھتے تھے رسولﷺ
محترم بٹیاں اس واسطے کہلاتی ہیں۔
اپنے بابا کے کلیجے سے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلا جاتی ہیں۔
(منظر بھوپالی)