پہلے تو یہ طے ہونا چاہیے ذہین کہتے کسے ہیں
چور ماہر چوروں کو ذہین سمجھتے ہیں
ہمارے یہاں پرائیویٹ جاب کرنے والے سرکاری ملازمین کو ذہین سمجھتے ہیں
عوام کامیاب سیاست دانوں کو ذہین اور مکار سمجھتے ہیں
سیاست دان امیر ترین لوگوں کو ذہین سمجھتے ہیں
اکثر لوگ دین داروں کو ذہین کہتے ہیں
جاہل پڑھے لکھوں کو ذہین سمجھتے ہیں
ذہین لوگ ہوتے کون ہیں؟ اور یہ تحقیق کرنے والے آخر ہوتے کون ہیں جو دوسروں کو ذہین یا احمق کا لیبل لگاتے ہیں
تحقیقات کی بنیاد مختلف باتوں پر رکھی جاسکتی ہے۔ اگر علم التعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بھی بچوں یا طلبہ کی مختلف قسمیں بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر:
کند ذہن: جنہیں سمجھا یا جائے تو آسانی سے بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بار بار سمجھانا پڑتا ہے اور ان پر محنت ضروری ہے۔
اوسط ذہین: وہ جنہیں بات بیان کرنے پر سمجھ میں آجاتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک بات کو دہرانا پڑے۔ وہ کوشش کریں تو یاد بھی کر لیتے ہیں کہ آپ نے انہیں گزشتہ نشستوں میں کیا کیا سمجھایا تھا۔
ذہین: وہ ہوتے ہیں جو سمجھ بھی لیتے ہیں اور زیادہ کوشش کیے بغیر یاد بھی کرلیتے ہیں۔ دوبارہ سمجھانے کی نوبت نہ ہونے کے برابر آتی ہے جس کی وجہ بھی محض اتنی ہوتی ہے کہ آپ کی آواز ان تک نہ پہنچی ہو یا وہ ان الفاظ سے شناسا نہ ہوں جو آپ نے گفتگو کے دوران استعمال کردئیے۔
فطین: یہ ذہین سے اوپر کی قسم ہے۔ تخلیقی ذہن رکھنے والے، شاعر، ادیب، افسانہ نگار، مصور اور قلمکار سب اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں آپ کچھ نہ بھی سمجھائیے تو ان کے اندر اتنی صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ خود ہی نصاب کی کتاب اٹھا کر پڑھنا اور یاد کرلینا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ امتحان میں پاس ہونا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن ا ن پر تھوڑی محنت سے یہ انتہائی اہم درجوں تک پہنچ سکتے ہیں۔