یعنی وہ بھی رائے بنا جاتا ہے۔۔۔ہمارا انٹرنیٹ مرزا صاحب کی باتوں میں یوں مگن ہے کہ ہماری کیا اور کسی کی بھی نہیں سنتا۔
میں منتظر ہوں سر۔۔۔مجھے تفصیل سے بات کرنی تھی۔ بجلی ساتھ نہیں دے رہی۔
شکریہ زبیر بھائی۔۔اس سے یوں تو سبھی لوگ محظوظ ہوں گے لیکن وہ تین لوگ جہاں سے یہ داستان شروع ہوئی تھے زیادہ
لُطف لیں گے لڑکے اب تم منفرد اور برجستگی سے میدان ماررہے ہو - ویسے صبح کا آغاز اس شگفتہ تحریر سے
اچھا ہواہے -مزے دار بلکل الائچی والی دودھ پتی والی تحریر- لکھتے رہو اور خونِ دوعالم ہماری گردن پر
اس فرمائشی تحریر کے لیے رائے صاحب کا شکریہ - ویسے آج تک ہم یہی سمجھتے رہے فوری فرمائش صرف
فریدہ خانم پوری کرسکتی ہے لیکن ہوا معلوم کوئی فریدہ خانم ثانی بھی ہے
وہ مرزا جو ہم سے روٹھ گیافریدہ خانم ثانی
شکریہ عمر بھائیبہت اچھے ۔۔
شکریہ زبیر بھائی۔۔
ویسے دنیا میں نوجوان گلوکارنیاں بھی ہیں۔۔۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ کریں تو۔۔۔
یہ یہاں میں نے آپ ہی کے کسی مراسلے سے سیکھا تھا کہ فارسی الفاظ پر تذکیروتانیث کی تخصیص کے لئے عربی اصول لاگو نہیں کئے جا سکتے۔ کچھ ایسی بات کی تھی آپ نے۔گلوکارنی پر یاد آیا۔
بارے فن کار، گلو کار، ادا کار، وغیرہ پر میں نے تجویز کر دیا کہ بھائی تذکیر و تانیث کی تخصیص ایسے اسماء میں بہت ضروری ہو تو آپ اس پر ’’نی‘‘ داخل کر دیں۔ میرے ایک محترم دوست باضابطہ ناراض ہو گئے۔
کچھ نہ پوچھئے پھر کیا بیتی!
اس کے بغیر بھی جملہ بھلا ہی معلوم ہو رہا ہے۔ تحریر کو بار بار میں نے پڑھا ہی نہیں تھا۔ ابھی آپ کی تجاویز کے مطابق کچھ تبدیلیاں کرتا ہوں۔’’اس تعمیقی مباحثے کی بدولت بڑی تیزی سے موضوع تجسیمی ہوا جاتا تھا۔باتوں باتوں میں حسن بھی زیر بحث آگیا۔‘‘
شگفتہ نگاری میں اس طرح کے بھاری بھرک وضعی الفاظ گرانی پیدا کرتے ہیں۔
’’ کافی دیر سے صنف نازک کے موضوع پر بڑی ہی تفصیلی روشنی ڈالی جا رہی تھی‘‘
اس کے ہوتے ہوئے، مذکورہ بالا تعمیقی تجسیمی کی ضرورت نہیں رہتی۔
یعنی مکالماتی جملے واوین میں لکھے جائیں؟ میں نے مصرعے تو واوین میں کئے ہیں۔ لیکن مکالمہ کے لئے نہیں۔مکالموں میں واوین کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رواں پیراگراف میں کبھی واوین سے صَرفِ نظر کر بھی لیتے ہیں، تاہم نہ کریں تو اچھا ہے۔
مرزا کی اس مکالمے والی شخصیت کے پیشِ نظر ان کے منہ سے اپنے لئے جمع کا صیغہ زیادہ جچے گا۔
میں نے پہلے ایسا ہی کیا۔ کہ مرزا کے لئے صیغہ جمع اور مخاطب کے لئے تم لیکن بعد میں پتا نہیں کیا دماغ میں سمائی کہ بدل ہی دیا۔مزید یہ کہ وہ اپنے مخاطب یعنی رائے صاحب کو ’’تم‘‘ کہہ کر پکاریں تو (اس تحریر میں) چاشنی بڑھے گی۔ عمومی اخلاقی پیرایہ اپنی جگہ مسلم؛ مرزا صاحب جیسے کردار کی زبانی تو، تم اور آپ کا استعمال ہلکی پھلکی تحریروں کی فضا بنانے میں ممد ہوا کرتا ہے۔
اظہار خیال پر ممنون ہوں لئیق بھائیبہت خوب۔
ایک آدھا جملہ اور ذہن میں نہ آیا تو دوسری صورت پر منتقل ہوا جائے گا۔اوہ بھائی! "نو" "جوان"۔ یعنی تعداد نو ۔ ایک تو یہ زبان کی باریکیوں نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ مرزا سٹپٹا کر بولے۔
نوجوان کی یہ تاویل غلط نہیں تاہم یہاں قاری ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
اس سے پہلے ایک آدھ جملے میں قاری کے ذہن کو اس طرف موڑ دیا جائے یا پھر اس عددی نظام کو قلم زد کر دیا جائے۔