رائے صاحب اور مرزا از قلم نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمارا انٹرنیٹ مرزا صاحب کی باتوں میں یوں مگن ہے کہ ہماری کیا اور کسی کی بھی نہیں سنتا۔
یعنی وہ بھی رائے بنا جاتا ہے۔۔۔ :)

مجھے تفصیل سے بات کرنی تھی۔ بجلی ساتھ نہیں دے رہی۔
میں منتظر ہوں سر۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس سے یوں تو سبھی لوگ محظوظ ہوں گے لیکن وہ تین لوگ جہاں سے یہ داستان شروع ہوئی تھے زیادہ
لُطف لیں گے :) لڑکے اب تم منفرد اور برجستگی سے میدان ماررہے ہو:) - ویسے صبح کا آغاز اس شگفتہ تحریر سے
اچھا ہواہے -مزے دار بلکل الائچی والی دودھ پتی والی تحریر- لکھتے رہو اور خونِ دوعالم ہماری گردن پر :)
اس فرمائشی تحریر کے لیے رائے صاحب کا شکریہ - ویسے آج تک ہم یہی سمجھتے رہے فوری فرمائش صرف
فریدہ خانم پوری کرسکتی ہے لیکن ہوا معلوم کوئی فریدہ خانم ثانی بھی ہے :)
شکریہ زبیر بھائی۔۔ :)
ویسے دنیا میں نوجوان گلوکارنیاں بھی ہیں۔۔۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ کریں تو۔۔۔ :p
 
شکریہ زبیر بھائی۔۔ :)
ویسے دنیا میں نوجوان گلوکارنیاں بھی ہیں۔۔۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ کریں تو۔۔۔ :p

گلوکارنی پر یاد آیا۔
بارے فن کار، گلو کار، ادا کار، وغیرہ پر میں نے تجویز کر دیا کہ بھائی تذکیر و تانیث کی تخصیص ایسے اسماء میں بہت ضروری ہو تو آپ اس پر ’’نی‘‘ داخل کر دیں۔ میرے ایک محترم دوست باضابطہ ناراض ہو گئے۔
کچھ نہ پوچھئے پھر کیا بیتی!
 
’’اس تعمیقی مباحثے کی بدولت بڑی تیزی سے موضوع تجسیمی ہوا جاتا تھا۔باتوں باتوں میں حسن بھی زیر بحث آگیا۔‘‘
شگفتہ نگاری میں اس طرح کے بھاری بھرک وضعی الفاظ گرانی پیدا کرتے ہیں۔

’’ کافی دیر سے صنف نازک کے موضوع پر بڑی ہی تفصیلی روشنی ڈالی جا رہی تھی‘‘
اس کے ہوتے ہوئے، مذکورہ بالا تعمیقی تجسیمی کی ضرورت نہیں رہتی۔
 
مکالموں میں واوین کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رواں پیراگراف میں کبھی واوین سے صَرفِ نظر کر بھی لیتے ہیں، تاہم نہ کریں تو اچھا ہے۔
 
مزید یہ کہ وہ اپنے مخاطب یعنی رائے صاحب کو ’’تم‘‘ کہہ کر پکاریں تو (اس تحریر میں) چاشنی بڑھے گی۔ عمومی اخلاقی پیرایہ اپنی جگہ مسلم؛ مرزا صاحب جیسے کردار کی زبانی تو، تم اور آپ کا استعمال ہلکی پھلکی تحریروں کی فضا بنانے میں ممد ہوا کرتا ہے۔
 
آخری تدوین:
اوہ بھائی! "نو" "جوان"۔ یعنی تعداد نو ۔ ایک تو یہ زبان کی باریکیوں نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ مرزا سٹپٹا کر بولے۔

نوجوان کی یہ تاویل غلط نہیں تاہم یہاں قاری ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
اس سے پہلے ایک آدھ جملے میں قاری کے ذہن کو اس طرف موڑ دیا جائے یا پھر اس عددی نظام کو قلم زد کر دیا جائے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
گلوکارنی پر یاد آیا۔
بارے فن کار، گلو کار، ادا کار، وغیرہ پر میں نے تجویز کر دیا کہ بھائی تذکیر و تانیث کی تخصیص ایسے اسماء میں بہت ضروری ہو تو آپ اس پر ’’نی‘‘ داخل کر دیں۔ میرے ایک محترم دوست باضابطہ ناراض ہو گئے۔
کچھ نہ پوچھئے پھر کیا بیتی!
یہ یہاں میں نے آپ ہی کے کسی مراسلے سے سیکھا تھا کہ فارسی الفاظ پر تذکیروتانیث کی تخصیص کے لئے عربی اصول لاگو نہیں کئے جا سکتے۔ کچھ ایسی بات کی تھی آپ نے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
’’اس تعمیقی مباحثے کی بدولت بڑی تیزی سے موضوع تجسیمی ہوا جاتا تھا۔باتوں باتوں میں حسن بھی زیر بحث آگیا۔‘‘
شگفتہ نگاری میں اس طرح کے بھاری بھرک وضعی الفاظ گرانی پیدا کرتے ہیں۔

’’ کافی دیر سے صنف نازک کے موضوع پر بڑی ہی تفصیلی روشنی ڈالی جا رہی تھی‘‘
اس کے ہوتے ہوئے، مذکورہ بالا تعمیقی تجسیمی کی ضرورت نہیں رہتی۔
اس کے بغیر بھی جملہ بھلا ہی معلوم ہو رہا ہے۔ تحریر کو بار بار میں نے پڑھا ہی نہیں تھا۔ ابھی آپ کی تجاویز کے مطابق کچھ تبدیلیاں کرتا ہوں۔
 
مرزا بغور اس لڑکے جائزہ لینے لگے۔ گویا قصاب قربانی کے جانور کو تاڑ رہا ہو۔

یہاں ایک جملہ تجویز کروں؟
مرزا اس لڑکے کا یوں جائزہ لینے لگے جیسے قصاب آنکھوں آنکھوں میں جانور کو تولتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مکالموں میں واوین کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رواں پیراگراف میں کبھی واوین سے صَرفِ نظر کر بھی لیتے ہیں، تاہم نہ کریں تو اچھا ہے۔
یعنی مکالماتی جملے واوین میں لکھے جائیں؟ میں نے مصرعے تو واوین میں کئے ہیں۔ لیکن مکالمہ کے لئے نہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مرزا کی اس مکالمے والی شخصیت کے پیشِ نظر ان کے منہ سے اپنے لئے جمع کا صیغہ زیادہ جچے گا۔
مزید یہ کہ وہ اپنے مخاطب یعنی رائے صاحب کو ’’تم‘‘ کہہ کر پکاریں تو (اس تحریر میں) چاشنی بڑھے گی۔ عمومی اخلاقی پیرایہ اپنی جگہ مسلم؛ مرزا صاحب جیسے کردار کی زبانی تو، تم اور آپ کا استعمال ہلکی پھلکی تحریروں کی فضا بنانے میں ممد ہوا کرتا ہے۔
میں نے پہلے ایسا ہی کیا۔ کہ مرزا کے لئے صیغہ جمع اور مخاطب کے لئے تم لیکن بعد میں پتا نہیں کیا دماغ میں سمائی کہ بدل ہی دیا۔
 
بھئی ہم بے وفا نہیں۔ ہم نے بچپن کے تمام عشقوں کا ابھی تک سینے سے لگا رکھا ہے۔ مرزا نے پکے ٹوٹے عاشق کے انداز میں کہا۔

یہاں مرزا کا انداز جچ رہا ہے۔ تاہم عشقوں کی جگہ کوئی معاشقوں جیسا کوئی لفظ ہوتا تو لطف دوبالا ہو جاتا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اوہ بھائی! "نو" "جوان"۔ یعنی تعداد نو ۔ ایک تو یہ زبان کی باریکیوں نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ مرزا سٹپٹا کر بولے۔

نوجوان کی یہ تاویل غلط نہیں تاہم یہاں قاری ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
اس سے پہلے ایک آدھ جملے میں قاری کے ذہن کو اس طرف موڑ دیا جائے یا پھر اس عددی نظام کو قلم زد کر دیا جائے۔
ایک آدھا جملہ اور ذہن میں نہ آیا تو دوسری صورت پر منتقل ہوا جائے گا۔ :)
 
Top