غزل
چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے
(تھر تھرا اٹھتی ہے خاموش فضا رات گئے)
کون دیتا ہے یہ گلیوں میں صدا رات گئے
بھیگی بھیگی ہوئی موسم کی ہواؤں پہ نہ جا
ان پہ بر سے گی شرابوں کی گھٹا رات گئے
دن کے ہنگاموں میں کیا کوئی کسک ہو محسوس
دل کی ہر چوٹ کا چلتا ہے پتا رات گئے
یہ حقائق کی چٹانوں سے تراشی دنیا
اوڑھ لیتی ہے طلسموں کی ردا رات گئے
چبھ کے رہ جاتی ہے سینے میں بدن کی خوشبو
کھول دیتا ہے کوئی بند قبا رات گئے
آؤ ہم جسم کی شمعوں سے اجالا کر لیں
چاند نکلا بھی تو نکلے گا ذرا رات گئے
تو نہ اب آئے تو کیا آج تلک آتی ہے
سیڑھیوں سے ترے قدموں کی صدا رات گئے
(جاں نثار اختر)