رات، رتیاں، رین اور شب کے الفاظ پر مبنی اردو اشعار

زیرک

محفلین
احباب سے گزارش ہے کہ اس دھاگے میں رات، رَتیاں، رَین اور شب کے الفاظ پر مبنی اردو اشعار بانٹیے، شکریہ

ایک بس تم ہی نہیں رات کے گھائل فرحت
خاک اڑتی ہے ہماری بھی اِدھر شام کے بعد
فرحت عباس شاہ
 

زیرک

محفلین
ساجن یہ مت جانیو توہے بچھڑت موہے چین
دیا جلت ہے رات میں اور جیا جلت دن رین
امیر خسرو​
 

زیرک

محفلین
ان اجالوں کی دھن میں ‌پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں
رین اندھیری ہے اور کنارہ دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں
ناصر کاظمی​
 

زیرک

محفلین
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رَتیاں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں​
 

زیرک

محفلین
پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مِٹا مِٹا کے بنایا کریں گی آپ
جون ایلیا​
 

زیرک

محفلین
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر​
 
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے

دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا
شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے

کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں
موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے

ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس
ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے

چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ
ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے
وصی شاہ
 
شبِ مہتاب و شامِ زندگانی یاد آتی ہے
مجھے پھر آج اک بھولی کہانی یاد آتی ہے
کسی کا وہ مری خلوت میں‌شرماتے ہوئے آنا
تلاطم خیز رفتارِ جوانی یاد آتی ہے
 

فہد اشرف

محفلین
غزل

چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے
(تھر تھرا اٹھتی ہے خاموش فضا رات گئے)
کون دیتا ہے یہ گلیوں میں صدا رات گئے

بھیگی بھیگی ہوئی موسم کی ہواؤں پہ نہ جا
ان پہ بر سے گی شرابوں کی گھٹا رات گئے

دن کے ہنگاموں میں کیا کوئی کسک ہو محسوس
دل کی ہر چوٹ کا چلتا ہے پتا رات گئے

یہ حقائق کی چٹانوں سے تراشی دنیا
اوڑھ لیتی ہے طلسموں کی ردا رات گئے

چبھ کے رہ جاتی ہے سینے میں بدن کی خوشبو
کھول دیتا ہے کوئی بند قبا رات گئے

آؤ ہم جسم کی شمعوں سے اجالا کر لیں
چاند نکلا بھی تو نکلے گا ذرا رات گئے

تو نہ اب آئے تو کیا آج تلک آتی ہے
سیڑھیوں سے ترے قدموں کی صدا رات گئے

(جاں نثار اختر)

 

زیرک

محفلین
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
احسن رضا احسن​
 

زیرک

محفلین
وصل کی شب تھی اور اجالے کر رکھے تھے
جسم و جاں سب اس کے حوالے کر رکھے تھے
حیدر قریشی​
 
Top