اور دِن بَدِن یوں لکھا جاتا ہے۔ جبکہ دن سنسکرت سے ماخوذ ہے اور بہ فارسی سے ۔اور کہا جاتا ہے کہ دنوں کا خلط جائز نہیں کیا خیال ہے عاطف بھائی؟؟؟ تاہم یہ عام مستعمل ہے
مستعمل تو بہت کچھ ہے؛ صاحبو! اور جو کچھ مستعمل ہے ضروری نہیں کہ وہ درست بھی ہو، درست و نا درست تو دیکھنا پڑے گا، ہر جگہ! کیا خیال ہے؟
 
مستعمل تو بہت کچھ ہے؛ صاحبو! اور جو کچھ مستعمل ہے ضروری نہیں کہ وہ درست بھی ہو، درست و نا درست تو دیکھنا پڑے گا، ہر جگہ! کیا خیال ہے؟
میرا خیال ہے کہ ”دن بہ دن“ غلط العام ہے ”سوفی صد“ کی طرح۔۔۔ اس کا استعمال دن بہ دن اتنا بڑھا کہ اب یہ سوفی صد درست معلوم ہوتا ہے۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ”دن بہ دن“ غلط العام ہے ”سوفی صد“ کی طرح۔۔۔ اس کا استعمال دن بہ دن اتنا بڑھا کہ اب یہ سوفی صد درست معلوم ہوتا ہے۔ :)
اس سے ملتا جلتا ڈائیلاگ کہیں سنا تھا کہ جھوٹ اتنی بار بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے اور آخر کاراسے سچ مان لیا جائے:)
 
میرا خیال ہے کہ ”دن بہ دن“ غلط العام ہے ”سوفی صد“ کی طرح۔۔۔ اس کا استعمال دن بہ دن اتنا بڑھا کہ اب یہ سوفی صد درست معلوم ہوتا ہے۔ :)
سو فی صد والی بات اور ہے اور یہ بالکل درست ہے۔ سو فی صد کا مطلب ہے سو میں سے سو یعنی سب کے سب، پورا، مکمل وغیرہ؛
مثلاً: مجھے آپ سے سو فی صد اتفاق ہے۔ فلاں شہر کی ستر فی صد آبادی محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ اسے امسال بیس فی صد منافع حاصل ہوا۔ فلاں کام یا بات کا ایک فی صد بھی امکان نہیں؛ وغیرہم۔
 
اس سے ملتا جلتا ڈائیلاگ کہیں سنا تھا کہ جھوٹ اتنی بار بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے اور آخر کاراسے سچ مان لیا جائے:)
کسی زمانے میں (1968 سے 1972 تک کا تو مجھے علم ہے) روزنامہ امروز لاہور میں ایک کالم ہوا کرتا تھا: ’’جھوٹی باتیں‘‘ (نصیر انور)۔
اس کالم کی پیشانی کا جملہ تھا: ’’جب دنیا میں جھوٹ اتنا عام ہو کہ سچ ہو جائے تو اتنا سچ بول کہ وہ جھوٹ ہو جائے‘‘۔

آداب۔
 
سو فی صد والی بات اور ہے اور یہ بالکل درست ہے۔ سو فی صد کا مطلب ہے سو میں سے سو یعنی سب کے سب، پورا، مکمل وغیرہ؛
مثلاً: مجھے آپ سے سو فی صد اتفاق ہے۔ فلاں شہر کی ستر فی صد آبادی محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ اسے امسال بیس فی صد منافع حاصل ہوا۔ فلاں کام یا بات کا ایک فی صد بھی امکان نہیں؛ وغیرہم۔
جس طرح دن بہ دن میں ”ب“ حرف جر جو کہ خالص فارسی ہے اسے خالص اردو کے لفظ (دن) پر داخل کیا گیا ہے اسی طرح ”فی“ جو کہ خالص عربی ہے اسے خالص فارسی لفظ(صد) پر داخل کیا گیا ہے۔
 
جس طرح دن بہ دن میں ”ب“ حرف جر جو کہ خالص فارسی ہے اسے خالص اردو کے لفظ (دن) پر داخل کیا گیا ہے اسی طرح ”فی“ جو کہ خالص عربی ہے اسے خالص فارسی لفظ(صد) پر داخل کیا گیا ہے۔

عربی اور فارسی کے خلط سے تراکیب باندھنا درست ہیں جیسے عام اضافتیں بھی عربی اور فارسی الفاظ میں جائز رہتی ہیں۔
البتہ ہندی کا خلط جائز نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں عربی فارسی سے تراکیب باندھنے کا قاعدہ مطلق طورہر جگہ پر درست نہیں ہو گا ۔محض وہ مرکب الفاظ و تراکیب جو زبان کے محاورے کے مطابق یا اور اہل زبان کے اسلوب سےمناسبت رکھتے ہیں اور ہموار محسوس ہوتے ہیں۔
مثلاً ۔ اسپ سوار یا گھڑ سوار صحیح ہوں گے لیکن۔ خیل سوار۔ یا فرس سوار۔ حصان سوار ۔۔۔وغیرہم محاورے سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے عجیب محسوس ہوں گے اگرچہ کتنے ہی با معنی ہوں ۔جیسے ۔شبانہ۔ روزانہ۔ کی طرح ۔عامیانہ۔ اور۔ سوقیانہ۔ تو محاورے میں ڈھلے ہوئے ہیں لیکن ۔ خاصیانہ۔ با لکل اجنبی ہے۔۔۔۔اسی طرح عالم گیر درست ہے مگر دنیا گیر غلط ہے اگر چہ معنوی اعتبار سے کوئی تعارض نہیں لیکن وجہ صرف اہل زبان کے مقبول محاورے سے غیر موافق ہونا ہے۔
یہاں زبان کا محاورہ اور اہل زبان کے قبولیت زیادہ بنیادی اہمیت اس کی ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔۔ میرے خیال دن بہ دن کو غلط یا غلط العام کہنا بھی غلط ہے اگر چہ اصل کے اعتبار سے روز بہ روز زیادہ قرین قرینہ ہے۔۔ کیوں کہ اس میں کوئی بات خلاف واقعہ یا حقیقتاً غلط نہیں۔یہ صرف میرا ذاتی خیال ہے اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
عربی اور فارسی کے خلط سے تراکیب باندھنا درست ہیں جیسے عام اضافتیں بھی عربی اور فارسی الفاظ میں جائز رہتی ہیں۔
البتہ ہندی کا خلط جائز نہیں۔
عربی اور فارسی کے اسماء کا خلط تو عمومی طور پر روا کہا جاسکتا ہے ، مگر حروف کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔
بالخصوص یہاں بات حرف جر کی ہورہی ہے، مثلا ”فی“ عربی کا حرف جر ہے ، اسے ہم ہر فارسی اسم پر داخل کرنے کو جائز نہیں گردان سکتے ، ”فی الوقت“ تو درست ہے مگر ”فی گاہ“ درست نہیں۔
اس بات کے تناظر میں تو ”فی کس“ اور ”فی صد“ جیسی مثالیں غلط العام کی قبیل سے ہوں گی نا۔
 
”محاکات“ اور ”تخییل“ کی تعریف اور مثالوں کے ساتھ تفصیلی وضاحت مطلوب ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
اس جواب کے لیے تو اچھا خاصا وقت درکار ہے۔ فی الوقت نہیں لکھ پاؤنگا۔ اور اگر لکھا بھی تو تسلی بخش وضاحت نہیں ہو پائے گی۔ اسے ادھار کرلیں؟
یا حضرت یعقوب آسی اگر کچھ نظر ڈالیں۔۔۔گو کہ وہ ادبی اصطلاحات کو پسند نہیں فرماتے ۔ بہر حال ان کا انتظار کرکے دیکھتے ہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
”محاکات“ اور ”تخییل“ کی تعریف اور مثالوں کے ساتھ تفصیلی وضاحت مطلوب ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
محاکات کا ترجمہ تو درج ذیل ہے۔ باقی کے لیےآپ کے ساتھ چشمِ براہ ہیں

محاکات
1 - ( مصدر ) حکایت کردن با یکدیگر . 2 - عین قول کسی را نقل کردن باز گفتن . 3 - مشابه بودن . 4 - ( اسم ) گفتگو . 5 - شباهت .

با هم حکایت کردن

محاکات : بمعنی منظر کشی، تصویر کشی
کسی چیز کی نقل اتارنےکو کہتے ہیں کہ اس کی تصویر ہو بہو آنکھوں کے سامنے پھر جائے
 
آخری تدوین:
Top